جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق عدالت عظمیٰ کے 19 جون کے اکثریتی فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی۔
19 جون کے اکثریتی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے ٹیکس حکام کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود 3 آف شور جائیدادوں کی تصدیق کی ہدایت کی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نظرثانی درخواست کے ساتھ ساتھ سرینا عیسیٰ نے حکم امتناع کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو/کمشنر نے ان کے والد کے انتقال اور شوہر کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے غیرمہذب طریقے سے جلد بازی کے ساتھ کارروائی کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا کہ انہوں نے درخواست گزار کو اپنی زندگی میں ہونے والے نقصان کا غم بھی نہیں کرنے دیا، انہیں درخواست گزار کے شوہر کو جان سے مارنے کی دھمکیوں سے کوئی سروکار نہیں اور وہ تفصیلی فیصلے کا انتظار نہیں کررہے۔
ذاتی حیثیت میں دائر کی گئی نظر ثانی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ 'وہ (ایف بی آر) مستقل مزاجی کے ساتھ اس مقصد کو پورا کررہے ہیں تاکہ درخواست گزار کو کسی بھی قانونی چارہ جوئی سے محروم رکھیں'۔
مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف نظرثانی درخواست
خیال رہے کہ ان سے قبل پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے)، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس ایچ سی بی اے) کی جانب سے بھی سپریم کورٹ میں 7 ججز کے اکثریتی فیصلے میں پیراگرافس نمبر 3 سے 11 کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی جاچکی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ کسی بھی نجی شہری کے ٹیکس کے معاملات خفیہ ہیں، وہ دیگر شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہوتے اور نہ ہہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ حکم میں عوامی اہمیت کے تحت نجی شہریوں کے ٹیکس واجبات کی تحقیقات کی ہدایت کی گئی۔
نظرثانی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایسا کرنے سے بنیادی حقوق اور عوامی اہمیت کی خلاف ورزیوں کی ضروری شرائط کو پورا نہیں کیا جاسکتا جو سپریم کورٹ میں آرٹیکل (3)184 کے اختیارات کو متحرک کرتی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ آف شور اثاثوں اور آف شور چوری سے متعلق شرائط کو پہلی مرتبہ فنانس ایکٹ، 2019 کے ذریعے 30 جون، 2019 کو شائع کیا گیا تھا۔
سرینا عیسیٰ نے استدعا کی کہ اس قانون میں تبدیلی کے بعد جس کے تحت جائیدادوں کو ظاہر کرنے کی ضرورت تھی انہوں نے ٹیکس سال 2018 اور 2019 کے ٹیکس گوشواروں میں 3 غیر ملکی جائیدادوں کو ظاہر کیا تھا اور درخواست دائر کرنے کی تاریخ تک انہیں ٹیکس سال یا ٹیکس گوشواروں کے ضمن میں ایک بھی نوٹس موصول نہیں ہوا کہ انہوں نے جائیدادیں ظاہر نہیں کی، یا چھپائیں یا غلط معلومات فراہم کیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل (3) 184کے تحت 19 جون کا حکم جاری کرتے ہوئے مؤثر طریقے سے لوگوں کا ایک طبقہ تشکیل دیا اور اس طبقے میں شامل انفرادی شہریوں کے نجی اور خفیہ معاملات کو ’عوامی اہمیت‘ کے معاملات کے طور پر بیان کیا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ اس کلاس میں ججز کے شریک حیات اور بچے شامل ہیں، جن کے اثاثے اور واجبات کو عوامی اہمیت کا درجہ دیا گیا ہے جو پاکستان کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ درخواست میں زور دیا گیا کہ کسی قانونی بنیاد کے بغیر عدالتی حکم کی حمایت سے ایسے طبقے کی تشکیل ناگوار ہوسکتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا کہ اس طبقے میں عدالت عظمیٰ کا سلوک امتیازی ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت اعلی عدالتوں کے تمام ججز تیسرے شیڈول کے تحت ایک حلف اٹھاتے ہیں۔
درخواست کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے تمام ججز ایک ہی ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت اسی فورم، سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے ذریعے نمٹائی جاتی ہے۔ تاہم درخواست میں یہ الزام لگایا گیا کہ آرٹیکل (3)184 کے تحت سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیے گئے طبقے کے تمام افراد کو بے دخل کرنے کے لیے درخواست گزار اور ان کے بچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ ان سے اور ان کے بچوں سے ذرائع آمدن کی وضاحت طلب کی جارہی ہے تاکہ اعلیٰ عدالتوں کے تمام موجودہ 139 ججز اور چیف جسٹس کے شریک حیات اور بچوں کو خارج کردیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیے گئے طبقے کے صرف ایک فرد کے ساتھ اسی طبقے کے دیگر افراد کے مقابلے میں بالکل مختلف سلوک کیا جارہا ہے جو آئین کے آرٹیکل 25 میں دیے گئے مساوی تحفظ کے حق اور امتیازی سلوک کے خلاف ضمانت کی خلاف ورزی ہے۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ درخواست گزار سے اعلی عدالتوں کے دیگر تمام ججز کی شریک حیات اور ان کے بچوں سے اعلی عدالتوں کے دیگر ججز کے بچوں سے مختلف سلوک روا رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے جج کی شریک حیات ہونے کی وجہ سے درخواست کے لیے کوئی نئی ذمہ داری پیدا کی گئی تو اسے لازمی طور پر ججز کی شریک حیات اور بچوں کے نئے طبقے کے تمام اراکین پر سخت سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت دوبارہ جھوٹے الزامات لگانے سے باز آجاتی وہ یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے وقت، رقم اور کوشش کے لیے ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا، کسی بھی سفر اور روزمرہ کے الاؤنس سے فائدہ نہیں اٹھایا اور جو کیا اس کی تشہیر نہیں کی۔ درخواست میں کہا گیا کہ وہ اس سب کے لیے شکریہ یا اعتراف وصول نہیں کرنا چاہتیں، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے کراچی میں مکمل طور پر مصروف زندگی بسر کی، ملازمت کی، بچوں کی پرورش کی اور ایک گھر چلایا، لہذا جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ بلوچستان چلی گئیں تو انہوں نے اس موقع کا استعمال لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے میں کیا۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ انہوں نے کسی کے سامنے انکشاف نہیں کیا کہ انہوں نے کیا کیا اور شاید کبھی نہیں کیا ہوگا، لیکن جب حکومت کی طرف سے ان کو ایذا رسانی کا خاتمہ نہیں ہوا اور وزیر قانون فروغ نسیم جیسے لوگوں نے یہ کہا کہ درخواست گزار کو فوائد حاصل کرنے پر شکر گزار ہونا چاہیے اور وہ شوہر کی موت کے بعد پنشن لینے کی حقدار ہوں گی تو یہ انتہائی منافقت تھی ، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ درخواست گزار نے جو کچھ کیا وہ چیف جسٹس، گورنر، صدر، وزیر اعظم اور مسلح افواج کے سربراہان کی شریک حیات جو کرتی ہیں اس سے زیادہ نہیں تھا۔
علاوہ ازیں گزشتہ روز سپریم کورٹ میں اپنے خلاف ریفرنس کے معاملے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ کے 19 جون کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے درخواست میں عدالت عظمیٰ سے فیصلے پر نظرثانی کر کے عبوری حکم کو ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نظرثانی درخواست پر فیصلے تک عدالتی فیصلے پر عملدرآمد روک دیا جائے اور عبوری حکم سے پہلے ہماری زیر التوا متفرق درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار تھا جس میں تاخیر کی گئی، نظرثانی درخواست داخل کرنے کی مدت گزر نہ جائے اس لیے درخواست دائر کر رہا ہوں جبکہ اضافی دستاویزات جمع کروانے کا حق محفوظ ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں سزا دی جارہی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے شوہر کی حیثیت سے ایک بھی فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ انہوں نے اور ان کے بچوں نے یہ جائیداد خود اپنے پیسوں سے خریدی تھی اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا جارہا تھا۔ تاہم درخواست میں کہا گیا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ وزیراعظم عمران خان جنہوں نے حکومت سے پلاٹ مانگا اور حاصل کیا تھا ان سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا گیا تھا لیکن ان کی حکومت نے درخواست گزار پر انگلی اٹھائی اور جھوٹ پھیلائے۔
درخواست میں دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے بعد درخواست گزار کو وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ماتحت ادارے ایف بی آر کے آگے پیش کردیا گیا۔
صدارتی ریفرنس پر عبوری فیصلہ
واضح رہے کہ 19 جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی، فل کورٹ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔
یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں، اس دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں خود پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ
دوران سماعت جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے پر جواب الجواب دیا جس کے بعد 19 جون کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا اور اسی روز جاری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ سنایا، بعد ازاں مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس میں تین ججز نے اکثریت فیصلے سے اختلاف میں اضافی نوٹ لکھا۔
عدالت عظمیٰ نے مختصر تحریری فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جاری کیا گیا شوکاز نوٹس بھی منسوخ کردیا، مزید یہ کہ عدالت کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ ایف بی آر 7 روز میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرے، نوٹس ہر پراپرٹی کا الگ الگ بھجوایا جائے، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نوٹس جسٹس عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوایا جائے اور ایف بی آر معاملے کو التوا میں نہ ڈالے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قانون کی کارروائی بنتی ہو تو سپریم جوڈیشل کونسل مجاز ہوگی، چیئرمیں ایف بی آر اپنے دستخط سے رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں لیکن انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا، بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔
اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار کی جسٹس عیسیٰ کیس کے فیصلے کے پیراگرافس حذف کرنے کی درخواست
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کردیا تھا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف زیر کفالت اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا نہ ہی انہیں جواب دینا کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔
جسٹس قاضیٰ عیسیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ میرے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی ہیں۔