پاکستان کے لاکھوں بچوں کو پولیو سے محفوظ رکھنے کیلئے ویکسین کی فراہمی واحد حل
گزشتہ کئی سالوں سے حبیبہ حیدر انتہائی مشکل صورت حال کا سامنا کر رہی ہیں، کراچی کے علاقے سائٹ ایریا کی لیڈی ہیلتھ سپروائزر کو اکثر سیکیورٹی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں انہیں مہم ترک کرنے یا ہار ماننے کے لیے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔
تاہم وہ کبھی بھی والدین کو ان کے بچوں کے تحفظ کے لیے پولیو ویکسین کی اہمیت بتانے اور ان کے بچوں کو اس متعدی بیماری سے تحفظ دینے کے لیے اس کی افادیت بتانے سے نہیں گھبراتیں۔
اس وقت حبیبہ حیدر کو پولیو مہم کے حوالے سے کچھ مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
پولیو کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان کو موجودہ حالات میں تشویشناک صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ ملک کے بیشتر اہم شہروں کے سیوریج میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
رواں سال میں اب تک ملک بھر سے پولیو کے 59 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 21 خیبر پختونخوا، 20 سندھ، 14 بلوچستان اور پنجاب سے 4 کیسز رپورٹ ہوئے۔
دوسری جانب رواں سال مارچ سے اب تک کووڈ 19 کی وجہ سے نافذ کیے گئے سخت لاک ڈاؤن کے باعث انسداد پولیو مہم بری طرح متاثر ہوئی ہے لیکن لاک ڈاؤن میں نرمی کی صورت میں بھی یہ خدشہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے باعث والدین اپنے بچوں کو ویکسینیشن سے دور رکھیں گے، جو ویکسین کے ذریعے ختم ہونے والے وائرس سے لاکھوں بچوں کے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا کردے گا۔
پاکستان نے اپنے جیسے دیگر ممالک کی طرح کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جسمانی فاصلے کو برقرار رکھنے کی غرض سے عارضی طور پر (جو بلا جواز نہیں) ویکسینیشن کی مہمات کو معطل کردیا تھا، جن میں انسداد پولیو مہم بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ہی تمام پر توجہ کورونا وائرس سے جنگ کی جانب مبذول ہوگئی تھی۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی وبا و لاک ڈاؤن سے لاکھوں بچوں کی صحت داؤ پر لگ گئی
یہ سب اس وقت ہوا جب عالمی ادارہ صحت اور دیگر بین الاقوامی صحت کے حکام نے غیر معمولی فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا میں جاری تمام ویکسین سے متعلق مہمات کو عارضی طور پر روک دیا جائے، جبکہ 24 مارچ کو عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم (جی پی ای آئی) نے بھی اعلان کیا کہ تمام ویکسینیشن پروگرام 2020 کے دوسرے حصے تک روک دیئے جائیں۔
جیسا کہ اُمید کی جارہی تھی کہ گھر گھر جاری مہم معطل ہونے کے باعث ویکسین کی عدم فراہمی سے پولیو کے خاتمے کے لیے کیے گئے اقدامات متاثر ہوں گے اور اس کی وجہ سے لاکھوں بچے حفاظتی ویکسین حاصل نہیں کرسکیں گے، جن میں 7 لاکھ نومولود بھی شامل ہیں۔
ویسے تو معمول کی ویکسینیشن کی فراہمی دو ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع کر دی گئی تھی تاہم تاحال گھر گھر جا کر پولیو مہم کا آغاز نہیں ہوسکا۔
واضح رہے کہ ماہرین دیگر متعدی امراض میں اضافے کے حوالے سے بھی خبردار کررہے ہیں اور خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ پاکستان میں کووڈ 19 کے بعد کی صورتحال دوسری خطرناک بیماریوں کے لیے پریشان کن ہوجائے گی جو اس دوران مکمل طور پر نظر انداز کی گئی تھیں۔
جہاں تک پولیو کی بات ہے، طویل عرصے سے ویکسینیشن کی مہمات روکے جانے کے باعث بچوں کی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گھر گھر جا کر پولیو کی ویکسینیشن فراہم کرنے کے معاملے کو ترک کرنا نا صرف مشکل تھا بلکہ اپنی نوعیت میں نیا اقدام تھا۔
پولیو پروگرام کے تحت یہ معلوم کیا جا چکا ہے کہ پاکستان میں وائلڈ پولیو وائرس (ڈبلیو پی وی ون) اور ویکسین کے تحت پولیو وائرس ٹائپ ٹو (سی وی ڈی پی وی ٹو) پھیل رہا ہے، جہاں یہ 28 متاثرہ اضلاع میں 59 اور 47 کیسز تک پہنچ چکا ہے۔
اگر اس تعداد کو گزشتہ سال کے اسی عرصے سے موازنہ کیا جائے تو یہ تشویشناک ہے کیونکہ گزشتہ سال ڈبلیو پی وی کے کیسز کی تعداد 44 تھی جبکہ سی وی ڈی پی وی ٹو کے کیسز کی تعداد صفر تھی۔
وبا پر قابو پانے میں ناکامی ان علاقوں میں ڈبلیو پی وی ون اور سی وی ڈی پی وی ٹو کی شروعات کی وجہ بنی، اگر آبادی کو مکمل طور پر ویکسین فراہم کی جائے تو یہ پولیو کے دونوں قسم کے وائرس سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
یہ صورت حال حکومت کی جانب سے 20 جولائی سے دوبارہ پولیو مہم کے آغاز کا فیصلہ لینے کا باعث بنی ہے، مارچ میں تمام ویکسینیشن مہمات کو معطل کیے جانے کے 4 ماہ بعد گھر گھر ویکسین کی فراہمی کی مہم چھوٹے پیمانے سے شروع کی جارہی ہے۔
مہم کے پہلے حصے میں فیصل آباد، اٹک، جنوبی وزیرستان، کراچی اور کوئٹہ کے کچھ علاقے شامل ہیں، جہاں 5 سال سے کم عمر کے 8 لاکھ بچوں کو ویکسین فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔
اس مہم میں اگست، ستمبر اور سال کے آخری 3 ماہ میں ملک بھر میں 3 مہمات شامل ہیں۔
اس حوالے سے ضروری اختیاطی تدابیر کو سامنے رکھتے ہوئے ویکسین فراہم کرنے والے رضا کاروں کو خصوصی طور پر ٹریننگ فراہم کی گئی ہے، جس میں دروازوں پر دستک دینا اور مارکٹنگ، گھروں میں مطلوبہ جسمانی فاصلہ برقرار رکھنا، ویکسینیشن کے دوران بچوں کے تحفظ کے لیے محفوظ طریقہ کار کو اپنانا شامل ہے۔
یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ صحت کے رضاکار اور کمیونیٹیز کے تحفظ کو یقینی بجایا جاسکے۔
صحت کے رضا کار مکانات کے دروازوں کو ہاتھ لگائے بنا کھٹکھٹائیں گے، والدین سے بچوں کو باہر لے کر آنے کے لیے کہیں گے جہاں پہلے ہیلتھ ورکر والدین کے سامنے اپنے ہاتھوں کو سینیٹائز (جراثیم کش محلول کا استعمال) کریں گے۔
اسی طرح کم سے کم جسمانی رابطے کو برقرار رکھنے کے لیے والدین سے ان کے بچوں کے منہ کھلوانے کو کہا جائے گا اور رضا کار اس موقع پر پولیو کے قطرے پلائیں گے اور بچوں کے ہاتھ کو نشان زدہ کریں گے اور اس سارے عمل کے دوران ان سے کم سے کم دو میٹر کا فاصلہ برقرار رکھا جائے گا۔
پولیو جیسے متعدی مرض، جو اعصاب کو متاثر کرتا ہے، جس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جسمانی معذوری ہوسکتی ہے یا یہ ہلاکت کا باعث بھی ہوسکتا ہے اور اس سے تحفظ صرف ویکسین کی بروقت فراہمی سے ہی ممکن ہے۔
بے شک یہ وقت ہے کہ والدین کو ان کے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔
2017 میں پولیو کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرلی گئی تھی اور پاکستان پولیو کے کیسز کو 8 تک محدود رکھنے میں کامیاب رہا تھا لیکن 2019 میں صورت حال انتہائی خراب ہوگئی اور پولیو کیسز کی تعداد 147 تک جا پہنچی۔
پولیو سے دنیا کے لاکھوں بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے متاثرہ دونوں ممالک، پاکستان اور افغانستان، میں مستقل انسداد پولیو مہمات کی ضرورت ہے اور جیسا کہ معاملات کا تسلسل برقرار رہے تو ہمیں ایک ابتدائی چیلنج کا سامنا ہے: ہر بچے تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔
ہما خاور کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ ہیلتھ کمیونیکیشن کے حوالے سے کام کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ہما خاور کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ ہیلتھ کمیونیکیشن کے حوالے سے کام کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔