• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جسٹس عیسٰی کیس کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست

شائع July 18, 2020
7 ججز کے اکثریتی فیصلے میں جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو خارج کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان
7 ججز کے اکثریتی فیصلے میں جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو خارج کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بعد سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس ایچ بی اے) نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ کے نام 3 آف شور جائیدادوں کی ٹیکس حکام سے تصدیق کے اکثریتی حکم نامے پر نظرِ ثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروادی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینئر وکیل رشید اے رضوری کے توسط سے دائر درخواست میں ایس ایچ بی اے کا کہنا تھا کہ حکم نامے کے پیراگراف نمبر 3 سے 11 تک میں دی گئی ہدایات، احکامات یا مواد غیر ضروری، متضاد، ضرورت سے زیادہ اور غیر قانونی ہیں، اس لیے نظرِ ثانی اور حذف کیے جانے کے قابل ہے کیوں کہ یہ ریکارڈ کی سطح پر غلطی ظاہر کرتا ہے۔

خیال رہے کہ 7 ججز کے اکثریتی فیصلے میں جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو خارج کردیا گیا تھا لیکن وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو سیکریٹری جوڈیشل کونسل کو ایک دستخط شدہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جس میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے برطانیہ کی جائیدادیں خریدنے کے لیے ادای کی گئی رقم کے ذرائع کے حوالے سے وضاحت طلب کرنے بعد کمشنر انِ لینڈ ریونیو کی جانب سے کی گئی کارروائی کی تفصیلات شامل ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ بار کی جسٹس عیسیٰ کیس کے فیصلے کے پیراگرافس حذف کرنے کی درخواست

رپورٹ وصول ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل از خود نوٹس کے دائرہ اختیار میں آئین کی دفعہ 190 کے مطابق کسی کارروائی کے آغاز کا فیصلہ کرے گی۔

نظرِ ثانی کی درخواست میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے الزام لگایا کہ حکومت نے حال ہی میں چیئرپرسن ایف بی آر کو عہدے سے ہٹا کر نیا سربراہ صرف تحقیقات کو متاثر کرنے کے لیے تعینات کیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ اس اہم موقع پر کہ جب سپریم کورٹ نے معاملہ بورڈ آف انویسٹگیشن کو ارسال کردیا ہے ایف بی آر میں تبدیلیاں نظر آنے والے اور پس پردہ عناصر کی جانب سے مستقل طور پر عدلیہ کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنے اور سبوتاژ کرنے کے علاوہ تحقیقات پر اثر انداز ہونے کے لیے کی جانے والی مشترکہ اور منظم کوشش کا نتیجہ ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

درخواست میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل غیر متعلقہ دفتر بن گئی ہے تو کس طرح یہ باڈی مستقبل میں مذکورہ جج کے خلاف رپورت پر نوٹس لے سکتی ہے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ’آئین کی دفعہ 209 کے تحت یہ واضح ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک مسلسل تنظیم نہیں بلکہ یہ ہر انفرادی کیس کے لیے بنائی جاتی ہے جو اس کے پاس لایا جاتا ہے، اس طرح صدارتی ریفرنس موصول ہونے پر یا از خود مفروضے کی صورت میں کسی کیس کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل تشکیل دی گئی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’معاملہ یہ ہے کہ کس طرح ایک غیر آئینی طور پر بنائی گئی سپریم جوڈیشل کونسل یا اس کے چیئرمین کسی رپورٹ پر کارروائی کرسکتے ہیں اور یہ آئینی پہلو سپریم کورٹ کے 19 جون کے حکم میں نوٹس میں آنے سے رہ گیا تھا‘۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 19 جون کو جاری مختصر حکم کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں ارسلان فائر عیسیٰ اور سحر عیسیٰ کی برطانیہ میں 3 آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور فنڈنگ کے ذرائع کی وضاحت طلب کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مذکورہ ہدایت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے تحت دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو شواہد کے ساتھ نوٹسز کے جوابات جمع کرانے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تویہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔

حکم نامے کے مطابق فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

جوابات موصول ہونے کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے مطابق حکم جاری کرے گا۔

نوٹسز موصول ہونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔

کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سماعت سے متعلق اپنی دستخط شدہ رپورٹ اپنے سیکریٹری-سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جمع کروائیں گے۔

سیکریٹری رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کریں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائزے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024