• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پائلٹس نہیں یہ حکومت، وزیراعظم اور وزیر جعلی ہیں، شہباز شریف

شائع July 16, 2020
شہباز شریف کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی  کے سربراہ کے خط نے وزیراعظم کو جھوٹا ثابت کردیا ہے — فائل فوٹو / ڈان نیوز
شہباز شریف کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کے خط نے وزیراعظم کو جھوٹا ثابت کردیا ہے — فائل فوٹو / ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا کرتے ہوئے کہا ہے کہ پائلٹس نہیں یہ حکومت، وزیراعظم اور وزیر جعلی ہیں۔

ایک جاری بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ عالمی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بننے اور قومی ادارے کو اربوں کا نقصان پہنچانے پر وزیراعظم عمران خان مستعفی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سول ایوی ایشن اتھارٹی کے خط کے بعد وزیراعظم اور وزیر ہوا بازی غلام سرور کے خلاف کارروائی ہونی چاہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ وزیراعظم ملک کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان کے ذمہ دار ہیں، سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا، یہ ہوتا ہے اختیارات کا ناجائز استعمال اور کرپشن۔

مزید پڑھیں: پائلٹس کو جاری کردہ تمام لائسنس درست ہیں، سی اے اے

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کے خط نے وزیراعظم، کابینہ اور متعلقہ وزیر کو جھوٹا ثابت کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا سوال پوچھے گی کہ جس رپورٹ کی بنیاد پر یہ دعوی کیا گیا، اس کی ساکھ کیا ہے؟ دنیا سوال پوچھے گی کہ جب وزیراعظم کی اجازت سے وزیر، ایوان میں بیان دے تو وہ کس پر اعتبار کرے؟

شہباز شریف نے کہا کہ وزیر نے جھوٹا بیان دے کر پارلیمان میں غلط بیانی کی تو اس کی سزا کسے ملنی چاہیے؟وزیراعظم اور ان کے وزیر کی حماقت سے قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کو پہنچنے والے مالی نقصانات کا ازالہ کون کرے گا؟

انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے روزگار اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سب کا ازالہ کون کرے گا؟

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی، اس کی بھی تو کسی کو سزا ملنی چاہیے؟

شہباز شریف نے کہا کہ پائلٹس نہیں یہ حکومت، وزیراعظم اور وزیر جعلی ہیں، معیشت کریش کرنے والوں نے پی آئی اے اور اس کی ساکھ بھی کریش کردی۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ملک کا نام بدنام کرنے والے جعلی حکمرانوں نے قوم کا سکون چھینا یہ جعلساز حکمران سزا کے مستحق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سی اے اے نے قطر، عمان میں کام کرنے والے 55 پائلٹس کے لائسنس کلیئر کردیے

خیال رہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے کہا ہے کہ اس کے جاری کردہ تمام کمرشل/ایئرلائنز ٹرانسپورٹ پائلٹس لائسنسز درست اور حقیقی ہیں۔

سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل حسن ناصر جامی نے 13 جولائی کو عمان کے اعلیٰ عہدیدار کو ارسال کردہ خط میں لکھا تھا کہ ’یہ بات واضح کرنا اہم ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے جاری کردہ سی پی ایل /اے ٹی پی ایل پائلٹ لائسنسز حقیقی اور درست ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی پائلٹ کا لائسنس جعلی نہیں ہے بلکہ اس معاملے کو غلط سمجھا گیا اور میڈیا/سوشل میڈیا میں غلط طریقے سے اجاگر کیا گیا۔

پائلٹس کے مشکوک لائسنسز کا معاملہ

خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کو عمانی فضائی حدود کی بندش کا بھی خطرہ

غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

اس کے بعد سے اب تک ویتنام اور ملائیشیا پاکستان کے پائلٹس کو گراؤنڈ کرچکے ہیں جبکہ امریکا اور یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پی آئی اے کا اجازت نامہ بھی معطل کردیا ہے۔

علاوہ ازیں اقوام متحدہ کا ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹاچکا ہے۔

دوسری جانب پی آئی اے کو عمان کی فضائی حدود کی بندش کا خطرہ بھی درپیش ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024