ڈینیئل پرل قتل کیس: حراست کیخلاف عمر شیخ کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کیس میں ٹرائل کورٹ کا حکم معطل کرنے کے بعد ہائی کورٹ کی جانب سے رہا کیے گئے چاروں ملزمان کو حراست میں رکھنے کے خلاف درخواست پر صوبائی حکام، ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹسز جاری کردیے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احمد عمر سعید شیخ جو عام طور پر شیخ عمر کے نام سے جانے جاتے ہیں، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل نے اپنے وکیل کے ذریعے اپریل میں رہائی کے بعد صوبائی حکام کی جانب سے ان کو زیر حراست رکھنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ 2 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی اپیلوں پر فیصلے کے مختصر عرصے بعد صوبائی حکام نے مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس ، 1960 کے تحت درخواست گزاروں کو حراست میں رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس: چاروں افراد کی حراستی مدت میں 30 ستمبر تک توسیع
وکیل نے مزید بتایا کہ یکم جولائی کو صوبائی محکمہ داخلہ نے ایک اور نوٹی فکیشن جاری کیا تھا جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن '11-ای ای ای' کے تحت ان کی حراستی مدت میں 3 ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ وابستگی اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں صوبائی پولیس افسر اور محکمہ انسداد دہشت گردی(سی ٹی ڈی) کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کی جانب سے 26 جون کو کی گئی سفارشات پر اے ٹی اے کے تحت ان چاروں افراد کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں۔
ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے 29 جون کو یہ اطلاع بھی دی تھی کہ فورتھ شیڈول پر رہتے ہوئے یہ افراد نقل و حرکت کرسکیں گے اور مزید دہشت گردانہ سرگرمی کے لیے نیٹ ورک دوبارہ منظم کرسکیں گے۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ صوبائی حکومت مطمئن ہے کہ یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر وہ رہا ہوئے تو وہ نیٹ ورکنگ اور دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں اور اس وجہ سے اے ٹی اے کے سیکشن 11-ای ای ای کے تحت انہیں 3 ماہ تک حراست میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا
وکیل نے کہا کہ درخواست گزار گزشتہ 20 برس سے جیل میں ہیں اور عدالت کی جانب سے بری کرنے کے باوجود انہیں اب تک رہا نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حراست قانون کے مطابق نہیں اور نوٹی فکیشن کو کالعدم قرار دینے کی استدعا بھی کی۔
جس کے بعد جسٹس عبدالمالک نے ایڈووکیٹ جنرل، پراسیکیوٹر جنرل کے ساتھ ساتھ محکمہ داخلہ اور دیگر فریقین کو 7 اگست کو پیش ہونے کے نوٹسز جاری کردیے۔
جسٹس عبدالمالک نے وکیل سے پوچھا کہ سندھ ہائی کورٹ کی نگرانی میں درخواست گزاروں کی مزید حراست کے لیے کوئی بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس پر درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا تھا کہ محکمہ داخلہ نے کوئی بورڈ تشکیل نہیں دیا تھا لیکن انہیں 3 ماہ حراست میں رکھنے کا ایک نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
خیال رہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اس وقت اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون پر کام کر رہے تھے۔
ڈینیئل پرل کو 23 جنوری 2002 میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا، جب وہ عسکریت پسندوں کے حوالے سے ایک خبر پر تحقیق کر رہے تھے۔
فروری 2002 میں امریکی سفارتکاروں کے ذریعہ موصول ویڈیو ٹیپ سے اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ 38 سالہ ڈینیئل پرل کی موت ہوگئی تھی اور ان کا سر قلم کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزم کی گرفتاری پر اہل خانہ خوش
سندھ ہائی کورٹ نے 2 اپریل کو اس مقدمے میں 4 ملزمان کی دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں، جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔
وہ پہلے ہی سزائے موت پر 18 سال جیل میں گزار چکا تھا اور اغوا کے الزام میں 7 سال کی سزا کو اس وقت کے حساب سے شمار کیا گیا تھا۔
ڈینیئل پرل کے والدین نے بھی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سامنے اپیل دائر کی ہے۔
بعدازاں حکومت سندھ نےڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں سزا یافتہ 4 افراد کی حراستی مدت میں توسیع کا حکم جاری کردیا تھا جن کی سزاؤں کو اپریل کے اوائل میں سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
احکامات سے متعلق سینٹرل جیل کراچی اور محکمہ داخلہ سندھ کے دو عہدیداروں نے ڈان ڈاٹ کام کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف عمر شیخ اور شریک ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو 30 ستمبر تک جیل میں زیر حراست رکھا جائے گا۔