اداروں کو شوگر مافیا کے خلاف کارروائی سے روکا نہیں جاسکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شوگر ملز مالکان کی درخواستوں پر اپنے تفصیلی حکم میں کہا ہے کہ تحقیقاتی ادارے شوگر مافیا کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتے ہیں خواہ حکومت انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو واپس لے یا آئینی عدالتوں کے ذریعے اس رپورٹ کو کالعدم کردیا جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیر کو تفصیلی حکم جاری کرتے ہوئے شوگر انڈسٹری کی درخواستوں پر عمل نہ کرنے کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'غیر ضروری عدالتی دخل اندازی اور عوامی پالیسی کے فیصلے کرنے سے غلطیوں کو درست کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے'۔
شوگر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کا جائزہ لیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹ کیا کہ 'انکوائری کمیشن نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990، کمپیٹیشن ایکٹ، 2010، کمپنیز 2017، انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، بے نامی ٹرانزیکشنز ایکٹ 2017، قومی احتساب آرڈیننس 1999 اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایکٹ 1997 جیسے مختلف قوانین کے تحت کارروائی شروع کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو سفارشات پیش کی ہیں، یہ تمام قوانین خود ساختہ قانون سازی کے عوامل ہیں اور اس پر روشنی ڈالنے اور کارروائی شروع کرنے کے لیے الگ الگ میکانزم فراہم کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شوگر انکوائری کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشنز پر حکومت کٹہرے میں
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ 'زیادہ سے زیادہ وفاقی حکومت اس معاملے پر غور کے لیے متعلقہ قانونی اتھارٹی کے پاس بھیج سکتی ہے یہاں تک کہ اگر اس نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو بھی متعلقہ قانونی حکام کو روکا نہیں جاسکتا اور نہ ہی انہیں خود سے کارروائی شروع کرنے کی ممانعت ہے، قانون کے مطابق حکام، وفاقی حکومت سے ریفرل وصول کرنے پر منحصر نہیں ہیں'۔
قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ 'اس میں واضح کہا گیا ہے کہ (قومی احتساب) بیورو کو اختیار ہے کہ وہ 3 طریقوں میں سے ایک کے حساب سے کارروائی شروع کرے جس میں سے پہلا حکومت کی جانب سے ریفرنس ملنے پر، دوسرا شکایت موصول ہونے پر یا تیسرا اپنی مرضی سے ہوسکتا ہے'۔
عدالتی حکم کے مطابق بے نامی ٹرانزیکشنز ایکٹ 2017 کی دفعہ 55 وفاقی حکومت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ ہدایات جاری کرے لیکن اس قانونی میں کارروائی شروع کرنے کا طریقہ کار بھی فراہم کیا گیا ہے جبکہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور کمشنر آڈٹ کی کارروائی شروع کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ '(شوگر کمیشن) کی رپورٹ میں کی جانے والی سفارشات کی روشنی میں یا (اگر) یہ رپورٹ ختم کردی گئی ہے تو کیا یہ متعلقہ حکام کو متعلقہ قانون کی دفعات کے مطابق آزادانہ کارروائی شروع کرنے سے روکنے کے مترادف ہوگا؟ اس سوال کا جواب ‘نہیں’ ہے، یہاں تک کہ اگر وفاقی حکومت نے رپورٹ میں دی گئی سفارشات کے مطابق کوئی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو بھی قانونی حکام کو متعلقہ آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی انجام دینے سے روکا نہیں جاسکتا'۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو شوگر کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد سے روک دیا
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کا واقعہ ناقابل فہم تھا کیوں کہ یہ عملی طور پر قانون سازی کے عمل کو معطل کرنے کے مترادف ہے۔
مزید برآں اس میں کہا گیا کہ اگر کسی خاص قانون کے تحت کارروائی شروع کی جاتی ہے تو درخواست گزاروں کو کسی قسم کا خوف یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہیے کیونکہ کارروائی عملدرآمد کے منصفانہ اقدامات کے ذریعے کی جائے گی۔
واضح رہے کہ 20 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک مختصر آرڈر کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ چینی کی کارٹیلیزیشن اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا گیا انکوائری کمیشن قانونی ہے۔
شوگر انڈسٹری کی جانب سے دائر درخواستوں کو نمٹاتے وقت عدالت نے شوگر کمیشن کی انکوائری رپورٹ کی بھی توثیق کی تھی۔
مختصر فیصلے کو بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے درخواست گزاروں نے چیلنج کردیا تھا اور اس کے بارے میں فیصلہ التوا کا شکار ہے۔