بچپن سے پچپن: جنگ، ریڈیو اور سنیما (پہلی قسط)
اس سلسلے کی بقیہ اقساط: دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط، پاونچویں قسط، چھٹی قسط
اسٹیم انجن کی تیز چھک چھک چھکا چھک اچانک کم ہوتی چلی گئی اور پھر ریل گاڑی ایک زوردار جھرجھری لے کر ساکت ہوگئی۔ ڈبے کی چھت میں لگے پیلی مدقوق روشنی والے بلب بھی اسی وقت بجھ گئے اور گاڑی میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔
مغرب سے کچھ دیر بعد کا وقت ہوگا۔ باہر رات کا اندھیرا چھانے لگا تھا۔ گاڑی کچھ ہی دیر پہلے روہڑی اسٹیشن سے نکلی تھی اور ہماری منزل خیرپور اب قریب ہی تھی۔ چھکا چھک شور مچاتے اسٹیم انجن کے پیچھے بندھے ہوئے ریل گاڑی کے ڈبے طوعاً و کرہاً دوڑتے جا رہے تھے اور ان میں سے ایک ڈبے میں ہم بھی امّاں ابّا کے ساتھ سوار تھے۔
یہ سال 1971ء کے آخری ایّام تھے۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے پاک بھارت جنگ عروج پر تھی۔ اس وقت میری عمر 6 سال تھی اور چھوٹے بھائی حبیب اللہ کی 4 سال۔ ہم دونوں ابّا اور امّاں کے ساتھ لاڑکانہ سے خیرپور واپس آ رہے تھے۔ ابّا ہمیں ساتھ لے کر وہاں اپنے استاد سے ملنے اور ان سے خیرپور چھوڑ کر کراچی منتقلی کے بارے میں مشورہ کرنے گئے تھے۔ اب ہمارا واپسی کا سفر تھا جو براستہ حبیب کوٹ، شکارپور، سکھر اور روہڑی طے ہونا تھا۔ اس وقت ہم روہڑی سے کافی آگے آ چکے تھے اور خیرپور قریب ہی تھا۔
سفر یکسوئی کے ساتھ جاری تھا کہ اللہ جانے کیوں گاڑی اس ویرانے میں اچانک رک گئی تھی۔ یہ کوئی ریلوے اسٹیشن بھی نہیں تھا بلکہ خودرو جھاڑ جھنکار کا ایک جنگل سا تھا۔ اچانک گاڑی سے باہر کچھ بھگدڑ سی مچی۔ میں نے فوراً کھڑکی سے جھانکا۔ لوگ دھڑا دھڑ ریل گاڑی سے باہر چھلانگیں لگا رہے تھے اور دُور جھاڑیوں اور درختوں کی طرف لپک رہے تھے۔
'ہوائی حملہ ہونے والا ہے'، اندھیرے میں اچانک ابا کی پریشان آواز ابھری۔ 'ہندوستانی جہاز اس علاقے پر بمباری کرنے والے ہیں، اسی لیے ریل گاڑی روک دی گئی ہے'۔
'اب کیا ہوگا؟'، امّی کی خوفزدہ آواز سنائی دی۔ 'کیا ہم بھی ریل سے اتر کر درختوں میں چھپ جائیں؟'
'نہیں، یہیں بیٹھے اللہ کو یاد کرتے رہو۔ موت آنی ہوئی تو باہر بھی آجائے گی'۔
ابّا نے حتمی لہجے میں جواب دیا۔ امّاں نے ہم دونوں کو کھینچ کر اپنے ساتھ چمٹا لیا اور زیرِ لب کچھ پڑھنے لگیں۔ ہم ہوائی حملے سے زیادہ ابّا کے ڈر سے چپ بیٹھے رہے۔
کچھ ہی دیر بعد سناٹے میں دُور کہیں سے جنگی جہازوں کی مخصوص آواز ابھری جو قریب آتے آتے پھر دُور چلی گئی۔ خاموشی پھر چھا گئی۔ بھارتی حملہ آور جہاز شاید کہیں اور نکل گئے تھے۔
کچھ لمحے مزید گزرے تو باہر جنگل میں پھر ہلچل مچی۔ لوگ جھاڑیوں میں سے نکل نکل کر دوبارہ ریل گاڑی کی طرف بڑھے۔ اس دوران شاید انجن ڈرائیور کو بھی خطرہ ٹلنے کا سگنل مل چکا تھا۔ اسٹیم انجن کی تیز سیٹی ویرانے میں اچانک گونجی تو میں اور حبیب اللہ ڈر کر امّاں سے اور چمٹ گئے۔ لوگ جلدی جلدی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ انجن کی چھکا چھک پھر بلند ہوئی اور ریل ایک جھٹکا لے کر پھر چل پڑی۔
اگلے دن خیرپور کے شاہی بازار میں ایک جگہ بڑا ہجوم جمع تھا۔ یہ سب لوگ بھارتی بم کے اس ٹکڑے کو دیکھنا چاہ رہے تھے جو گزشتہ رات بھارتی جہاز شہر سے باہر ویرانے میں گرا کر بھاگ گئے تھے۔
وہ پاکستانی تاریخ کے بڑے تکلیف دہ ایّام تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ قریب ہی تھا، مگر ہم تو ابھی اپنی بچکانہ زندگی میں ہی مگن تھے۔ ہمیں اس سانحے کا نہ تو کوئی ادراک تھا اور نہ کوئی پریشانی۔ جنگ کی ہولناکیاں البتہ جاری تھیں۔ شہر میں روز رات کو اچانک خوفناک گھوگھو (سائرن) بج اٹھتے۔ یہ شہر پر ہوائی حملے سے خبردار کرنے کے لیے بجائے جاتے تاکہ لوگ گھروں سے نکل کر خندقوں میں پناہ لیں۔
خیرپور شہر چونکہ بھارتی سرحد کے قریب تھا اس لیے یہاں حملوں کا خطرہ بھی زیادہ تھا۔ روز رات کو بلیک آؤٹ ہوتا تھا تاکہ رات کی تاریکی میں حملہ آور بھارتی جہازوں کو شہر نظر ہی نہ آسکے۔ رات میں گاڑیوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندی تھی جبکہ دن میں بھی گاڑیوں کو کیمو فلاج کرنے کا آرڈر تھا۔ کیمو فلاج کرنے کے لیے ہر گاڑی کو خاکی رنگ کرنے کا حکم تھا۔ اس مقصد کے لیے میٹ (ملتانی مٹی) استعمال کیا جاتا تھا۔
میٹ یعنی کچی ملتانی کے ڈلے پانی میں بھگو کر گاڑھا گاڑھا گارا تیار کیا جاتا اور پھر برش سے اس گارے کو گاڑی کی باڈی اور شیشوں پر خوب اچھی طرح مل دیا جاتا تھا۔ یوں گاڑی کی شکل و صورت کا تو بے شک ستیاناس ہو جاتا تھا، لیکن اب وہ مٹی کے رنگ میں رنگ کر بلندی سے دیکھنے والے حملہ آور کی آنکھ سے اوجھل ہوجاتی تھی۔ گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کو بھی اچھی طرح بند رکھا جاتا تھا اور رات کے وقت روشنی باہر نکلنے کے تمام راستے اور درزیں کپڑے اور گتے ٹھونس ٹھونس کر بند کردیے جاتے تھے۔
بلکہ مجھے تو یاد ہے کہ کبھی کبھی امّاں ہمیں نلکے کے نیچے بٹھا کر صابن کے بجائے اسی میٹ سے نہلا دیتی تھیں۔ ویسے بھی اس زمانے میں کوئی نخرے نہیں تھے۔ چند چیزوں پر ہی پوری زندگی گزار دی جاتی تھی۔ نہ خوشبودار ٹائلٹ سوپ، نہ شیمپو، نہ باڈی لوشن اور نہ ہی باتھ جیل، بلکہ شاور ہی نہیں۔ جست کی بالٹی میں بھرے پانی سے جست ہی کے ڈول بھر بھر کر نہانا اور لال رنگ کے لائف بوائے یا خانم کاربالک صابن کو جسم پر رگڑ رگڑ کر نہانا اور سوتی کپڑے کے رنگ برنگی لکیروں والے انگوچھے سے جسم سکھانے کے بعد جلد کو خشکی اور چٹخ سے بچانے کے لیے جلد پر سرسوں کا تیل ملنا۔ کبھی کبھی امّاں سرسوں کے بجائے تارا میرا کا تیل لگا دیتیں تو پھر ہمارا جلن کے مارے اچھلنا کودنا اور رونا دھونا قابلِ دید ہوتا تھا۔
ویسے تو اس وقت پاکستان میں ریڈیو اور ٹی وی دونوں آچکے تھے لیکن بہت کم لوگوں کے پاس ہوتے تھے۔ جنگ کے دنوں میں خبروں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی تھی۔ خبر کا سب سے بڑا ذریعہ تو اخبار ہی تھے، البتہ فوری خبر کا واحد ذریعہ صرف ریڈیو تھا۔
ٹی وی اگر کہیں ہوتا بھی تھا تو اس کی نشریات صرف شام کے اوقات میں چند گھنٹے ہوا کرتی تھیں۔ (بلکہ یہ تو ابھی حال کی بات ہے کہ جب ٹی وی نشریات کا دورانیہ 24 گھنٹے کیا گیا تو ان گھنٹوں کو پورا کرنے کے لیے ریکارڈ شدہ پروگرام ہی بار بار نشر کیے جاتے تھے)۔
اس زمانے میں تازہ خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ ریڈیو ہی تھا۔ شہر کے تقریباً ہر بڑے ہوٹل پر ریڈیو ضرور موجود ہوتا تھا اور وہاں خبروں کے وقت لوگوں کا ہجوم جمع ہوجاتا تھا۔ ہوٹل والا بھی اس وقت ریڈیو فل والیوم پر کردیتا تھا۔ بس پھر اس کے بعد سب انتہائی انہماک اور خاموشی کے ساتھ چائے پیتے ہوئے خبریں سنا کرتے تھے۔
ریڈیو کا کم لوگوں کے پاس ہونا حالاتِ حاضرہ سے ناواقفیت کا باعث بنتا تھا۔ عوام تک خبروں کا جلد پہنچنا چونکہ کبھی کبھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے، اس لیے اس زمانے میں شہر کی اہم سڑکوں پر موجود بجلی کے کھمبوں پر لاؤڈ اسپیکر نصب کرکے ان کو ریڈیو سے منسلک کردیا جاتا تھا۔ اس طرح نہ صرف خبریں بلند آہنگ سے گھر گھر پہنچ جاتی تھیں بلکہ خبروں کے بعد نور جہاں، استاد امانت علی خان، نسیم بیگم اور مسعود رانا وغیرہ کے گائے ہوئے اس زمانے کے لازوال ترانے بھی ہوا کے دوش پر تیرتے ہوئے دُور تک پہنچتے تھے۔ ان نغموں کی آواز ڈوبتی ابھرتی دُور دُور تک سنائی دیتی اور لوگوں کو وطن کی محبت سے سرشار کر دیتی:
اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن
اے راہِ حق شہیدو وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران اے قائدِاعظم تیرا احسان ہے احسان
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے توں لبدی پھریں بازار کڑے
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
اے وطن پیارے وطن پاک وطن پاک وطن اے میرے پیارے وطن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن مرے کھیتوں کی مٹی میں لعلِ یمن
اس زمانے میں جن گھروں میں ریڈیو ہوتا تھا ان کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ گھر کی تمام چیزوں میں سب سے زیادہ اہمیت ریڈیو کی ہوتی تھی۔ اس وقت ریڈیو ہوتے بھی بڑے بڑے سائز کے تھے۔ گھر کی خواتین قیمتی اور رنگارنگ کپڑے سے بڑے اہتمام کے ساتھ ریڈیو کا غلاف تیار کرتیں اور وہ غلاف ریڈیو کو اتنے پیار سے پہنایا جاتا تھا کہ شاید اتنے پیار سے مائیں اپنے بچوں کو بھی کپڑے نہیں پہناتی ہوں گی۔ غلاف میں سے ریڈیو کے گول گول بٹن باہر نکلے ہوتے تھے اور سوئی گھمانے والے شیشے کے چینل سیلیکٹر پر سے کپڑا ہٹا ہوا ہوتا تھا۔
ہمارے گھر میں پہلا ریڈیو 1971ء میں آیا جو صرف ایک بینڈ کا تھا، یعنی اس پر صرف ایک ہی اسٹیشن کی نشریات سنائی دیتی تھی۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد۔ آر جی اے کمپنی کا یہ ایک بینڈ کا ریڈیو اس وقت صرف 90 روپے کا ملا تھا لیکن پھر بھی خاصا مہنگا سمجھا گیا تھا۔ اب یہ ریڈیو تھا اور ہم بہن بھائی تھے۔ خبریں، گانے، ڈرامے، کچھ بھی نہیں چھوڑتے تھے۔
میں ابھی اسکول میں داخل نہیں ہوا تھا اس لیے ریڈیو سے سب سے زیادہ میں ہی چپکا رہتا تھا۔ میرے لیے اس چھوٹے سے پلاسٹک کے ڈبے کی جالی میں سے ابھرتی آوازیں ایک معمے اور جادو سے کم نہیں تھیں۔ میں اکثر اپنی آنکھیں بھینچ کر ریڈیو اسپیکر کی جالیوں کے اندر غور سے جھانکتا تھا تاکہ اندر بیٹھا خبریں پڑھنے والا شخص یا گانا گانے والی عورت مجھے نظر آجائے، لیکن اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ اس ریڈیو میں 4 سیل بھی لگتے تھے ڈیڑھ ڈیڑھ وولٹ کے 4، چندا بیٹری سیل، ڈیئر بیٹری سیل یا الہ دین بیٹری سیل۔ اس زمانے میں ہر دکان پر ہی یہ سیل ضرور مل جایا کرتے تھے۔
اس زمانے میں ایک قسم کا ریڈیو ہم خود بھی بنایا کرتے تھے۔ کسی بھی چیز کے استعمال شدہ ٹین کے 2 ڈبے لے کر اور ان کے پیندے میں ایک باریک سوراخ کرکے دھاگہ یا پتلی ڈوری ڈال کر اندر سے گٹھان لگا دی جاتی تھی۔ دھاگے کے دوسرے سرے کو بھی بالکل اسی طرح دوسرے ڈبے میں پرو دیا جاتا تھا۔ اب 2 بچے ایک ایک ڈبہ اٹھا کر ایک دوسرے سے اتنی دُور چلے جاتے کہ دھاگہ کھنچ کر سیدھا تن جاتا۔ اب ایک بچہ ڈبے کو اپنے کان پر فٹ کر لیتا اور دوسرا اسے اپنے چہرے کے سامنے رکھ کر جو منہ میں آئے بولتا۔ حیرت انگیز طور پر اس بچے کی آواز بہت دُور کھڑے دوسرے بچے کو اپنے کان سے لگائے ڈبے میں سے اتنی واضح اور قریب سنائی دیتی جیسے بولنے والا بالکل اس کے برابر میں کھڑا ہو۔
اس کھلونے کو ہم دھاگے والا ٹیلی فون کہتے تھے۔ بہت عرصے بعد جب اسکول میں ٹرانزسٹر اور الیکٹرونکس کے ساتھ کچھ شدھ بدھ ہوئی تو پرزے جوڑ کر سب سے پہلے جو چیز بنائی وہ ایک سادہ سا ایک بینڈ کا ریڈیو ہی تھا کہ جس کا اینٹینا والا تار کسی بھی بجلی کے کھمبے سے لگانے پر اس کے اسپیکر میں قریبی ریڈیو اسٹیشن کی نشریات سنائی دینے لگتی تھیں۔
میرے نام میں لفظ 'کیہر' ہمارا خاندانی نام ہے۔ کیہر سندھ کا ایک قدیم قبیلہ ہے۔ کیہر زیادہ تر لاڑکانہ، جیکب آباد، ٹھٹہ اور کراچی میں آباد ہیں، جبکہ بھارت کے خطے رَن آف کَچھ میں بھی اس قبیلے کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ہمارے گھرانے کا تعلق جیکب آباد سے ہے۔ میرے والد حافظ عبدالرحمٰن اور والدہ حمیدہ خاتون دونوں کی پیدائش جیکب آباد کی ہے۔ میرے دادا 'جوان کیہر' زمیندار تھے جبکہ نانا 'داؤد کیہر' ایک آزاد منش انسان تھے۔ داؤد کیہر اپنی آزادی طبع اور فقیرانہ مزاج کی وجہ سے داؤد فقیر، یا مختصراً داؤ فقیر کہلاتے تھے۔ دادا جوان کیہر کو لوگ ’جوانو' کے نام سے پکارتے تھے۔
جوانو کے سب سے بڑے بیٹے کا نام 'اَدن' تھا۔ دادا کا گھرانہ ایک روایتی دیہاتی گھرانہ تھا۔ ان کی تمام تر دلچسپیوں کا محور کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہی تھا لیکن ان کا بڑا بیٹا اَدن جب جوان ہوا تو نہ جانے کیسے اس کے دل میں علمِ دین حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیا اور وہ گھر بار چھوڑ کر شکارپور کے نواح میں ایک گاؤں کے مدرسے جا پہنچا۔ یہاں انہیں ایسے مخلص اساتذہ کی سرپرستی اور شفقت نصیب ہوئی جنہوں نے نہ صرف حصولِ علم میں ان کی مدد کی، بلکہ ان کی شادی بھی داؤ فقیر کی بیٹی 'اُمیداں' سے کروا دی۔
شادی کے ساتھ ہی استاد نے ’اَدن‘ کا نام بدل کر عبدالرحمٰن اور 'اُمیداں' کا نام تبدیل کرکے حمیدہ خاتون کردیا۔ یوں حافظ عبدالرحمن اور حمیدہ خاتون کے اس جوڑے سے ایک نئے کنبے کا آغاز ہوا۔ ابّا درس و تدریس کے سلسلے میں سندھ کے مختلف دینی اداروں کے ساتھ وابستہ ہوتے رہے اور رفتہ رفتہ شکارپور، لاڑکانہ اور سکھر سے ہوتے ہوئے خیرپور میرس میں آکر قیام پذیر ہوگئے۔
ابّا یہاں ایک مدرسے میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ معاش کو بہتر بنانے کے لیے درزی کا کام بھی کرتے تھے۔ خیرپور کے شاہی بازار میں ان کی چھوٹی سی دکان پر 'حافظ عبدالرحمن ٹیلر ماسٹر' کا بورڈ آویزاں رہتا تھا، جہاں دن بھر ان کے گاہکوں کے ساتھ ساتھ علمائے دین، اساتذہ اور معززین شہر کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔
میری پیدائش خیرپور کی ہے اور وہ بھی 12 ستمبر 1965ء کے دن۔ ایک پاک بھارت جنگ اس وقت بھی جاری تھی اور دوسری پاک بھارت جنگ اس وقت کہ جب میں 6 سال کا ہوچکا تھا۔ لیکن ان دونوں حالات کی سنگینی سے یکسر نابلد ہم تو صرف اپنے بچپن کی بادشاہی میں خوش تھے۔
ہماری ایک مستحکم روایت یہ بھی ہے کہ خواتین کو ان کے نام سے پکارنے کے بجائے اولاد میں سے کسی لاڈلے بچے کے ساتھ منسوب کرکے 'فلانے' کی ماں کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ میں ویسے تو اپنے والدین کی چوتھی اولاد تھا لیکن مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ امّاں کو سب لوگ میری نسبت پکارتے تھے۔
میرا نام رکھے جانے کا قصہ بھی خوب ہے۔ امّی نے میرا نام حبیب اللہ رکھا جبکہ ابّا نے عبیداللہ۔ اس بات پر کچھ بحث ہونے لگی تو امّاں کی سہیلی ماسی خورشَید (شین پر زبر) نے کہا کہ یہ بچہ تو لگتا ہے بڑا ہوکر خوب پڑھے لکھے گا، بابو بن جائے گا، اس لیے نہ حبیب اللہ نہ عبیداللہ، ہم تو اسے بابو کہیں گے اور آج سے تم ہمارے لیے 'بابو ماء' (یعنی بابو کی ماں) ہو۔ چنانچہ یوں میں پیدائشی بابو بن گیا۔ امّاں جب تک زندہ رہیں پورے خاندان اور واقف کاروں میں بابو ماء ہی کہلاتی رہیں۔ میرا آفیشل نام البتہ ابّا کا رکھا ہوا ہی قائم رہا، یعنی عبیداللہ۔
بہت بعد کی بات ہے، غالباً 1998ء کی، جب میری ملاقات پہلی دفعہ عبیداللہ بیگ صاحب سے ہوئی تو انہوں نے یہ بتاکر مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ ان کا اصل نام بھی ان کی والدہ نے حبیب اللہ بیگ ہی رکھا تھا، بعد میں وہ عبیداللہ بیگ کے نام سے معروف ہوئے۔
میرا بچپن خیرپور کے شاہی بازار اور اس سے ملحق گلی کوچوں میں کھیلتے کودتے گزرا۔ 1971ء میں مجھے گورنمنٹ پرائمری اسکول خیرپور نمبر 1 میں کچی پہلی میں داخل کروا دیا گیا۔ ہمارا گھر خیرپور کے شاہی بازار سے ملحق ایک گلی میں تھا چنانچہ ہم جیسے ہی اپنی گلی سے باہر آتے، خود کو ایک بھرے پرے بازار کے بیچوں بیچ پاتے۔
یہ کوئی مخصوص بازار نہیں تھا بس الل ٹپ دکانیں تھیں۔ ان میں منیاری، پرچون، پنسار، کپڑے، برتن اور الیکٹرک و ہارڈویئر کی دکانوں کے ساتھ ساتھ چائے خانے، ہوٹل، بیکریاں اور مٹھائی کی دکانیں بھی شامل تھیں۔ انہی دکانوں کی قطار میں ایک ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ کی مرمت کی دکان بھی تھی۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات ابھی خیرپور نہیں پہنچی تھیں، اس لیے نہ ہم ٹی وی سے واقف تھے اور نہ ہی اس دکان پر کوئی ٹی وی مرمت کے لیے آتا تھا۔ سنیما البتہ اس وقت خیرپور میں 3 سے 4 تھے، لیکن ہم ابھی چھوٹے تھے اور سنیما کی دنیا سے بالکل بھی واقف نہیں تھے۔
ایک دن میں بازار سے گزر رہا تھا تو اس ریڈیو مکینک کی دکان میں ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ دکان کے اندر پچھلی سفید دیوار پر مجھے ایک خاصی بڑی اور نہایت روشن تصویر نظر آئی۔ اس قدر چمکتی دمکتی، جگمگاتی اور جیتی جاگتی رنگین تصویر میں اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
میرے لیے باہر کھڑا رہنا ممکن نہ رہا اور میں بے چین ہوکر دکان کے اندر داخل ہوگیا۔ اندر آکر جب میں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ یہ ایک ساکت نہیں بلکہ متحرک تصویر تھی۔ ایک گائے کی فلم، جو ایک کھیت میں چلتی چلی جا رہی تھی اور کیمرا اس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں حیران تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ گائے چل بھی رہی ہے اور ایک ہی جگہ پر کھڑی بھی ہے، یااللہ یہ کیا ماجرا ہے؟
یہ دراصل خیرپور کے کسی سنیما کا پروجیکٹر تھا جو اس مکینک کے پاس کچھ مرمت کے لیے آیا تھا اور وہ اسے دیوار پر چلا کر چیک کر رہا تھا۔ میں نے چونکہ اس سے پہلے سنیما کبھی دیکھا ہی نہیں تھا اس لیے یہ منظر میرے لیے ایک خواب کی مانند تھا۔ ایک ایسا سہانا خواب جسے میں بار بار دیکھنا چاہتا تھا۔
اس دن یہ متحرک تصویر دیکھ کر میں سنیما نہیں، بلکہ سنیما پروجیکٹر کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔ یہ میرا فلم سازی سے پہلا تعارف تھا اور مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ مستقبل میں اس فیلڈ سے میرا خاصا سنجیدہ تعلق بنے گا۔
اس واقعے کے بعد پھر کافی عرصے تک مجھے کوئی فلم دیکھنے کا موقع نہ ملا، حتیٰ کہ 1972ء میں ہم خیرپور سے کراچی منتقل ہوگئے۔ کراچی آتے ہی ہماری توجہ جس چیز نے سب سے زیادہ کھینچی، وہ ٹی وی تھا۔ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن، جس کی نشریات شام کو شروع ہوتی تھیں اور لوگ دن بھر ان نشریات کا انتظار کرتے رہتے تھے۔
ٹی وی مہنگی چیز ہوتا تھا اور محلے کے چند متمول گھرانوں میں ہی پایا جاتا تھا۔ ٹی وی گھر کے صحن میں رکھا جاتا تھا اور شام ہوتے ہی محلے کی عورتیں اور بچے اس گھر میں جمع ہوجایا کرتے تھے جبکہ مرد حضرات باہر ان ہوٹلوں کا رخ کرتے تھے جہاں ٹی وی موجود ہوتا تھا۔
ان دنوں ہر اتوار کو ٹی وی پر فلم چلا کرتی تھی۔ محمد علی اور زیبا، وحید مراد اور نشو، شاہد اور رانی، ندیم اور شبنم اور غلام محی الدین و بابرا شریف کی فلمیں۔ چنانچہ اتوار والے دن ٹی وی والے گھروں پر خصوصی یلغار ہوتی تھی۔ 3 گھنٹے کی فلم کے دوران کوئی بھی ٹی وی کے سامنے سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ فلمی کہانی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ ناظرین کے جذبات بھی اوپر نیچے ہوتے رہتے تھے۔ کبھی ہیرو اور ولن کی لڑائی پر پیچ و تاب کھائے جارہے ہیں، کبھی ولن کی پٹائی پر تالیاں بج رہی ہیں اور کبھی یتیم بچوں پر ظلم کے مناظر دیکھ کر سسکیاں اور آہیں بلند ہو رہی ہیں۔
فلموں کا نوجوانوں کے ذہن پر اس قدر اثر ہوتا تھا کہ وہ فلم اسکرین کے اندر نظر آنے والی مصنوعی دنیا اور فلم اسکرین کے باہر موجود اصلی اور جیتی جاگتی دنیا میں فرق ہی بھلا بیٹھتے تھے۔ وہ بالکل اسی طرح کی حرکات و سکنات کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ جیسی فلم کے اندر محمد علی اور وحید مراد وغیرہ کو کرتے دیکھتے تھے بلکہ میں اپنی ہی کیفیت بیان کروں تو شاید آپ ہنسیں۔
میں اپنے لڑکپن میں انتہائی سنجیدگی سے یہ سمجھتا تھا کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں وہاں میرے آس پاس کوئی کیمرا بھی ہے جو چلتے پھرتے میری زندگی کی فلم بناتا رہتا ہے۔ اس پوشیدہ کیمرے کا خیال کرتے ہوئے میں ہر وقت اپنے آپ کو درست رکھنے کی کوشش کرتا، کپڑے صاف رکھتا، بال سنوارتا رہتا اور باوقار چال چلنے کی کوشش کرتا تاکہ اس خفیہ کیمرے میں میری فلم اچھی بنے۔ ہے نا پاگل پن کی بات۔
(جاری ہے)
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہے۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.
تبصرے (17) بند ہیں