ارشد ملک ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پی آئی اے کے سربراہ رہیں گے
اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے 12 جولائی کو پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ایئر مارشل ارشد ملک کی خدمات جاری رکھنے کی منظوری دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ نے ارشد ملک کی پی آئی اے کے سی ای او کی حیثیت سے ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر 3 سال کی مدت کے لیے تعیناتی کی منظوری دی جبکہ انہوں نے قومی ایئرلائن کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی خدمات کے دو سال مکمل کرلیے ہیں۔
خیال رہے کہ ارشد ملک پی اے ایف سے ریٹائر ہورہے ہیں لہٰذا وہ اب کنٹریکٹ کی بنیاد پر پی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے۔
ڈان کے رابطہ کرنے پر وفاقی کابینہ کے ایک رکن نے تصدیق کی کہ ارشد ملک پی اے ایف سے ریٹائرمنٹ کے بعد پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا
انہوں نے مزید کہا کہ 'پہلے وہ ڈیپوٹیشن پر خدمات انجام دے رہے تھے لیکن اب ان کی خدمات دوسرے درجے کی بنیاد پر جاری رہیں گی'۔
پی آئی اے کے سی ای او کا معاملہ
خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے بھی فروخت کرنے سے روک دیا تھا۔
بعد ازاں ایئر مارشل ارشد محمود نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
مذکورہ درخواست میں وفاق، کابینہ ڈویژن اور وزارت سول ایوی ایشن کو فریق بنایا گیا تھا اور استدعا کی گئی تھی کہ انہیں عہدے پر بحال کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد ملک کی تعیناتی غیر قانونی ہے،فوری برطرف کیا جائے،آڈیٹر جنرل کی رپورٹ
21 جنوری کو عدالت عظمیٰ نے ارشد ملک کی بحالی کی درخواست مسترد کردی تھی اور سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی۔
واضح رہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد وار اسٹیڈیز سے متعلق تعلیم حاصل کی تاہم انہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایوی ایشن قوانین سے کچھ آگاہی نہیں ہے۔
علاوہ ازیں 19 مارچ کو عدالت عظمیٰ ننے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے انہیں اپنے عہدے پر بحال کردیا تھا۔