’لڑم ٹاپ': دیر لوئر کا گہنا
وطنِ عزیز میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب ہر ایک کونا و کوچہ اپنی منفرد خوبصورتی کا مالک بنا ہوا ہے۔ ملک کے کونے کونے میں سفر کے دوران بہت کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں۔ لوگوں کی کہی اور ان کہی باتیں سنتا اور ان کے حالات جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔
پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے نئے مقام کی تلاش جہاں دل کو تسکین پہنچاتی ہے وہیں چند جگہوں پر لوگوں کی کہانیاں اور حالاتِ زندگی اداس کردیتے ہیں۔ شاید یہ اپنائیت کا جذبہ اور ایک دوسرے سے تعلق کا احساس ہی ہے۔
سیاحت جہاں ملک کی معشیت کو استحکام بخشتی ہے وہیں مقامی افراد کے روزگار میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔
لڑم ٹاپ میں واقع ایک چھوٹے گاؤں چنار میں سڑک کنارے پکوڑے بیچنے والے گورنمنٹ مڈل اسکول میں 7ویں جماعت کے طالب علم محمد ابرار بھی انہی افراد میں شامل ہیں، جن سے ہماری ملاقات گزشتہ ہفتے لڑم ٹاپ کے سفر کے دوران ہوئی۔
یہ جمعرات کا دن تھا جب میں نے اپنے دوست کے ساتھ چکدرہ کے مقام پر یتیم بچوں کی کفالت کے ادارے 'آغوش' میں بچوں کے ساتھ سیاحت کے حوالے سے ہونے والے ایک سیشن میں شرکت کی۔ اس سیشن کے بعد اس ادارے کے ایڈمن آفیسر سے گفتگو کے دوران پتا چلا کہ ادارے کے قریب اندان ڈھیری کے مقام پر بدھ مت دور کے آثارِ قدیمہ موجود ہیں۔ اس جگہ کے بارے میں جستجو بڑھی تو فوری طور پر وہاں جانے کا ارادہ کیا، جو چکدرہ پل سے 7 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
بدھ مت کے یاتری (پیشوا) زوان زانگ کے مطابق بدھ سے منسوب ایک کہانی میں اس علاقے کا تذکرہ ملتا ہے جس کے مطابق اس دور میں لوگوں کو قحط سے بچانے کے لیے بدھ نے خود کو اس وادی میں مردہ حالت میں ایک بڑے سانپ میں تبدیل کردیا تھا تاکہ بھوک سے مرنے والے لوگ ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھا سکیں اور بعد میں لوگوں نے ایسا ہی کیا۔
گندھارا تہذیب کے مطابق یہ بدھ مت کے بانی، پدمسم بھاوا کی جائے پیدائش اور جھیل 'دھناکشا' کا بھی مقام ہے۔ تبتی بدھ مت کا کاگیو فرقہ، جھیل کی شناخت اس اسٹوپا کے ذریعے کرتا ہے۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے اسٹوپا تو دریافت کرلیا لیکن اس مقام پر کسی جھیل کی موجودگی کے آثار نہیں مل سکے ہیں۔ اس مقام پر کھدائی کے دوران بدھ اور گندرھارا تہذیب کے مجسموں کے 500 سے زائد ٹکڑے برآمد ہوئے جن کو سیدو شریف اور چکدرہ میں واقع عجائب گھروں میں رکھا گیا ہے۔
اندان ڈھیری کے تاریخی مقام کی عکس بندی کے بعد ارادہ یہی تھا کہ تیمرگرہ کی طرف روانہ ہوا جائے گا۔ تاہم اندان ڈھیری کے مقام پر پہنچنے سے پہلے میری نظر محکمہ پولیس دیر لوئر کی طرف سے لگے بورڈ پر پڑی جس پر یہاں کے سب سے خوبصورت سیاحتی مقام 'لڑم ٹاپ' کی نشاندہی کی گئی تھی جو اندان ڈھیری سے صرف 20 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔
اس لیے اپنے سارے ارادوں کو ترک کرتے ہوئے لڑم ٹاپ کو ایکسپلور کرنے کا ارادہ کیا۔ ہمارے دوست عزیر خان اچانک پروگرام تبدیل ہونے پر پہلے تو حیران ہوئے مگر پھر میرے فیصلے کو مانتے ہوئے انہوں نے ڈرائیور کو لڑم ٹاپ کا راستہ لینے کے لیے کہا۔
تھوڑی ہی دیر میں ہم اوچ کے بازار سے ہوتے ہوئے وادئ لڑم میں داخل ہوگئے۔
وادی لڑم کے آغاز پر ہی مقامی باشندے لیاقت الملک کی ذاتی زمین پر تعمیر کردہ ہزاروں پودوں پر مشتمل پاکستان پارک بھی مقامی اور ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے سیاحوں کے لیے ایک اچھا پکنک پوائنٹ ہے۔
ایک وسیع رقبے پر پاکستان پارک میں جہاں مختلف اقسام کے پودوں کی بہتات ہے وہیں پارک کے اندر بچوں کے کھیل کود اور فیمیلیز کی تفریح کے لیے ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
چونکہ آگے کی سڑک خراب تھی اس لیے گاڑی کچھوے کی رفتار سے آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف گامزن تھی۔ اوچ کے بازار سے نکل کر ہمیں اندازہ ہوا کہ لڑم ٹاپ تک پہنچتے پہنچتے بھوک سے بُرا حال ہوجائے گا کیونکہ دوپہر کے 2 بج چکے تھے اور ہم نے صبح کو لکا پھلکا سا ناشتہ کیا ہوا تھا۔
پورے راستے ڈرائیور اور میں کھانے پینے کے دکانیں ڈھونڈنے لگے۔ تقریباً 10 کلومیٹر کے سفر کے بعد بالآخر چنار گاؤں کے ایک موڑ پر ڈرائیور صاحب کی نظر ایک دکان پر پڑی جس کے قریب ایک بچہ گرما گرم پکوڑے بیچ رہا تھا۔
عزیر نے ڈرائیور کو روکتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ اللہ نے ہماری سن لی ہے۔ اب گرما گرم پکوڑے کھا کر ہی آگے کا سفر کریں گے۔
ایک عارضی دکان کے کنارے پر بیٹھے محمد ابرار نے جب ہمیں گاڑی سے اترتے ہوئے دیکھا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ یوں لگا کہ وہ ایک عرصے سے ہم جیسے سیاحوں کے انتظار میں یہاں بیٹھا تھا۔
ہمارے سامنے پکوڑوں کی 2 پلیٹیں رکھنے کے بعد ابرار نے بتایا کہ موسمِ گرما میں مقامی سیاحوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں سے بڑی تعداد میں سیاح وادئ لڑم کا رخ کرتے ہیں جس سے ان کی اچھی کمائی ہوجاتی تھی اور اوسطاً انہیں روزانہ ہزار، دو ہزار کی بچت ہوجاتی ہے جبکہ موسمِ سرما میں جمعے اور اتوار کے دنوں میں مقامی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس علاقے کا رخ کرتی ہے اور یہاں آنے والے لڑم ٹاپ پر برف باری سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔
ابرار کے مطابق اگر حکومتِ وقت اس خوبصورت وادی کی سڑک دوبارہ تعمیر کروا دے تو سیاحوں کی بڑی تعداد اس خوبصورت وادی کو دیکھنے آسکے گی جس سے نہ صرف ان جیسے لوگوں کا روزگار بہتر ہوگا بلکہ اس خوبصورت وادی کو اجاگر کرنے کے زیادہ مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ابرار کے خوابوں، امیدوں اور توقعات کو جاننے کے بعد ہم ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔
فطرت کی رعنائیوں سے بھرپور اس خوبصورت وادی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اپنے دلکش حُسن کی وجہ سے یہ وادی برطانوی دور سے ہی خصوصی توجہ کا مرکز بنی رہی۔
انگریز خاتون 'مس لرم' کے نام سے منسوب 'لڑم ٹاپ' سطح سمندر سے تقریباً 8 ہزار 500 کی بلندی پر واقع ہے۔ لڑم ٹاپ تک پہنچنے کے لیے ہم نے مزید 20 منٹ کا سفر کیا۔ ٹاپ پر پہنچنے پر سڑک 2 راستوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، ایک راستہ تیمرگرہ اور دوسرا ریڈار ٹاپ (لڑم ٹاپ کا بالائی حصہ) تک لے جاتا ہے۔
برف کی وجہ سے ہماری گاڑی مزید آگے بڑھنے سے قاصر تھی اس لیے ہم نے گاڑی وہیں روک دی اور نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہم ٹاپ پر لگے ایک سیاح کے کیمپ کے پاس پہنچ گئے۔
یہاں سے ایک طرف چترال اور افغانستان کی برف پوش پہاڑی سلسلے کا نظارہ ہوسکتا ہے تو دوسری طرف بونیر، سوات کی بلند چوٹیاں اور اس کے درمیان سوات ایکسپریس وے کا، جبکہ سامنے دوسری پہاڑی پر تقسیمِ ہند سے قبل انگریزوں کے دور میں اس مقام پر جیو اسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر تعمیر کیے گئے تاریخی قلعے کے آثار کا دلکش منظر ہمیں دم بخود کرنے کے لیے کافی تھا۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ وادی آج سے 3 ہزار سال پہلے وسطی ایشیاء اور افغانستان تک جانے کے لیے ایک اہم ترین گزرگاہ تصور کی جاتی تھی، جبکہ مختلف ادوار میں سکندرِ اعظم، مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر اور برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم سر ونسٹن چرچل نے بھی یہاں قیام کیا۔
اب یہاں سے ریڈار ٹاپ تک کا سفر ہمیں پیدل ہی کرنا تھا۔ عزیر خان ہمارے ساتھ برف میں آگے بڑھنے سے انکاری تھے اس لیے ان کو لڑم ٹاپ پر اپنی گاڑی کے پاس چھوڑ کر میں اور ڈرائیور چند مقامی سیاحوں کے ساتھ ریڈار ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔
ویسے سردیوں کے موسم میں برف میں ٹریکنگ کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ تقریباً 45 منٹ کی مشقت بھری مگر حسین مناظر سے بھرپور ٹریکنگ کے بعد ہم لڑم ٹاپ کے بالائی حصے (ریڈار ٹاپ) پر پہنچ گئے۔
راستے میں مقامی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئی جس میں فیملیز بھی شامل تھیں جو برف سے خوب محظوظ ہورہی تھیں۔ ریڈار ٹاپ کی اونچائی کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کے اگر مطلع صاف ہو تو یہاں سے چترال، سوات، پشاور، دیر بالا، باجوڑ اور افغانستان کے بعض علاقے باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔
افغانستان اور روس کی جنگ کے دوران یہاں پر افغان سرحد کی نگرانی کے لیے پاک فوج نے ایک ریڈار نصب کردیا تھا جس کی عمارت آج بھی یہاں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑم ٹاپ کے اس بالائی حصے کو ریڈار ٹاپ کہا جانے لگا۔ ریڈار ٹاپ پر مختلف کمیونیکشن کمپنیوں کے ٹاور بھی نصب کیے گئے ہیں۔ انہی ٹاوروں کے ذریعے مالاکنڈ ڈویژن کے تمام مواصلاتی نظام کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
ریڈار ٹاپ کے دونوں اطراف مقامی لوگوں نے نجی گیسٹ ہاوسز قائم کیے ہوئے تھے جبکہ سیاحوں کے قیام کے لیے پی ٹی ڈی سی کا موٹل بھی موجود ہے۔
موٹل کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ کسی زمانے میں دیر کے نواب یہاں پر نایاب پرندوں کے شکار کے لیے آیا کرتے تھے اور پاکستان کے سابق صدر ایوب خان کے دور میں یہاں پر مختلف سیاحتی منصوبوں کو زیرِ غور لایا گیا تھا لیکن کچھ خاص کام نہیں ہوسکا۔
نواب آف دیر کی ریاست کے پاکستان سے الحاق کے بعد دیر لوئر کے سیاحتی مقامات کو کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے دیر لوئر کو سیاحتی ضلعے کا درجہ نہیں مل سکا۔
وادی لڑم اپنی خوبصورتی اور موسم کے لحاظ سے ملک کے شمالی علاقہ جات سے کم نہیں۔ یہاں ہر سال دسمبر سے اپریل تک کئی کئی فٹ برف باری ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی پہاڑیاں برف کی چادر اوڑھ لیتی ہیں۔
جون اور جولائی میں جہاں ملک کے دیگر حصوں میں شدید گرمی سے لوگ پریشان رہتے ہیں، وہیں بلندی پر واقع اس مقام پر موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور سیاح گرمیوں کی راتوں میں بھی لحاف اوڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
دیار کے گھنے درختوں اور پشاور و اسلام آباد کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود 'لڑم ٹاپ' پر سیاحوں کے لیے قیام و طعام کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں۔
یہاں کا سفر کرنے والے سیاحوں کو درج ذیل باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔
- یہاں پر موجود گیسٹ ہاؤس نجی نوعیت کے ہیں اور عام سیاح کا قیام گیسٹ ہاؤس میں تقریباً ناممکن ہے اس لیے رہائش کے لیے کیمپ لگایا جائے یا پہلے سے کسی گیسٹ ہاؤس میں قیام کے لیے رابطہ کیا جائے یا پھر رہائش کے لیے تیمرگرہ شہر میں قیام بھی ایک بہترین آپشن ہے جہاں سے سیاح دو سے ڈھائی گھنٹے میں لڑم ٹاپ تک پہنچ سکتے ہیں۔
- ایک باقاعدہ ریسٹورینٹ نہ ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کا انتظام سیاحوں کو خود سے کرنا پڑے گا۔
- اگرچہ اوچ گاؤں سے لڑم ٹاپ تک سڑک خراب ہے مگر ہر قسم کی گاڑی پر آپ لڑم ٹاپ تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔
- اسلام آباد اور پشاور سے براستہ سوات ایکسپریس چکدرہ اور پھر وہاں سے لڑم ٹاپ تقریباً 5 گھنٹے میں پہنچا جاسکتا ہے۔
- یہاں پر قیام کے دوران گرد و نواح کی خوبصورتی، جنگل اور صفائی کا خاص خیال رکھیں تاکہ اس دلکش وادی کا حُسن برقرار رہے۔
لڑم ٹاپ پر چترال اور دیر بالا کے بلند پہاڑی سلسلے پر سورج کے غروب ہونے کے دلفریب اور حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم لڑم ٹاپ کے نچلے حصے کی طرف روانہ ہوئے جہاں عزیر خان شدت سے ہمارا انتظار کر رہا تھا۔
عزیر خان کو ساتھ لے کر ہم تیمرگرہ شہر میں اپنی عارضی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ واپسی پر ابرار خان کی سڑک کی تعمیر سے متعلق بات مجھے بار بار یہ سوچنے پر مجبور کر رہی تھی کہ آخر سیاحت کے فروغ کی بات کرنے والی حکومت کو اب تک یہ خوبصورت سیاحتی مقام کیوں نظر نہیں آیا؟
پاکستان میں لڑم ٹاپ جیسی سیکڑوں وادیاں حکومتی توجہ کی منتظر ہیں جہاں پر ترقیاتی کام کروا کر نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں بلکہ ان وادیوں میں سیاحت کے فروغ سے ملکی معیشت کو فائدہ بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔
عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریلز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں