سانپ جیسے زہریلے دانتوں والا انوکھا جاندار دریافت
اوپر تصویر کو دیکھیں یہ سانپ نہیں مگر پھر بھی اس کے زہر سے بچنے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت یہ نہ تو کوئی کیڑا ہے اور نہ ہی سانپ بلکہ زمین کی سطح میں پائے جانے والا ایمفیبین ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں پایا جاتا ہے۔
برازیل کے بیوٹانٹان انسٹیٹوٹ کے ماہر کارلوس جیراڈ نے گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران رنگڈ کیسی لئین نامی اس جاندار پر تحقیق کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ گھنٹوں تک احتیاط سے کھدائی کرتے تھے تاکہ اسے نقصان نہ پہنچ سکے اور جیسے ہی وہ نظر آتا تو اس پر چھلانگ لگادیتے اور پھر اس جاندار سے کشتی لڑتے، جس کی لمبائی چند انچ سے 5 فٹ تک ہوسکتی تھی۔
اب ان کی ٹیم نے اپنی تحقیق کے نتائج آئی سائنس میں شائع کرائے ہیں جن میں انکشاف کیا گیا کہ کچھ سانپوں جیسے زہریلے دانت اس جاندار میں بھی موجود ہوسکتے ہیں۔
یہ پہلی بار ہے جب کسی ایمفیبین کے منہ میں زہریلے گلینڈز کا دریافت کیا گیا جو دیکھنے میں سانپ جیسے ہی نظر آتے ہیں اور اب کہا جارہا ہے کہ وہ زمین کے سب سے پرانے زہریلے کاٹنے والے جاندار ہیں۔
اکثر اقسام کے کیسی لئینز زہر بناتے ہیں، مگر وہ دیگر جاندروں میں اسے انجیکٹ نہیں کرتے۔
تو کارلوس جیراڈ نے دانتوں میں زہریلے سیال کی نالیاں دریافت کیں تو وہ دنگ رہ گئے کیونکہ یہ بالکل مختلف تھا۔
ان جانداروں کے منہ کی جانچ پڑتال کے بعد پتا چلا کہ یہ گلینڈز وہ ٹشوز ہیں جو دانت کو بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔
کارلوس جیراڈ کا کہنا تھا کہ سانپوں میں بھی ایسے ٹشوز زہریلے گلینڈز کے لیے ہوتے ہیں، جس سے اس دریافت کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے۔
بغیر ہاتھوں یا پیروں کے جاندار جیسے سانپ یا کیسی لئینز کو اپنے سروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
کیسی لئینز کچھ سانپوں کی طرح متاثر کن دانتوں سے لیس ہوتے ہیں اور کافی زور سے کاٹ سکتے ہیں۔
تاہم ابھی واضح نہیں کہ یہ جاندار کس حد تک زہریلے ہیں اور ابھی اس حوالے سے تفصیلی کیمیائی تجزیہ کرنا باقی ہے، تاہم ابتدائی ٹیسٹوں میں ایسے پروٹین کو دریافت کیا گیا ہے جو سانپوں کے زہر میں پائے جاتے ہیں۔
ابھی یہ ٹیم اس کی مزید اقسام میں بھی تحقیق کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ دیگر اقسام میں بھی زہریلے دانت پائے جاتے ہیں یا نہیں۔