سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک ملازمت سے برطرف
لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کردیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے مذکورہ فیصلے پر اظہار تشکر کیا ہے۔
اس حوالے سے معلومات رکھنے والے ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان کی صدارت میں انتظامی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس امیر بھٹی، جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
مذکورہ اجلاس میں احتساب عدالت کے سابق جج اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے ارشد ملک کو عہدے سے برطرف کرنے کی منظوری دی گئی۔
تاہم یہاں یہ واضح رہے کہ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ’جج ویڈیو کیس میں ارشد ملک کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟‘
خیال رہے کہ جج ارشد ملک نے 4 دسمبر 2018 کو العزیزیہ اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹس سے متعلق دوسرے ریفرنس میں بری کردیا تھا۔
تاہم 6 جولائی 2019 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کا ایک ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تھا، جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سیشن کورٹ لاہور میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تعینات کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔
مذکورہ معاملے کی انکوائری کے لیے جسٹس سردار احمد نعیم کو انکوائری جج مقرر کیا گیا تھا، جنہوں نے تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ انتظامی کمیٹی کو پیش کی، تاہم ارشد ملک نے کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ارشد ملک کی عہدے سے برطرفی کے لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے فیصلے پر اظہار تشکر کیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کے حضور سربسجود ہوں کہ اس نے ملک وقوم کی مخلصانہ خدمت کرنے والے محمد نوازشریف کی بے گناہی کوثابت کردیا۔
شہباز شریف کے مطابق ثابت ہوگیا کہ جج نے انصاف پہ مبنی فیصلہ نہیں دیا تھا اور 3 بار کے منتخب وزیراعظم کو ناحق سزا دی تھی، لہٰذا سچائی سامنے آنے پر انصاف کا تقاضا ہے کہ نوازشریف کے خلاف سزا کو ختم کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس: سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرلیں
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ لاہورہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کا فیصلہ دراصل نوازشریف کی بے گناہی کا ثبوت ہے، پارٹی کارکنان اورعوام سے اپیل ہے کہ نوازشریف کی بے گناہی ثابت ہونے پر شکرانے کے نوافل ادا کریں۔
جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل
واضح رہے کہ 6 جولائی 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔
لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔
مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا تھا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔
ویڈیو میں ارشد ملک کو اعتراف کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز کو العزیزیہ ریفرنس میں 'دباؤ اور بلیک میل' ہوکر سزا سنائی اور نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔
مزید پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
جج ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔
بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانےکا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔
اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔
جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت قانون نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔