نیٹ ہائیڈل پروفٹ کی ادائیگیوں کے باعث سیکریٹری پاور کو عہدے سے ہٹادیا گیا
اسلام آباد: حکومت نے کئی ماہ کی قیاس آرائیوں کے بعد سیکریٹری پاور عرفان علی کو صوبوں کو نیٹ ہائیڈل پروفٹ (این ایچ پی)، ناختم ہونے والے گردشی قرضے، توانائی کے آئندہ منصوبوں کو شامل کرنے کے طریقہ کار اور کے-الیکٹرک کے ساتھ جاری مسائل سمیت متعدد متنازع معاملات پر حکام سے اختلافات کے باعث عہدے سے ہٹادیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ-22 کے افسر عرفان علی کو آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنادیا گیا اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی گئی۔
ان کی جگہ پی اے ایس کے متعلقہ گریڈ کے افسر عمر رسول جو سیکریٹری سرمایہ کاری بورڈ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے کو سیکریٹری پاور بنادیا گیا۔
مزید پڑھیں: بجلی بحران: کے-الیکٹرک سسٹم اپ گریڈنگ میں ناکامی پر مسائل کا شکار ہے، وزارت توانائی
باضابطہ نوٹی فکیشن کے اجرا سے قبل گزشتہ روز عمر رسول کا عرفان علی کے ساتھ بریفنگ سیشن ہوا تھا۔ اس سے متعلق ایک اقدام میں سیکریٹری کامرس یوسف نسیم کھوکھر کو بھی سیکریٹری داخلہ کے طور پر تبدیل کیا گیا اور ان کی جگہ محمد صالح احمد فاروقی کو تعینات کردیا گیا۔
اعظم سلیمان خان کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے باعث گزشتہ روز سیکریٹری داخلہ کا عہدہ خالی ہوا تھا۔
باخبر ذرائع نے کہا کہ عرفان علی گزشتہ ماہ دسمبر میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے منٹس پر وزیراعظم کے سیکریٹری اعظم خان کے غضب کا شکار ہوئے تھے۔
ذرائع نے کہا کہ پاور ڈویژن نے اے جی این فنکشنل طریقے کے تحت این ایچ پی کے حساب کتاب کے معاملے پر سی سی آئی کو رپورٹ پیش کی تھی جس میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ پاور سیکٹر کے میں تبدیلیوں کے باعث یہ طریقہ کار اب قابل عمل نہیں رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 161 میں صوبوں کو این ایچ پی، صوبے میں پیدا ہونے والی اور نیشنل گرڈ کو فراہم ہونے والی ہائیڈرو پاور کی بنیاد پر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو فنکشنل کمیٹی طریقہ کے تحت اس وقت زیادہ تر تربیلا ڈیم اور دیگر اسٹیشنز تک محدود تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں بجلی بحران برقرار، تمام اسٹیک ہولڈرز ذمہ داری لینے سے گریزاں
بدلتے ہوئے محرکات اور دیگر ذرائع سے ہزاروں میگاواٹس کے حصول کے بعد صوبوں کو این ایچ پی کی ادائیگیاں پوری کرنے کے لیے پاکستان میں کہیں بھی پیدا ہونے اور استعمال ہونے بجلی کے ہر یونٹ پر ایک روپے 15پیسے کی عائد کی گئی تھی۔
اس طریقہ کار سے خیبرپختونخوا کو سالانہ 170 ارب روپے سے زائد اور اسی طرح دیگر صوبوں پر اس کے اطلاق کے ساتھ پنجاب کو سالانہ 125 ارب روپے ادا کیے جاتے تھے۔
اگر یہ کافی نہیں تھا تو آزاد کشمیر کو ادائیگیاں کرنی پڑتیں جہاں سے ہزاروں اضافی میگاواٹس آرہے ہیں۔
چونکہ یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ این ایچ بجلی کی فراہمی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھر رہا ہے جو وفاقی حکومت کے لیے قومی مالیاتی کمیشن کے مالیاتی توازن سے کہیں بڑا چیلنج تھا۔