• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

ایف آئی اے کے مرد و خواتین انسپکٹرز کی مشترکہ سینیارٹی لسٹ کیخلاف درخواست مسترد

شائع July 1, 2020
ایڈووکیٹ حسن مانڈوی والا اور حسن علی فریق خواتین انسپکٹرز کی جانب سے پیش ہوئے—فائل فوٹو: اے پی پی
ایڈووکیٹ حسن مانڈوی والا اور حسن علی فریق خواتین انسپکٹرز کی جانب سے پیش ہوئے—فائل فوٹو: اے پی پی

کراچی: فیڈرل سروسز ٹریبونل (ایف ایس ٹی) نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مرد و خواتین سب انسپکٹرز کی مشترکہ سینارٹی لسٹ کے خلاف اپیل مسترد کردی۔

ایف آئی اے کے تفتیشی ونگ کے سب انسپکٹر ذیشان شیخ نے 10 اپریل 2017 کی حتمی فہرست پر تنقید کرتے ہوئے فیڈرل سروسز ٹریبونل سے فہرست کو کالعدم قرار دینے اور فریقین کو سب انسپکٹر (انویسٹیگیشن) اور امیگریشن ونگ کی خواتین ایس آئیز/ایے ایس آئیز کی علحیدہ علیحدہ فہرست جاری کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی تھی۔

درخواست گزار نے سیکریٹری داخلہ، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور ادارے کی 74 خواتین اہلکاروں کو فریق بنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے سائبر جرائم میں ملوث 20 افراد کو گرفتار کرلیا

ایڈووکیٹ حسن مانڈوی والا اور حسن علی فریق خواتین انسپکٹرز کی جانب سے پیش ہوئے، یہ معاملہ نہ صرف آئین کی دفعہ 25 کے تحت شہریوں کے مساوی اور خواتین کے بنیادی حقوق سے تعلق رکھتا ہے بلکہ صنفی تفاوت کا بھی ہے۔

وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے کے (تعیناتی، ترقی، تبادلے کے) قوانین کے تحت انویسٹیگیشن گروپ سے تعلق رکھنے والی خواتین سب انسپکٹرز کو جان بوجھ کر الگ کرنے کے لیے علیحدہ کیڈر نہیں بنایا جاسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین سب انسپکٹرز کو ترقی سے محروم رکھنا صنفی امتیاز اور آئین کی دفعہ 25 کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔

سال 2003 سے وفاقی حکومت ایف آئی اے کے قوانین (اے پی ٹی) کے تحت ایف آئی اے کے ایک ہی گروپ سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین سب انسپکٹرز کی ترقی کے لیے مشترکہ سینیارٹی لسٹ جاری کرتی رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے میں آن لائن بدسلوکی کی 56 ہزار شکایات پر صرف 32 کی تحقیقات

تقریباً 5 سال بعد 2008 میں ایک علیحدہ فہرست جاری کی گئی جس میں خواتین سب انسپکٹر کو آئندہ ترقیوں سے علیحدہ کر کے ان کے بجائے نو تعینات شدہ مرد اب انسپکٹرز کو ان کی خواتین ہم منصبوں سے پہلے ترقی دے دی گئی۔

یہ علیحدہ فہرست من مانی اور اس بات پر بنیاد کرتی تھی کہ خواتین سب انسپکٹرز صرف امیگریشن سروسز مثلاً ڈیسک کے کام کر سکتی ہیں اور ان میں انویسٹیگیشن اور کرائم ونگ میں کام کرنے کے لیے درکار قابلیت اور صلاحیت کا فقدان ہے۔

چنانچہ خواتین سب انسپکٹرز نے علیحدہ فہرست کو چیلنج کیا تھا اور یہ معاملہ ایف ایس ٹی کے علاوہ سپریم کورٹ تک بھی گیا تھا۔

قبل ازیں 23 جون کو کراچی میں ایف ایس ٹی میں تیسری سماعت پر چیئرمین قاضی خالد اور رکن رضوان علی دودانی پر مشتمل بینچ نے مشترکہ سینیارٹی لسٹ کے خلاف تیسری سماعت میں درخواست مسترد کردی تھی۔

یہ بھی دیکھیں: 'بدقسمتی سے آج ایف آئی اے کو نیب 2 بنانے کی کوشش کی جارہی ہے'

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’ہمارا یہ نقطہ نظر ہے کہ اپیل کسی بھی ٹھوس مؤقف سے عاری ہے اس لیے مسترد کی جاتی ہے۔

اس ضمن میں ایڈووکیٹ مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ معاملہ اب حل ہوچکا اور ایف آئی اے کے مرد و خواتین سب انسپکٹرز کی مشترکہ فہرست بحال ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ ’یہ فیڈرل سروس ٹریبونل کراچی کے معزز بینچ کا تاریخی فیصلہ ہے اور ایک عہد نامہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اور آئین پاکستان کے تحت بنیادی حقوق اہمیت کے حامل ہیں اور انہیں ہر قیمت پر تحفظ فراہم کیا جائے گا۔


یہ خبر یکم جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024