پاکستان اور بھارتی ہائی کمیشن کے اسٹاف میں 50 فیصد کمی کا عمل شروع
پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کے 38 اہلکار اور ان کے اہلخانہ اسلام آباد سے واپس بھارت روانہ ہوگئے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے بھارت کے جواب میں بھارتی ہائی کمیشن کے اسٹاف میں 50 فیصد کمی کے احکامات جاری کیے تھے۔
مزید پڑھیں: بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دینے پر پاکستان کا اظہار مذمت
دفتر خارجہ کے مطابق بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے اور ان کے اہلخانہ سمیت 143 افراد نئی دہلی سے واہگہ کے راستے واپس آئیں گے۔
خیال رہے کہ بھارت نے پاکستان کو خط لکھا تھا کہ وہ نئی دہلی میں اپنے سفارتی عملے کی تعداد میں 50 فیصد کمی لائے۔
تازہ پیش رفت کے مطابق دفتر خارجہ کی جانب سے جاری تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد سے بھارتی ہائی کمیشن کے اسٹاف میں 50 فیصد کمی کے تحت 38 بھارتی شہریوں میں 6 بھارتی سفارتکار بھی شامل ہیں۔
تمام بھارتی عملہ اور ان کے اہلخانہ واہگہ سے اٹاری سرحد پار کریں گے۔
علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ بھارت سے سفارتی عملے سمیت 143 پاکستانی نئی دہلی سے واہگہ کے راستے واپس آئیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ہائی کمیشن کا عملہ واپس آئے گا تو بھارت کا بھی جائے گا، شاہ محمود
دفتر خارجہ کے مطابق واپس آنے والے پاکستانیوں میں ہائی کمیشن اہلکاروں کے اہلخانہ بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ 23 جون کو بھارت نے سفارتی عملے میں 50 فیصد کمی کا فیصلہ کیا تھا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنے سفارتی عملے میں 50 فیصد کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے بھارتی فورسز کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دوسری جانب بھارت کی جانب سے سفارتی سطح پر الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
چند روز قبل بھارت نے الزام لگایا تھا کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارتی اہلکار ’جاسوسی میں ملوث‘ تھے جنہیں 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔
جس کے جواب میں بھارت کی جانب سے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارتی اہلکاروں کو ناپسندیدہ قرار دینے کی شدید مذمت کی تھی۔
مزید پڑھیں: پاکستان نے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کے بھارتی الزامات مسترد کردیے
انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کا عمل منفی اور پہلے سے طے شدہ ’میڈیا مہم‘ کا حصہ ہے اور یہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا تسلسل ہے۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ بھارتی حکام نے پاکستانی ہائی کمیشن کے 2 اراکین کو اٹھایا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگائے۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان ہائی کمیشن کی مداخلت پر انہیں رہا کیا گیا۔
دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پاکستانی سفارتی عملے کو الزام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے حالیہ الزام لداخ میں غیرقانونی تعمیرات اور بابری مسجد کی تعمیر سے توجہ ہٹانے کا حربہ تصور کیا جارہا ہے۔
علاوہ ازیں پاک آرمی نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے اندر ایک مہینے میں متعدد بھارتی جاسوس ڈرون مار گرائے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستانی ہائی کمیشن کا عملہ واپس آئے گا تو بھارت کا بھی جائے گا، شاہ محمود
لداخ کے معاملے میں بھارت اور چین آمنے سامنے ہیں اور دونوں کے درمیان بڑی کشیدگی کا خدشہ ہے۔
اس وقت دونوں ممالک کے فوجیوں نے بلند بالا علاقے لداخ کی وادی گالوان میں کیمپ قائم کیے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے پر متنازع سرحد پر دخل اندازی کے الزامات لگارہے ہیں، اس متنازع سرحد کی وجہ سے 1962 میں بھارت اور چین کے درمیان خطرناک جنگ بھی ہوئی تھی۔
سرحد پر چینی حصے میں 80 سے 100 خیمے جبکہ بھارتی حصے میں 60 خیمے لگائے گئے ہیں جہاں فوجی مقیم ہیں، جبکہ سامنے آنے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام نے لداخ کے دارالحکومت لیہہ اور نئی دہلی میں حکام کو معاملے سے آگاہ کردیا ہے۔
یہ بھی کہا جارہا کہ دونوں ممالک دفاعی تعمیرات کررہے ہیں اور چینی ٹرکس علاقے میں آلات پہنچا رہے ہیں جس سے طویل جھڑپ کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے بھارتی شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کے آغاز کی شدید مذمت کی تھی۔
مزیدپڑھیں: پاکستان کی ’نازک‘ حالات میں بھارت سے سفارتکاروں کی بےدخلی پر تنقید
دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال سے دوچار ہے اور آر ایس ایس کی حامی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ’ہندوتوا‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’26 مئی 2020 کو ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کا آغاز اس سمت میں ایک اور قدم ہے اور حکومت پاکستان اور عوام اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں‘۔