باری بدلتی ہے
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/103546702" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
اگلی باری پھر زرداری والے اپنا بوریا بستر باندھ چکے! جس طرح جانے والے صدر اپنے برے دنوں کے ساتھیوں کو نوازنے اور انکے لیے قومی دولت لٹانا اپنی شان سمجھتے تھے اسی طرح آنے والے وزیراعظم بھی اپنے برے دنوں کے ساتھی نہیں بھولتے اور وہ ان کے اتنے ممنون و مشکور ہیں کہ انہیں بھی ممنون و مشکور ہونے کا موقعہ ضرور دیتے ہیں۔
ویسے تو عدلیہ بھی ان کی اتنی ہی ممنون و مشکور ہے کہ آئین اور قانون کی پرواہ کیے بغیر ان کے ایک ہی حکم پر لبیک کہتے ہوئے ان کے حق میں فیصلے کر دیتی ہے۔
آخر ہماری عدلیہ بھی تو اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ جس جس کو مزا چکھانا تھا وہ چکھا چکی اور اب آنے والے دنوں کے انتظار میں ہے کہ جاتے جاتے چیف صاحب اپنی دیرینہ خواہش بھی پوری ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم تو صرف یا نصیب ہی کہہ سکتے ہیں، باقی چیف صاحب کی قسمت۔
بات نکلی تھی نوازنے اور ممنون و مشکور ہونے کی، لیکن چل پڑی عدلیہ کی طرف کہ اس ملک میں کسی بھی مسئلے کا سرا اگر تلاش کریں تو کہیں نا کہیں جاکر عدلیہ سے ہی ملتا ہے۔ پہلے ایسے سرے جنرلوں سے جا ملتے تھے اب ججز نے بھی عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرکے عدلیہ کو اتنا طاقتور کردیا ہے کہ ملک میں پتہ بھی عدلیہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔
بقول خانصاحب کے جو کبھی عدلیہ کےسب سے بڑے حمایتی ہوا کرتے تھے، عام انتخابات کے نتائج تو عدلیہ کی خواہش کے مطابق ہی آئے اور اب یہ جو نیا ڈرامہ صدارتی انتخابات کا رچایا جا رہا ہے، اس میں بھی عدلیہ نے اپنا ہاتھ دکھا دیا ہے۔
رہا اپنا قصرِ صدارت تو اس کے باسی بدلتے رہتے ہیں۔ جو سب پر بھاری تھے اور اگلی باری لینے کے خواب بھی دیکھ رہے تھے۔ ان کے خواب تو پورے نا ہوئے کہ قصرِ صدارت میں اگلی باری صرف وردی کو ہی ملتی ہے اور جو بے چارے وردی والے تھے، انہوں نے جو دھوکے میں آکر وردی اتاری تو انہیں بھی قصرِ صدارت چھوڑنا پڑا۔
قصہ مختصر جو سب پر بھاری تھے اب صرف اپنے اوپر اور اپنی پارٹی پر ہی بھاری ہیں۔ دیکھیں اب پارٹی ان کا بوجھ برداشت کرتی بھی ہے یا نہیں۔
پارٹی میں جو دو چار لوگ لے دے کہ قابل قبول تھے، انہیں ہمیشہ پیچھے رکھا گیا۔ حکومت تو کیا پارٹی کو بھی گھر داری کے تحت ہی چلایا گیا۔ اب جب قصر ِصدارت کی سب جیل جہاں انہوں نے اپنے آپ کو اصلی جیل اور دہشتگردوں سے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ وہاں سے رہائی ملنے والی ہے تو اب وہ بھی قبول صورت لوگوں کو آگے لا رہے ہیں۔
لیکن یہ جو قبول صورت ہیں وہ عوام اور پڑھے لکھوں کے لیے تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کے لیے لائقِ قبول نہیں جنہوں نے پچھلے پانچ سال کا ایک ایک دن گن گن کر کاٹا ہے کہ قصرِ صدارت کب خالی ہوتا ہے۔
اسی لیے قرعہ چھوٹے صوبے کے بڑے شہر کے چھوٹے بیوپاری کے نام نکلا ہے کہ قبول صورت بھی ہیں اور اپنے نام کے حساب سے ممنون و مشکور بھی رہتے ہیں۔ سب سے بڑی بات میاں صاحب کے برے دنوں کے ساتھی بھی ہیں۔
ویسے بھی اگر ابھی میاں صاحب کے اچھے دن ہیں تو کیا ہوا، برے دن تو اس ملک میں کبھی بھی آسکتے ہیں۔ برے دن کوئی پوچھ کر تھوڑا ہی آتے ہیں۔ اور اپنے میاں صاحب جلدی جلدی اپنی ذمّہ داریوں سے فارغ ہونا چاہتے ہیں کہ ان کو اور ان کے ساتھیوں کو عمرہ اور اعتکاف جیسی زیادہ اہم ذمّہ داریاں نبھانے کی فکر پڑی ہے۔
ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے تو ویسے بھی پانچ سال پڑے ہیں، لوڈ شیڈنگ تو آپ کو معلوم ہی ہے پروردگار نے چاہا تو چار سال میں ختم ہو ہی جائے گی۔ باقی رہی غربت اور بیروزگاری وہ اپنے بیوپاری لوگ جلد ہی ختم کردینگے۔
وڈیروں اور جاگیرداروں نے جتنا لوٹنا تھا لوٹ لیا۔ اب باری بیوپاریوں کی ہے۔ اب کاروبار اوپر سے نیچے تک چلے گا اور جب کاروبار چلتا ہے تو روزگار کے مواقع خود بخود نکل آتے ہیں۔
ادھر قوم کے کلیجے میں ٹھنڈک بھی پڑی ہے کہ قصرِ صدارت کرپٹ لوگوں سے پاک ہونے والا ہے۔ بھینسوں کے باڑے اور گوبر کی بو کا خاتمہ ہوگا اور سب سے بڑی بات جو کالے بکروں کی نسل کشی ہو رہی تھی، اب کم از کم ایسا کچھ نہیں ہوگا۔
میاں صاحب پھر ایک بار نیک اور پرہیزگار صدر لا رہے ہیں کیونکہ آنے والے صدر ایم بی اے کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی اضافی قابلیت بھی رکھتے ہیں اور چھوٹے کاروباری ہوتے ہوئے بھی کراچی کے کاروباری حضرات میں بڑا اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔
پھر ان کی بدولت میاں صاحب اور بھائی صاحب بھی شیر و شکر ہوگئے ہیں۔ یہ دہشتگرد اور امن امان کے دشمن اور بھتہ خوری کی باتیں تو دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہیں۔ یہ تو پہلے بھی بھائی بھائی تھے اور اب بھی بھائی بھائی ہیں۔
ویسے میاں صاحب نے بھی دیر نہیں لگائی ڈیڑھ مہینے میں ہی حساب صاف کردیا۔ اپنے سندھ کے قوم پرست اور سندھ میں نیا ستارہ ابھرنے کی پیشنگوئیاں کرنے والے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے ہیں۔ اور جو بے چارے اپنی پارٹی ختم کرکے میاں صاحب کے پیچھے لگے تھے۔ ان کے لیے تو میاں صاحب نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ اب تخت لہور بجا طور پر راج کرے گا۔ تینوں چھوٹے صوبے بڑے صوبے کو پہلے بھی پال ہی رہے تھے اب اور دل لگا کر پالیں گے۔
سندھ کے قوم پرستوں اور وفاق میں یقین رکھنے والے جو میاں صاحب کے پیچھے چل کر عوام کو یہ سمجھا رہے تھے کہ بجائے اسٹبلشمینٹ کے پنجاب سے ڈائریکٹ تعلق بڑھاناچاہیئے۔ وہ اب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے ہیں۔ اور جو‘ تو سندھ کھپائی زرداری’ کا نعرہ لیے احتجاج کرتے پھرتے تھے، وہ اب پھر اسی زرداری پارٹی کی گود میں جا کر پناہ لینگے کہ یہ راستہ بھی میاں صاحب نے انہیں خودہی دکھایا ہے۔ لگتا ہے جو تخت لہور کی محرومی کا ہم نے ذکر کیا تھا اس کا پورا پورا مداوا کرنے کا پروگرام ہے۔
رہے چھوٹے صوبے وہ تو ہیں چھوٹے تو ان کو بھی بہلا لینگے۔ اگر بھائی صاحب ، جن کو اس مشکل وقت میں کوئی بھی گلے لگانے کے لیے تیار نہیں تھا انہیں گلے لگا سکتے ہیں تو باقی کیا چیز ہیں ۔ بس ذرا اعتکاف اور عمرے سے فارغ ہوجائیں پھر سارے مسائل کو دیکھ لینگے۔ پختونخواہ والے خومخواہ پریشان ہیں کہ وفاق کے پاس انکے لیے وقت نہیں ۔ادھر بلوچستان والے بھی انتظارمیں ہیں کہ میاں صاحب کے پاس اگر وقت ہو تو کابینہ کا اعلان کریں۔ لیکن میاں صاحب بھی بے چارے کیا کریں ۔
یہ تو عمرہ ،اعتکاف اور عبادات کا مہینہ ہے۔ اور اتنی نیک سیرت اور صوم و صلوات کی پابند پارلیمینٹ کسی اور ملک میں تو نہیں۔ ہم نےپہلے تو اپنےرب کو راضی رکھنا ہے۔ باقی بندے کو راضی کرنا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پہلے والے گناہ بخشوا لینے دیں، پھر عوام کی خدمت بھی کرینگے۔ اور آپ تو جانتے ہیں اتنی تکلیف تو ہم نے صرف عوام کی خدمت کرنے کے لیے اٹھائی ہے اور عوام کی خدمت سے تو ہمیں کوئی بھی روک نہیں سکتا۔
وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں