بھارت کے جارج فلائیڈز: پولیس کی حراست میں باپ بیٹے کی ہلاکت پر شدید احتجاج
بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں رواں ہفتے کے اوائل میں پولیس کی حراست میں باپ بیٹے کی ہلاکت کے واقعے پر شدید احتجاج کیا گیا اور واقعے کو امریکا میں ہلاک ہونے والے سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ سے تشبیہ دی گئی۔
خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق 59 سالہ شہری جے جایاراج اور 31 سالہ بینیکس ایمونوئیل پر پولیس حراست میں بدترین تشدد کیا گیا تھا اوربہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ان کی ہلاکت ہوگئی تھی۔
مزید پڑھیں: امریکا: سیام فام شخص کے قتل کے الزام میں پولیس افسر کےخلاف مقدمہ
سرکاری عہدیداروں کی جانب سے جے جایاراج کی اہلیہ کو لکھے گئے خط کے مطابق دونوں باپ بیٹے کی ہلاکت پولیس افسران کے تشدد سے ہوئی اور خط عینی شاہدین کی گواہی کے مطابق تحریر کیا گیا ہے۔
جنوبی ریاست تامل ناڈو کے شہر سیٹھن کولام کی پولیس نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا کہ جے جایاراج اور بینیکس ایمونوئیل کو کورونا وائرس کے خلاف حفاظتی اقدامات کی خلاف ورزی پر 19 جون کو اٹھا لیا گیا تھا۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ ایداپادی پالانیسوامی نے کہا کہ ہینیکس 22 جون کو سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کرتے ہوئے ہلاک ہوا تھا اور جے جایاراج 23 جون کو دم توڑ گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث 2 پولیس اہلکاروں کو برطرف کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اس واقعے پر قانون کےتحت کارروائی کریں گے'۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا: سیاہ فام نواجون کی ہلاکت پر احتجاج میں شدت، 10 ہزار مظاہرین گرفتار
بھارت میں واقعے کی اطلاع ملتے ہی ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع پر شدید احتجاج کیا گیا اور بھارت میں ہیش ٹیگ 'جسٹس فار جایاراج اینڈ ہینیکس' ٹاپ ٹرینڈ بن گیا جبکہ عالمی سطح پر بھی ٹرینڈنگ میں آگیا۔
ٹوئٹر پر مشہور شخصیات اور سیاست دانوں نے پولیس کی کارروائی کی سخت مذمت کی۔
بھارت کی ریاست گجرات کے ایک قانون دان جیگنیش میوانی نے ٹوئٹر پر کہا کہ 'بھارت کے جارج فلائیڈز کی تعداد بہت زیادہ ہے'۔
میوانی نے 25 مئی کو امریکی پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے 75 ہزار فالورز سے کہا کہ 'کیا بھارت کے عوام امریکیوں کی طرح ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر احتجاج کریں گے'۔
بھارت کی نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کی 18-2017 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاً زیرحراست تشدد کے تقریباً 15 واقعات پیش آتے ہیں اور ہر 24 گھنٹے میں عدالتی یا پولیس کی حراست میں 9 افراد دم توڑ جاتے ہیں۔
این ایچ آر سی کا کہنا تھا کہ پولیس کی حراست میں ہونے والی متعدد اموات کی رپورٹ یا تو دیر سے ملتی ہے یا ملتی ہی نہیں جبکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور یہ معمول کی بات بن چکی ہے۔
یاد رہے کہ 25 مئی کو امریکی شہر مینیسوٹا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی موت کے بعد امریکا بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو شدت اختیار کرگیا اور دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں:سیاہ فام کی ہلاکت پر امریکا بھر میں پرتشدد مظاہرے
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک پولیس افسر کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اسے ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھے دیکھا جا سکتا تھا۔
جارج فلائیڈ سفید فام پولیس افسر سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتے رہے لیکن پولیس افسر 9منٹ تک اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر بیٹھا رہا جس سے بالآخر ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔
یہ ویڈیو چند گھنٹوں میں ہی دنیا بھر میں وائرل ہو گئی تھی جس کے بعد امریکا بھر میں مظاہرے، پرتشدد واقعات اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
جارج کی ہلاکت میں ملوث سفید فام پولیس اہلکار ڈیرک چوون پر دوسرے درجے کے قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔
سیاہ فام شہری کی موت کے بعد مینی ایپلس میں ہونے والے پرتشدد واقعات اور احتجاج کی گزشتہ 50 سال میں کوئی مثال نہیں ملتی جہاں آخری مرتبہ اس طرح کے حالات 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کے بعد پیدا ہوئے تھے۔