یہ روم نہیں استنبول تھا، ورنہ دوبارہ یہاں آنے کیلئے سکہ ضرور پھینکتے
تحریر و تصاویر: شبینہ فراز
ترکی کا دلربا شہراستنبول جدید و قدیم کا امتزاج ضرور ہے مگر اس کی قدامت کا احساس شہر کے درودیوار پر حاوی ہے۔ مشہور امریکی تاریخ دان ہیرالڈ لیمب نے اپنی کتاب Constantinopole: Birth of an EmpireConstantinopole: Birth of an EmpireConstantinopole: Birth of an Empire میں اس شہر کی قدامت قبل مسیح (ڈھائی ہزار سال) بیان کی ہے۔
یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع یہ شہر بجا طور پر قدیم اور جدید کا سنگم ہے۔ یہاں نئی عمارات کے ساتھ صدیوں پرانی پتھریلی عمارتیں اپنے قدیم رنگ و روپ میں موجود ہیں۔ اس شہر کے قدیم درو دیوار صدیوں کی کتھا کو اپنے اندر سمیٹے پتھروں میں ڈھلی ایک ایسی انسائیکلوپیڈیا بن چکے ہیں جسے آپ چُھو کر پڑھ سکتے ہیں۔ یہ پتھریلا لمس آپ کی ہتھیلی میں بیتی صدیاں اور ان کی رفتار بن کر سمٹ آتا ہے۔ ہم جیسے تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ کیسا انوکھا تجربہ تھا، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
میں اور میری بھارتی دوست ٹیریسا رحمٰن جن کا تعلق آسام سے تھا، ایک ہفتے کے لیے استنبول میں اکھٹے تھے اور شہر کو کھوجتے پھرتے تھے۔ ہم پانی سے متعلق ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے یہاں پہنچے تھے۔ مجھ سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 41 صحافی اس تاریخی ورلڈ واٹر فورم میں شامل تھے۔
سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافیوں کی ایک تنظیم ہماری میزبان تھی جبکہ سفری تیاریوں میں ورلڈ بینک کا واٹر اور سینیٹیشن پروگرام بھی ہمارا معاون تھا۔ اسی ادارے سے وابستہ بھارت کی وندھنا مہرہ بھی ہمارے ساتھ تھیں لیکن بدقسمتی سے وندھنا ہوٹل کے کمرے میں گرگئی تھیں اور انہیں بازو پر سخت چوٹ آئی تھی جس کے باعث انہیں 2 دن بعد ہی وطن لوٹنا پڑا۔
استنبول کا یکتائے زمانہ محل وقوع
استنبول کا ایک خاص محل و وقوع اس شہر کو جغرافیائی اعتبار سے ایک انفرادیت بخشتا ہے۔ ہیرالڈ لیمب کی کتاب کے اردو ترجمے (قسطنطنیہ، اڑھائی ہزار سال کی سرگزشت) میں مترجم غلام رسول یوں منظر کشی کرتے ہیں کہ 'استنبول کا محل وقوع مختلف اعتبار سے یگانہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ دنیا کا کوئی دوسرا شہر ایسا نہیں ہے جو 2 براعظموں کے ساحلوں پر چھایا ہوا ہو اور ایک تنگ آبنائے ان ساحلوں کو جدا کرتی ہو۔ دوم یہ کہ کوئی اور شہر بھی ایسا نہیں جو بحیرہ مرمرہ جیسے سمندر پر واقع ہو، جسے بڑی حد تک زمین بند کہنا مناسب ہوگا۔ یہ سمندر عموماً ساکن ہوتا ہے۔ اس میں بڑے سمندروں کی طرح پُرجوش لہریں نہیں اٹھتیں۔ اس سمندر میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر خوبصورت سرسبز جزیرے بھی موجود ہیں'۔
دنیا کے نامور سیاحوں اور مصنفین نے اس شہر کی دل کھول کر مدح سرائی کی ہے جن میں آئرلینڈ کا شاعر آبرے ڈی ویرے، مسٹر اور مسز میکس ملی، ٹامس ایلم، ایڈون ہاڈر، والٹر واٹسن اور ایڈورڈمٹ خورڈ شامل ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی اپنے سفرنامہ روم و شام و مصر میں لکھتے ہیں کہ 'دنیا کا کوئی شہر قسطنطنیہ کے برابر خوش منظر نہیں ہے'۔
اسی استنبول میں ہمارا قیام ایک پرانے لیکن صاف ستھرے ہوٹل 'فاتح ریسیڈیا' میں تھا۔ یہ ہوٹل فاتح مسجد کی گلی میں واقع ہے۔ قدیم طرزِ تعمیر کی اس مسجد کو سلطان محمد فاتح کی تعمیر کردہ مساجد میں سب سے قدیم مانا جاتا ہے (ء1481-ء1512)۔
ٹریسا کو جدید ترکی اپنی جانب کھینچتا ہے جبکہ ترکی کا اسلامی حوالہ ہمیں اپنی جانب متوجہ رکھتا۔ 3 ہزار چھوٹی بڑی مسجدوں کے حامل اس شہر کو بجا طور پر مسجدوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ خواتین کا مسجدوں میں نماز پڑھنا عام بات ہے (ہمیں بھی یہ سعادت حاصل ہوئی) اور اس حوالے سے لباس کوئی رکاوٹ نہیں بنتا، وہ مغربی لباس میں بھی باآسانی اپنی عبادات انجام دے سکتی ہیں۔
ترکی میں یا کسی اور دوسرے یورپی ملک میں آپ کے لیے بڑا مسئلہ زبان کا ہوتا ہے۔ یہاں کوئی انگریزی نہیں بولتا اور نہ سمجھتا ہے اس لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ شہر کا نقشہ لے لیں اور اس کی مدد سے گھوم لیں۔ نقشے پر اپنے مطلوبہ مقام پر انگلی رکھ کر کسی راہ گیر سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، وہ اشاروں کی مدد سے سمجھا دے گا۔
شہر میں ٹیکسیوں کا رواج بہت کم ہے۔ لوگ زیادہ تر پیدل چلتے ہیں۔ اندرونِ شہر کی گلیاں قدیم انداز کی چھوٹی اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں، گھروں کی دیواریں بہت چوڑی اور پتھروں کی ہیں، ان میں جگہ جگہ سے سبزہ اگا ہوتا ہے۔ سڑکیں بہت صاف ستھری ہیں۔ بارش کے دنوں میں صفائی کی گاڑیاں مسلسل پانی صاف کرتی رہتی ہیں، اس لیے آپ کو چلتے ہوئے ہرگز یہ ڈر نہیں ہوتا کہ کسی گاڑی کے گزرنے سے پانی کے چھینٹے آپ کے کپڑے خراب کردیں گے۔ اندرونِ شہر سفر کے لیے بہت تیز رفتار برقی میٹرو ٹرین موجود ہے جس میں ہر اسٹاپ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترک زبان سے ناآشنائی کے باوجود آپ کے بھٹکنے کا احتمال کم ہوتا ہے۔
استنبول میں اپنے قیام کی پہلی صبح جب ٹیریسا نے مجھ سے پوچھا کہ پہلے کہاں چلیں تو میں نے انہیں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کا بتایا۔ ٹیریسا کو اگرچہ مذہب سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی لیکن میرے جذبات کا احترام کرتے ہوئے وہ ایسی تمام جگہوں پر ذوق و شوق سے جایا کرتیں۔ استنبول سے متعلق میری معلومات پر وہ حیرت زدہ رہتیں اور جگہ کا انتخاب ہمیشہ مجھ پر چھوڑتی۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار
ہماری پہلی منزل محترم صحابی اور میزبان رسول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار تھا جس پر حاضری دینا ہماری دیرینہ خواہش تھی۔ مرکزی شہر سے دُور گولڈن ہارن سمندرکے کنارے میزبانِ رسول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ آرام فرما ہیں۔
مزار اور مسجد کی طرف بڑھتے ہوئے پہلے وسیع وعریض قبرستان سے گزرنا پڑتا ہے، قبروں پر صرف نشان اور پتھروں کے اونچے لمبے کتبے لگے ہوئے ہیں۔ مزار کے صحن میں لوگوں کی ایک لمبی قطار لگی رہتی ہے۔ عقیدت کا اظہار شاید ہر جگہ یکساں ہوتا ہے۔ خواتین کو دیکھا کہ وہ مزار کی جالی کو چُھو کر ہاتھ اپنے چہرے اور گود کے بچوں پر بھی پھیرتیں۔
مزار کی بائیں جانب دیوار میں ایک خوبصورت سی الماری بنی ہوئی ہے جو شیشے سے بند ہے اور اس میں نعلین مبارکﷺ رکھی ہوئی ہے۔ مزار کے احاطے میں واقع مسجد انتہائی خوب صورت نیلے رنگ کی ٹائلوں سے آراستہ ہے، یہاں حضورﷺ کے جو بھی آثارِ متبرکہ دستیاب ہوئے محفوظ ہیں۔ ان میں آپﷺ کی تلوار، موئے مبارک، نعلین مبارک قابلِ ذکر ہیں۔ یہیں پر سبز چادر میں لپٹا ہوا وہ علم بھی موجود ہے جو حضورﷺ نے ابو ایوب انصاریؓ کو کسی غزوہ میں دیا تھا، اسی نسبت سے حضرت ایوب کو حضورﷺ کے میزبان کے علاوہ حضورﷺ کا علم بردار بھی کہتے ہیں۔
روایت ہے کہ پیرانہ سالی کے باوجود حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے ابتدائی لشکر کے ساتھ استنبول کا سفر کیا تھا کیونکہ انہیں حضور ﷺ کی وہ حدیث یاد تھی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ جو لشکر قسطنطنیہ فتح کرے گا اس کا ہر سپاہی جنتی ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے استنبول میں وفات پائی اور وصیت کے مطابق استنبول شہر کی فصیل کے پاس ان کی تدفین کردی گئی، اور مرقد کو ہموار کردیا گیا تھا تاکہ کوئی بے حرمتی نہ کرسکے۔ مسیحیوں کو بھی تنبیہہ کردی گئی تھی کہ اگر قبر مبارک کو کوئی نقصان پہنچا تو اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔
تقریباً 800 سال بعد جب سلطان محمد فاتح نے استنبول کو فتح کیا تو اس کی بڑی خواہش تھی کہ قبر کا صحیح نشان مل جائے۔ کہتے ہیں کہ اس عہد کے ایک بزرگ نے خواب میں مرقد کا نشان دیکھا اور پھر سلطان فاتح کو بھی بتایا۔ جب مرقد سے مٹی ہٹائی گئی تو وہاں ایک تختی پر تحریر موجود تھی کہ یہ قبر کس کی ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک شاندار مقبرہ اور ایک عالی شان مسجد تعمیر کروائی۔ سلطان ہی کے ہاتھ کا لگا ہوا ایک بہت بڑا اور قدیم درخت مزار کے احاطے میں اب بھی موجود ہے۔ ترک عقیدت و محبت سے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو سلطان ایوپ کہتے ہیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں ہر سلطان تاج پوشی کے بعد وہاں حاضری دیتا اور تلوار اس کی کمر پر باندھی جاتی تھی۔
مزار کے احاطے میں سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں کے لگے ہوئے درخت پر اس کی تاریخی حیثیت، مکمل تفصیل کے ساتھ ایک بورڈ پر لکھی ہوئی ہے۔ مزار کے اندر کی روحانی فضا شاید لفظوں میں بیان نہ کی جاسکے، البتہ وہاں موجود مزار کے نگراں (سوٹڈ بوٹڈ، ٹائی لگائے) نے جب ایک خوبصورت مہکتے سرخ گلاب کی ٹہنی اور حیات طیبہﷺ پر لکھی ایک کتاب بے حد خوبصورت سرخ تھیلی میں ڈال کر ہمیں پکڑائی تو خوشی سے ہماری آنکھیں چھلک گئیں۔ ہم اس مہمان داری کے قابل نہ تھے جو میزبان رسولﷺ کے مزار پر کی گئی۔
ہمارے شاعر مشرق نے اپنے جذبات کا اظہار اپنی نظم 'بلادِ اسلامیہ' میں ایسے کیا ہے۔
نگہت گل کی طرح پا کیزہ ہے اس کی ہوا
تربت ایوب انصاری ؓ سے آتی ہے صدا
اے مسلماں! ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر
سیکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر
ترک بلاشبہ پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ زبان نہ جاننے کے باوجود وہ 'پاکستان ترک برادربرادر' کہہ کر اپنے خلوص کا اظہار کرتے ہیں۔ مذہبی معاملات میں ترک حساس بھی بہت ہیں۔ پہلے روز جب ابھی ٹریسا بھارت سے نہیں پہنچی تھیں اور ہم ہوٹل سے نکل کر ٹہلتے ہوئے ایک ٹیلی فون کارڈ کی دکان تک گئے (اس وقت واٹس ایپ ابھی اتنا مقبول نہیں تھا) تو واپسی پر ایک بیکری سے برگر خریدا۔ برگر کی شکل کچھ مختلف لگی تو احتیاطاً پوچھ لیا کہ حلال ہے نا؟ جواب میں خاصی ناراضی سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا گیا الحمدللہ مسلم۔ پھر اس کے بعد ہم نے یہ سوال کہیں نہیں پوچھا۔
یہ اگرچہ مارچ کا مہینہ تھا مگر استنبول میں ابھی سردی تھی، بارشیں بھی ہورہی تھیں لیکن ظاہر ہے ہم ہوٹل کے کمرے میں بیٹھ کر وقت ضائع نہیں کرسکتے تھے لہٰذا ہوٹل کے ریسپیشن پر موجود مرات (مراد) سے چھتری کا معلوم کیا کہ کہاں سے مل سکتی ہے تو اس نے ازراہِ ہمدردی اپنی چھتری عنایت کردی۔ مراد کو انگریزی آتی تھی۔ مراد کا کہنا تھا کہ انگریزی زبان کی بدولت ہوٹلوں میں نوکری آسانی سے مل جاتی ہے کیونکہ غیر ملکیوں سے بات چیت کے لیے کسی ایک انگریزی دان کا ہوٹلوں میں ہونا ضروری ہے۔ چھتری کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر ہم نے گھومنا پھرنا جاری رکھا۔
استنبول کے بہت سے کھانے پاکستان جیسے ہی ہیں مگر ذائقے کا فرق ہے۔ ظاہر ہے جتنے مرچ مصالحے ہمارے ہاں استعمال ہوتے ہیں وہ شاید ہی کہیں اور ہوتے ہوں گے۔ ترکی کے کباب اور کوفتوں کا سائز بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ روایتی پکوانوں میں ٹرکی یا فیل مرغ نامی پرندے کا گوشت بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈونر کباب، اسکندریہ کباب اور بھیڑ کے گوشت کے ادانہ کباب بہت مشہور اور ذائقہ دار ہوتے ہیں۔
ادانہ کباب کی شکل ہمارے سیخ کباب جیسی ہوتی ہے۔ روٹی کی جگہ خشک ڈبل روٹی استعمال کی جاتی ہے اور چپاتی یا روٹی کباب رول وغیرہ میں صرف لپیٹنے کے کام آتی ہے۔ کھانا تو ذائقہ دار مل جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ چائے کا ہوتا ہے وہ بھی ہم جیسے 'چائے کے چرسیوں' کے لیے۔
پاکستان سے باہر آپ کو مرضی کی چائے نہیں ملتی۔ ایشیائی ممالک مثلاً نیپال، سری لنکا اور بھارت میں تو اپنی مرضی کی چائے آپ بنواسکتے ہیں مگر ایشیا سے باہر آپ اپنی چائے کو بھول ہی جائیں۔ ہر جگہ چائے بغیر دودھ کے پی جاتی ہے۔ ہوٹل کے ناشتے میں دودھ اگرچہ موجود ہوتا تھا مگر چائے کے لیے نہیں بلکہ پینے کے لیے لہٰذا وہ ٹھنڈا ہوتا تھا۔
استنبول ہمارے شہر کراچی کی طرح دنیا کے بڑے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن استنبول کے ٹریفک کا نظام کراچی سے بہت زیادہ بہتر ہے۔ صاف ستھری سڑکیں اور چمکتی ہوئی بسیں نظر آتی ہیں جن کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھی سوٹ اور ٹائی میں ملبوس ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیز رفتار الیکٹرک ٹرین بھی دوڑتی دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں دقت نہیں ہوتی۔
ٹرانسپورٹ کے اسی بہترین نظام کے باعث وہاں ٹیکسی استعمال کرنے کا رحجان بہت کم ہے بلکہ لوگ پیدل چلنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ فضا بھی قدرے صاف ہے۔ لوگ بھی صاف ستھرے رہتے ہیں۔ لوگ زیادہ تر مغربی لباس پہنتے ہیں۔ خواتین لباس جدید تراش خراش کا پہنتی ہیں لیکن وہ بے ہودہ نہیں ہوتا۔ اس شہر میں اسلام کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ جگہ جگہ مسجدیں ہیں اور نماز کے وقت اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔
استنبول کا شہر 3 حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک حدِ فاصل آبنائے باسفورس ہے جس نے اس شہر کو نہ صرف 2 حصوں میں بلکہ 2 برِاعظموں میں بانٹا ہوا ہے۔ ہم اس وقت اس حصے میں تھے جو یورپ میں واقع ہے۔ پھر وہ یورپی حصہ بھی 2 حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک شاخِ زریں کی اس طرف اور دوسرا اُس طرف جس طرف مصری بازار اور توپ کاپی محل وغیرہ واقع ہیں، یہ ایک زمانے میں قسطنطنیہ شہر کہلاتا تھا جسے سلطان محمد فاتح نے فتح کیا تھا۔ شاخِ زریں کے دوسری طرف والا حصہ وہ ہے جہاں سے سلطان محمد فاتح نے کشتیاں خشکی پر چلا کر شاخ زریں میں ڈال کر شہر کے اس حصے (قسطنطنیہ) کو فتح کیا تھا۔
آبنائے باسفورس ایک آبی گزرگاہ ہے جس کے دونوں اطراف خشکی ہے۔ بڑے بڑے مال بردار بحری جہاز مال لے کر گزرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شہر کے دونوں کناروں کو ملانے کے لیے بغیر ستون کے پل بنے ہوئے تھے تاکہ بحری جہازوں کی آمد و رفت میں آسانی رہے۔ ہماری دائیں طرف وہ حصہ ہے جو یورپ میں واقع تھا۔ آبنائے باسفورس دوسری طرف جا کر بحیرہ اسود (BLACK SEA) سے مل جاتی ہے۔
توپ کاپی محل
استنبول میں ہمارے لیے دوسرا پُرکشش مقام 'توپ کاپی' محل یا میوزیم تھا۔ ایسے تمام مقامات کا داخلہ ٹکٹ بہت مہنگا تھا، اور اس وقت پاکستانی روپوں میں تقریباً 2 ہزار بنتا تھا مگر چونکہ استنبول میں بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہورہی تھی لہٰذا کانفرنس کے شرکا کے لیے داخلہ مفت تھا، انہیں صرف اپنا کارڈ دکھانا ہوتا تھا۔
توپ کاپی میوزیم دراصل ترکی کے سلطان محمد دوم کا محل تھا جس کے ایک حصے کو میوزیم کی شکل دی گئی ہے۔ اس میوزیم کے 2 حصے ہیں ایک میں وہاں رہنے والے سلاطین کی اشیا اور یادگاریں موجود ہیں، بیگمات کے حصے خصوصی طور پر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں جبکہ دوسرے حصے میں تبرکات نبوی ﷺ اور دیگر انبیاء کی اشیا دیکھنے والوں کی خوش بختی کے لیے موجود ہیں۔ میری دلچسپی توپ کاپی میوزیم کے اسی مذہبی حصے میں تھی۔ شاید مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد یہ وہ محترم شہر ہے جہاں حضور اکرم ﷺ اور دیگر انبیاء کی اتنی اہم اور متبرک اشیا اکھٹی موجود ہوں۔
یہاں کیا نہیں ہے؟ انسان پریشان ہی رہتا ہے کہ کسے دیکھیں اور کسے نہ دیکھیں اور کس طرح دیکھیں کہ یہ سب آنکھوں میں بس جائے۔ رسول پاک ﷺ کے دندان مبارک، داڑھی مبارک کے بال، نقش قدم مبارک، 4 تلواریں، مہر مبارک، روضہ رسول کی صفائی کے دوران نکلنے والی مٹی، روضہ رسول پر بچھنے والا قالین، کعبے کے طلائی تالے، حجر اسود کا طلائی کیس، بیت اللہ کا ٹوٹا ہوا طلائی پرنالہ، ہزارہا سال قدیم حضرت ابراہیمؑ کا پیالہ، حضرت یوسفؑ کا صافہ یا پگڑی، حضرت موسیؑ کا عصا، حضرت عیسیؑ کی تلوار، خلفائے راشدینؓ اور زبیر بن عوام کی تلواریں غرض اور بھی بہت کچھ جسے یاد رکھنا بھی بہت مشکل ہے کہ وہاں یہ سب دیکھتے ہوئے انسان کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔
یہیں پر ایک قرآن شریف بھی موجود ہے جس پر خون کے چھینٹے بکھرے ہوئے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ وہ قرآن پاک ہے جسے شہادت کے وقت حضرت عثمان غنیؓ پڑھ رہے تھے اور یہ چھینٹے انہی کے خون کے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ قران مشہد کے کسی میوزیم میں ہے۔ توپ کاپی میں موجود یہ نادر و نایاب اشیا آپ کو وہ سرشاری اور خوشی بخشتی ہیں کہ آپ خود کو بہت خاص سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم نے اپنے ایک ہفتے کے قیام میں 3 بار توپ کاپی کے اس حصے کی زیارت کی۔
اگرچہ یہاں بہت سے صحافی جمع تھے اور علیک سلیک سب سے رہی لیکن ٹیریسا کے ساتھ زیادہ اور اچھا وقت گزرا۔ ٹیریسا کے علاوہ تاجکستان کی خوش مزاج منورہ باوہ بھی کبھی کبھی ہمارے ساتھ شامل ہوجاتیں۔ انہیں بھارتی فلموں کا جنون تھا اور بھارتی اداکاروں سے بہت متاثر تھیں۔ منورہ کی شکل کچھ کچھ بھارتی اداکارہ ماہیما سے ملتی تھی اور اس مشابہت پر وہ بہت نازاں رہتیں۔ استنبول میں قیام کے دوران ہی ایرانیوں کا روایتی تہوار 'نوروز' بھی گزرا۔ منورہ نے بھی اسے بہت ذوق و شوق سے منایا اور نئے انداز کا مغربی لباس زیب تن کیا۔
آیا صوفیہ عجائب گھر
آیا صوفیہ دنیا بھر کے سیاحوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتا ہے۔ اس کی تعمیر اور ساخت بہت شاندار اور پُروقار ہے۔ مرکزی گنبد کے نیچے سرخ پتھروں سے بنی دیواریں نظروں کو روک لیتی ہیں۔ گنبد پر دلفریب نقش و نگار کنندہ ہیں۔ چاروں طرف برآمدوں جیسے کشادہ رقبے ہیں۔ اوپر جانے کے لیے سیڑھیوں کی جگہ سنگِ مرمر سے بنی ڈھلوان موجود ہے۔
دیواروں پر کئی جگہ مسیحی تصاویر نظر آتی ہیں۔ ان تصاویر کا سائز بہت بڑا اور 'موزائک آرٹ' سے بنی ہوئی ہیں۔ موزائک آرٹ میں پتھر کے مختلف رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانوں سے تصویر بنائی جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ آرٹ کے شاہکار تھے۔ تاریخ کے مطابق یہ ہزار سال تک گرجا رہا اور روم کے گرجے کے بعد اسے دوسرے بڑے گرجے کا درجہ حاصل تھا۔ اس آیا صوفیہ گرجے کے حوالے سے عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ یہ ہمیشہ ان کا رہے گا اور اگر کبھی کسی نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو آسمانی بلائیں اس کا راستہ روک لیں گی۔
قسطنطنیہ کی فتح کے موقعے پر تمام عیسائیوں نے اس گرجے میں پناہ لے لی تھی اور غیبی امداد کا انتظار کرنے لگے۔ سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ میں داخل ہونے کے بعد سیدھے 'آیا صوفیہ' آئے، اذان دی اور ظہر کی نماز ادا کی۔ اس دن کے بعد تقریباً 500 سال تک یہ گرجا مسجد کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
مسجد بنانے کے بعد اس میں جگہ جگہ خطاطی کی گئی لیکن حیرت انگیز طور پر دیواروں میں کنندہ تصاویر نہیں مٹائی گئیں۔ ہمارے خیال میں یہ اچھا ہی ہوا ورنہ دنیا آرٹ کے ان شہہ پاروں سے محروم ہوجاتی۔
1935ء میں مختلف تبدیلیوں کے بعد اس میوزیم کو سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اپنی ساخت اور قدامت کے باعث یہ میوزیم دنیا کے 8 عجائبات میں سے ایک ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس میوزیم کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔
نیلی مسجد
استنبول میں چھوٹی بڑی 3 ہزار کے قریب مساجد ہیں، ان میں سلطان احمد (احمت) یا نیلی مسجد ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ آیا صوفیہ سے بہت قریب واقع اس مسجد کو استنبول کی پہچان بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس مسجد کو سلطنتِ عثمانیہ کی فنِ تعمیر کا سب سے بڑا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ 16ویں صدی میں تعمیر کردہ یہ ترکی کی واحد مسجد جو 6 میناروں پر مشتمل ہے۔
نیلی مسجد نام ہونے کے باوجود اس کی عمارت ہرگز نیلے رنگ کی نہیں ہے لیکن آپ جب مسجد کے اندر جاتے ہیں تو وجہ تسمیہ سمجھ میں آتی ہے۔ اس کی اندرونی دیواریں نیلے رنگ کے ٹائلز سے مزین ہیں۔ اس مسجد میں اپنے وقت کے عظیم خطاط سید قاسم غباری نے قرانی آیات کی خطاطی کی ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔
اسی نیلی مسجد کے حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ یہ ترکی کی وہ واحد مسجد ہے جس کے 6 مینار ہیں اور جب سلطان کو علم ہوا تو انہوں نے اسے بے ادبی پر محمول کیا کیونکہ اس وقت دنیا میں صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد 6 تھی۔ مسجد کی تعمیر چونکہ مکمل ہوچکی تھی لہٰذا مسئلے کا حل یہ نکالا کہ مسجدِ حرام میں ایک مینار کا اضافہ کرکے اُس کے میناروں کی تعداد 7 کردی۔
یہاں ہر وقت سیاحوں کا جم غفیر آپ کو ملتا ہے۔ ترکی میں چونکہ سردی بہت ہوتی ہے اس لیے ہر مسجد کے دروازے موٹی چمڑی سے بنے پردوں سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ سیاحوں کو بغیر مذہبی امتیاز کیے اندر جانے کی اجازت ہے مگر کوئی خاتون سیاح کھلے سر اندر نہیں جاسکتی۔ اس مقصد کے لیے وہاں اسکارف وافر تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔
آبنائے باسفورس اور جزیرے پر کینڈل لائٹ ڈنر
استنبول کی یادیں ادھوری رہیں گی اگر ہم بذریعہ کروز آبنائے باسفورس کے سفر اور ایک نامعلوم جزیرے (نام پوچھنے کا خیال ہی نہیں رہا) میں ڈنر کا ذکر نہ کریں۔ ترکی کے وزیرِ ماحولیات نے کانفرنس میں آئے تمام صحافیوں کو ڈنر کے لیے ایک جزیرے پر مدعو کیا تھا۔ اس جزیرے پر پہنچنے کے لیے ہمیں باسفورس کے اس پل پر سفر کرنا تھا جو ایشیا کو یورپ سے ملاتا ہے۔ استنبول شہر باسفورس، بحیرہ مرمر اور گولڈن ہارن نامی سمندروں میں گھرا ہوا ہے، باسفورس دونوں براعظموں کو ملاتا ہے۔ پورے سفر کے دوران اللہ کا خاص کرم رہا اور ہلکی ہلکی بوندا باندی ہوتی رہی۔ ہم جس بڑی کشتی یا کروز میں اس سفر کررہے تھے وہاں پوری کینٹین موجود تھی۔ مہمانوں کی تواضع کافی سے کی گئی۔ ہم زیادہ تر باہر والے کھلے حصے میں کھڑے رہے اور برسات کی اس بھیگی رات میں سمندر کا فسوں دیکھتے رہے۔
اس سفر میں آپ سمندر کے ساتھ حسین پہاڑوں پر بنے خوبصورت مکانات، دلکش قدیم محلات، مساجد اور اندر تک جاتی خوبصورت گلیاں اور محلے دیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ رات کا وقت تھا لیکن جہاں جہاں روشنی تھی وہاں وہاں نظروں کو خیرہ کرتی خوبصورتی تھی۔
میزبانی کی اعلیٰ روایات کے ساتھ کینڈل لائٹ ڈنر کا آغاز ہوا، دسیوں اقسام کے کھانے باری باری پیش کیے گئے۔ صحافیوں کے ساتھ ساتھ عمائدین شہر بھی موجود تھے۔ تقریریں بھی ہوئیں اور یہیں پر پہلی بار ہمیں موسیقی اور اس پر رقص کرتے لوگ 'لائیو' دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایسے مناظر اس سے پہلے ہم نے فلموں میں دیکھے تھے۔ خوش ذائقہ طعام، مدھر موسیقی، قہقہے اور دیس دیس کی خوشبو تھی۔ سمندر میں گھرے جزیرے پر رات بھیگتی گئی اور ہم بھی یادوں کا قیمتی سرمایہ سمیٹے رخصت ہوئے۔ رخصت ہوتے ہوئے یادگار کے طور پر ہر مہمان کو خوبصورت قہوے کی روایتی چھوٹی سی پیالیوں کا سیٹ پیش کیا گیا۔ دوسرے دن صبح ہماری روانگی تھی۔
یہ استنبول تھا، روم نہیں کہ جہاں تریوی فوارہ ہوتا اور ہم سکہ پھینک کر یہ دعا مانگتے کہ دوبارہ استنبول آسکیں۔ سیاح پورے یقین سے اس فوارے کے تالاب میں سکے پھینکتے ہیں اور ہر سال 10 لاکھ یورو مالیت کے سکے اس فوارے کے تالاب میں جمع ہوتے ہیں۔ اگر یہ روم ہوتا توشاید اس سال اس میں ایک سکہ ہمارا بھی ہوتا۔
تبصرے (2) بند ہیں