• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am

جی ہاں، بلوچوں کی زندگیاں بھی معنیٰ رکھتی ہیں

شائع June 24, 2020

حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا جس کے باعث پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو دھچکا پہنچا ہے۔ اختلافِ رائے کی تازہ یہ آواز ملک کے لیے کوئی اچھا شگن نہیں ہے۔

حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے بلوچستان کے مسائل کو 'غیر سنجیدہ' لیا حکومت بننے سے قبل 2018ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ طے پانے والے 2 معاہدوں پر عمل نہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

اختر مینگل نے اپنی تقریر کے دوران جن 2 اہم مسائل کا ذکر کیا ان میں سے ایک گمشدہ افراد کا معاملہ اور دوسرا انسدادِ دہشتگردی سے متعلق قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔

اگست 2018ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور پی ٹی آئی نے مرکز میں اتحاد کے لیے 6 نکاتی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ یادداشت میں

  • گمشدہ افراد کی بازیابی،
  • نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد،
  • وفاقی حکومت کے محکموں میں بلوچستان کے لیے 6 فیصد کوٹا،
  • افغان مہاجرین کی جلد واپسی کا عمل اور
  • صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق نکات شامل تھے۔

ان مطالبات پر پورا اترنے میں ناکامی سے اسلام آباد کی پالیسی سازی میں مہلک خرابی ظاہر ہوتی ہے۔

بلوچستان کے زخموں کو بھرنے کی کوششیں نہ کرنے سے حقیقی قوتوں نے بلوچ عوام میں شدید غم و غصے کی فضا پیدا کردی ہے۔ سرِفہرست مسئلہ گنمشدہ افراد کا ہے۔

2013ء اور 2017ء کے بیچ ریاستی اداروں نے بلوچ کارکنان کے خلاف مارو اور پھینکو کی حکمتِ عملی اپنائے رکھی۔ اجتماعی قبریں کھودی گئیں۔ بعدازاں اس ظالمانہ حکمتِ عملی کی جگہ اسٹیببلشمنٹ نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے گاجر اور ڈنڈے کی حکمت عملی اپنالی جس کے نتیجے میں وہ چند سو بلوچ کارکنان گھر کو لوٹے جنہیں سول مسلح افواج اور انٹیلی جنس اداروں نے اٹھایا تھا۔

تاہم یادداشت پر دستخط ثبت ہونے کے بعد بھی شورش پسندوں کی جانب سے شدت پسندی اور ریاست کی جانب سے پرتشدد جواب کا سلسلہ نہیں تھم سکا ہے۔

امن کی خاطر آئینی فریم ورک کو تسلیم کرنے پر راضی مختلف بلوچ سیاستدانوں کے مختلف دھڑوں اور کارکنان کے ساتھ مفاہمت کی پُرخلوص کوشش کی ضرورت پر دسمبر 2014ء میں تمام سیاسی جماعتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان انسدادِ دہشتگردی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں ایک اتفاقِ رائے قائم ہوا تھا۔

2015ء میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ ری پبلکن آرمی کے لیڈران سے بات چیت کے لیے حکومتی نمائندگان کے لندن اور جنیوا کے دورے خلوص کو ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم دونوں جانب سخت مؤقف اپنائے جانے کی وجہ سے پس پردہ ملاقاتوں کا سلسلہ رُک گیا۔

متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچ نوجوانوں کی نمائندگی کرنے والے بی ایل ایف رہنما پاک ایران سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے پہلی بار قبائلی سرداروں کی جاری چھوٹے درجے کی شورش کو ہتھیانے میں کامیاب رہے۔ سیکیورٹی تجزیہ نگار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب شورش اپنے عروج پر تھی تو اس وقت شدت پسندوں کی تعداد 6 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ریاست کی جانب سے گاجر اور ڈنڈے کی حکمتِ عملی اپنانے کے بعد اس تعداد میں کمی آئی ہے۔

گمشدہ افراد کے مسئلے کا حل اور مفاہمت کی راہ ہمواری دونوں آئین اور قومی ایکشن پلان کے نفاذ کے ذریعے ممکن ہے۔ طاقت کے استعمال سے دل و دماغ نہیں جیتے جاسکتے۔ ہمارے 2 اہم سول اور فوجی انٹیلی جینس ادارے ایک طویل عرصے سے قانونی فریم ورک کے بغیر کام کرتے چلے آئے ہیں۔ انہیں قانون اور پارلیمنٹ کے آگے جوابدہ بنانا ہوگا۔

سویلین حکومتوں کی جانب سے ماضی میں وفاقی انٹیلی جنس ادارے کو قانون کے دائرے میں لانے کی 2 بار کی جانے والی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد پر نظرثانی کے لیے قومی سلامتی پر کم از کم ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔ مجھے ہمارے ان قانون سازوں پر افسوس ہوتا ہے جو حقیقی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے ہر حد پار کرجاتے ہیں۔ ایک آمرانہ ایجنڈے پر چلنے اور فوجی بغاوت کی آبیاری میں کوئی فرق نہیں۔

بدقسمتی سے جبری گمشدگی کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن ہر طرح سے ناکام رہی ہے۔ پاکستان بین الاقوامی وعدوں کے باوجود جبری گمشدگیوں پر قانون سازی میں ناکام رہا ہے۔ ریاست اپنی ساکھ گنوا چکی ہے اور کمیشن کے چیئرمین گمشدہ افراد کے لواحقین کی اذیت پر راتیں جاگ جاگ کر گزارنے کے بجائے مختلف سرکاری عہدے حاصل کرنے میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔

پی ٹی آئی نے بی این پی (مینگل) کی جانب سے کیا گیا 6 فیصد کوٹے کا مطالبہ نظر انداز کردیا ہے۔ ایسے کتنے وفاقی سیکریٹری، وفاقی حکومت کے محکموں اور اداروں کے سربراہان ہیں جن کا تعلق بلوچستان سے ہے؟ شاید 2 فیصد بھی نہیں ہیں۔

پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سول سروس سے وابستہ ہونے کے خواہشمند بلوچستان کے امیدواروں کے کوٹے کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو پاکستان کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوانے کے لیے اسکالرشپس دی جائیں۔ انہیں یہ محسوس کروانا ہوگا کہ ریاست انہیں بااختیار بنا رہی ہے نہ کہ انہیں اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ وہ ہم میں سے ہیں۔ ہمدردی، احساس اور بلوچ ثقافت کو سمجھنے کا جذبہ بیدار کرنا ہوگا۔ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سول سرونٹس کو مِڈ کیریئر کی سطح پر ترقی کی اہلیت کو بلوچستان میں 2 برس کی سروس سے مشروط کیا جائے۔ اسلام آباد کے زیادہ تر سول سرونٹس بلوچستان کی تاریخ، ثقافت، جغرافی اور اس کے اقدار سے نابلد ہیں۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل انسدادِ دہشتگردی قومی ایکشن پلان کا اہم حصہ تھا۔ اسے افغان تنازع کے تناظر میں حائل مجبوریوں کے باعث سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ اب جبکہ پاکستان افغانستان میں امن مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے لہٰذا مہاجرین کی واپسی کے طریقوں پر بات چیت کرنے کا یہی اچھا موقع ہے۔

چونکہ میں بلوچستان میں بطور پولیس سربراہ خدمات انجام دے چکا ہوں اس لیے میں اس بات سے واقف ہوں کہ انتخابات کے دوران افغان مہاجرین ان پختون زیر اثر سیاسی جماعتوں کے لیے طاقت بڑھانے کا باعث بنتے ہیں جنہوں نے کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح میں مقیم افغان خاندانوں کو قومی شناختی کارڈ بنوانے میں مدد کی ہے۔ شمالی بلوچستان میں مہاجر کیمپوں میں پیدا ہونے والے بچے پاکستان کو اپنا وطن قرار دینے کا حق رکھتے ہیں۔ انہیں جبراً جنگ زدہ علاقے میں بھیجنے کے بجائے اس مسئلے کا کوئی معقول حل تلاش کرنا ہوگا۔

سی پیک کی کامیابی کے لیے پانی کے شدید بحران کو حل کرنے کے لیے صوبے میں ڈیموں کے مطالبے کو سنجیدہ لینا ہوگا۔ 2010ء میں بلوچستان کے لیے وہ فخریہ لمحہ تھا جب این ایف سی ایوارڈ کو گوادر میں آخری شکل دی گئی۔ صوبہ فراموشہ کے مالی حقوق کو بالآخر تسلیم کرلیا گیا۔ این ایف سی میں تبدیلی یا ترمیم، جس کی تجویز حال ہی میں وزیرِاعظم نے دی ہے، اس کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔

اس سے زیادہ حیران کن بیان وزیرِاعظم نے اپنے اس دورہ کراچی کے موقع پر دیا جس میں انہوں نے وزیراعلیٰ سے ملاقات بھی نہیں کی۔ وزیرِاعظم نے 18ویں ترمیم پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ آئین میں مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے نظرثانی اور ایڈجٹسمنٹ کی گنجائش موجود ہے۔ اس لحاظ سے وزیرِاعظم کو وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بیٹھ کر ہی تمام معاملات سلجھانے ہوں گے۔

پاکستان میں کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس وقت سب کی نظریں سیاستدانوں پر مرکوز ہیں۔ کیا یہ اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر امتحان کی اس گھڑی میں قوم کو یکجا کریں گے؟

کھیل کے میدان میں بطور ایک بڑے ہیرو کی حیثیت سے عمران خان وعدے کی طاقت سے بخوبی آشنا ہوں گے۔ انہیں بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنا ہوگا کیونکہ بلوچوں کی زندگیاں بھی معنیٰ رکھتی ہیں۔


یہ مضمون 20 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

طارق کھوسہ

لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024