یہ وقت تو اختیارات دینے کا ہے لینے کا نہیں
اسٹیبلشمنٹ کے حامی سیاستدان 18ویں ترمیم پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہی وہ قانون ہے جس نے لسانی اعتبار سے تناؤ کی شکار ریاست میں اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا۔ ایک ایسی ریاست جہاں مرکزیت پسند کی شدید طلب نے اکثر سانحات کو جنم دیا، جیسے سال 1971ء کو ہی لے لیجیے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے عمل کو ایک منصوبہ بندی کے تحت عوامی مینڈیٹ کے بغیر معطل کرنے سے صرف تناؤ اور پریشانیاں ہی بڑھیں گی۔
عالمی اسباق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا عمل بڑی یا لسانی اعتبار سے منقسم ریاستوں میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے حکمران پہلے سے زیادہ جوابدہ بن جاتے ہیں اور اس کے ذریعے سیاسی میدان میں مختلف گروہوں کو جگہ ملنے سے تنازعات میں کمی آتی ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی قدر و اہمیت کا اندازہ خطے کے ممالک سے بھی ہوجاتا ہے۔
سارک ممالک میں سے صرف بھوٹان، بنگلہ دیش اور مالدیپ ہی ایسی وحدانی ریاستیں ہیں جہاں صوبوں کا تصور نہیں پایا جاتا مگر اس کی بھی وجوہات ہیں۔ دراصل بھوٹان اور مالدیپ بہت ہی چھوٹے ممالک ہیں جبکہ بنگلہ دیش بھی رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا نہیں اور آبادی کا 98 فیصد حصہ بنگالیوں پر مشتمل ہے جن میں 90 فیصد مسلمان ہیں۔ بڑے سارک ممالک میں سے یہ واحد ایسا ملک ہے جو مغربی یورپی ملکوں کی طرح فطری طور پر ایک قومی ریاست کی حیثیت رکھتا ہے کہ جہاں زیادہ تر لوگ ایک ہی نسلی شناخت، مذہب اور لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایسے ممالک میں داخلی تنازعات کم ہی کھڑے ہوتے ہیں اور عام طور پر یہ تیزی سے ترقی کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش بھی تیزی سے سارک کا روشن اقتصادی ستارہ بن رہا ہے۔ تاہم کثیر آبادی کے باعث ممکن ہے کہ آئندہ عرصے میں یہ بھی اپنے ہاں وفاقی نظام لاگو کردے گا۔ نچلی سطح پر اختیارات نہ ہونے کے باوجود ان تینوں ممالک کو چھوٹے سائز اور/ یا یکسانیت کے باعث تنازعات کا بہت ہی کم سامنا ہوا ہے اور تھوڑی بہت ترقی بھی کی ہے۔
تکثیری ملکوں میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے فطری قومی تشخص کے برعکس دیگر بڑے سارک ممالک کا قومی تشخص ان کا اپنا بویا ہوا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں مختلف لسانی گروہ باہمی فوائد کی خاطر ایک بڑے ملک میں مل کر رہتے ہیں۔ ایسے ممالک میں لسانی گروہوں کو خوش رکھنے کے لیے انہیں اختیارات منتقل کرنے ہوتے ہیں۔
سارک ممالک کے ساتھ ہمیشہ سے یہ معاملہ نہیں رہا ہے۔ گزشتہ 4 دہائیوں سے جنگ کا سامنا کرنے والے افغانستان کو کبھی بھی آئینی اعتبار سے آگے بڑھنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔
سری لنکا 1987ء تک وحدانی ریاست بنا رہا جس کے باعث تامل اقلیت میں غم و غصہ پایا جاتا تھا اور ایک طویل خانہ جنگی چلتی رہی۔ جنگ تو اختتام کو پہنچ گئی لیکن تامل باشندوں کی شکایتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے کیونکہ سری لنکا میں مرکزیت پر مبنی نظام رائج ہے جہاں نہ سینیٹ ہے اور بڑی حد تک دکھاوے کے صوبے موجود ہیں۔
نیپال 3 بڑے لسانی گروہوں پر مشتمل ایک وحدانی ریاست تھی اور اس ملک نے طبقاتی بنیادوں پر ہونے والی ماؤ خانہ جنگی کا سامنا بھی کیا۔ 2015ء میں 7 صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سے متعلق معاہدے کے بعد جاکر جنگ اور سیاسی تعطل کا خاتمہ ہوا۔ مگر یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ تجربہ کس قدر کارگر ثابت ہوتا ہے۔
اب باقی رہ گئے سارک کے 2 بڑے طاقتور اور روایتی حریف۔ خطے میں خود مختاری کے تناظر میں دیکھا جائے تو 1940ء کی قراردادِ لاہور یہ ظاہر کرتی ہے کہ مسلم لیگ کی جانب سے مسلمانوں کو 2 قومی نظریے کی دعوت دراصل اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے وعدے کے ساتھ بوئے قومی تشخص کے تصور پر مبنی تھی۔
مسلمانوں کو 2 مختلف نظریات کی دعوتیں موصول ہوئی تھیں، ان میں سے ایک کانگریس کا نظریہ تھا جس کی بنیاد ہندوستانی ساختہ قومی تشخص تھا جبکہ دوسرا پاکستانی ساختہ قومی تشخص تھا۔
کانگریس نے مرکزیت پسند ریاست کی بات کی۔ 1940ء کی قرارداد میں اختیارات کی منتقلی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 1946ء کے انتخابات میں مسلمانوں نے مسلم لیگ کی دعوت قبول کی، جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ تقسیم کی 2 بڑی بنیادوں میں سے جب ایک یعنی مذہب کا معاملہ حل ہوجائے گا تو ابھرنے والی ریاست میں زیادہ ہم آہنگی ہوگی اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے ذریعے لسانی گروہوں کو سیاسی میدان میں جگہ دے کر انہیں ساتھ لے کر چلا جائے گا۔
دوسری طرف تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان نے لسانی شناخت کی بنیاد پر بننے والی ریاستوں کو اختیارات منتقل کیے اور یوں کسی بھی لسانی گروہ کی جانب سے دیگر پر غالب آنے کی کوششیں نہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کو اپنی لسانی تکثیریت قومی تشخص میں گھولنے میں مدد ملی۔ تاہم بھارت مذہبی اقلیتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے میں ناکام رہا جس کے باعث تشدد کی راہ ہموار ہوئی۔
پاکستان نے لسانی اور مذہبی دونوں گروہوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ مؤخر الذکر گروہ کی آبادی بہت ہی کم اور بکھری ہوئی ہے اس لیے احتجاج کی کوئی صورت ہی نہیں نکل پاتی اور خاموشی سے تکالیف برداشت کرتی ہے۔ تاہم لسانی اقلیتیں اختیارات کی عدم منتقلی کا شکوہ زور و شور سے کرتی ہیں اور اکثر اوقات آمرانہ قوتوں کے ہاتھوں جبر کا سامنا بھی کرتی ہیں۔
چنانچہ سارک کے اسباق مرکزیت پسندی کے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ جمہوریت اور اختیارات کی منتقلی کے عمل کے بغیر تکثیریت تباہی اور اموات کی راہ ہموار کرتی ہے۔
2008ء سے 2018ء کے بیچ پاکستان نے اختیارات کی منتقلی کے سلسلے میں اہم اقدامات کیے، اس دہائی کو سیاسی اور ہر اعتبار سے بہترین دہائی قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہی اقدامات میں 18ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ، حزبِ اختلاف، سول سوسائٹی اور میڈیا کے ساتھ قدرے نرم رویہ، اور 2013ء کے انتخابات کے بعد اقتدار کی پُرامن منتقلی شامل ہیں۔
مگر اس کے بعد سے یہ ثمرات ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں ایجنسیوں نے دھاندلی کروائی جس کے بعد سے ایک کمزور حکومت غیر منتخب قوتوں کے زیرِ اثر میڈیا، حزبِ اختلاف اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں مصروف ہے۔ 18ویں ترمیم سیاسی ارتقائی سلسلے کی وہ کڑی ہے جو اب تک باقی ہے۔ اس ترمیم کو واپس لینے سے ہمارے پاس جمہوریت کی آخری نشانی بھی ناپید ہوجائے گی۔
بغیر ٹھوس تجزیے یا بغیر شواہد کے اختیارات کی منتقلی کے خلاف شکایتوں کی مبہم فطرت اور جھوٹے دعوے ہی معاملات کو بد سے بدتر بناتے ہیں کہ وفاقی طرزِ حکومت اپنے اختیار سے باہر نکلتے ہوئے وفاق کو کمزور کر رہی ہے۔ مگر دنیا کے مضوط وفاقی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں نچلی سطح پر منتقل ہونے والے اختیارات کاغذ پر بھی بہت ہی کم ہیں اور عدلیہ، ایجنسیوں اور مرکز کی مداخلت کے باعث مزید محدود ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں نچلی سطح سے اختیارات واپس لینے کی نہیں بلکہ مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔
عالمی تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جب ایسے لوگ ریاست کے پیچیدہ معاملات سنبھالتے ہیں جنہیں صرف بموں اور بندوقوں کو سنبھالنے کی تربیت دی جاتی ہے تو وہاں مرکزیت پسندی اور تنازعات کا رجحان زور پکڑتا ہے۔ سویلین بالادستی اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے ہی پاکستان تنازع سے خود کو بچا سکتا ہے۔
یہ مضمون 16 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں