امریکا نے ہواوے سے متعلق اپنا موقف نرم کرلیا
امریکا اور ہواوے کے درمیان تناع میں اچانک غیرمتوقع موڑ اس وقت آیا جب امریکی محکمہ تجارت کی جانب سے چینی کمپنی کو امریکی کمپنیوں کے ساتھ کچھ تعاون کی اجازت دینے کا اعلان کیا گیا۔
اگرچہ ہواوے بدستور امریکی بلیک لسٹ میں موجود رہے گی مگر اس ترمیم سے امریکی کمپنیاں اپنی ٹیکنالوجیز چینی کمپنی کو بغیر لائسنس کے اس صورت میں دکھاسکیں گی، اگر وہ 5 جی اسٹینڈرڈ ڈویلپمنٹ کے لیے ہوں۔
امریکی محکمہ تجارت کے اعلان میں کہا گیا کہ ہواوے کو بلیک لسٹ میں شامل رکھنے کے ساتھ اس ترمیم کا مقصد امریکی کمپنیوں کو اہم ٹیکنالوجی اسٹینڈرڈ تیار کرنے میں سہولت فراہم کرنا ہے۔
امریکی کامرس سیکرٹری ولبر روس نے کہا کہ امریکا عالمی تنوع میں اپنی قیادت سے دستبردار نہیں ہوگا، یہ اقدام امریکی پیشرفت کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور قومی سلامتی کو تحفظ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت انفراسٹرکچر کے حوالے سے کوئی کمپنی سرفہرست نہیں بلکہ چیچن سے ہواوے، سوئیڈن سے ایریکسن اور فن لینڈ سے نوکیا وہ تین کمپنیاں ہیں جو 5 جی اسٹینڈرڈز میں نمایاں کام کررہی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال مئی میں امریکا نے چینی کمپنی کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے بلیک لسٹ میں شامل کردیا جس کے باعث امریکی کمپنیاں ہواوے کو پرزہ جات اور دیگر سپورٹ ٹرمپ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر فراہم کرنے سے روک دیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال مئی میں اس ایگزیکٹو آرڈر کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردی تھی جس کے تحت ہواوے کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو اس کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
گزشتہ سال کے ایگزیکٹیو آرڈر کے بعد سے ہواوے کی جانب سے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ امریکی کمپنیوں پر انحصار ختم کیا جاسکے۔
امریکا کی جانب سے ہواوے پر پابندیوں پر اب تک مکمل عملدرآمد نہیں کیا گیا بلکہ عارضی لائسنس کے ذریعے اسے کچھ سہولت فراہم کی جاتی رہی۔
ہواوے نے گزشتہ سال اگست میں اپناآپریٹنگ سسٹم ہارمونی او ایس متعارف کرایا، تاہم اسے اسمارٹ فونز کی جگہ دیگر ڈیوائسز میں استعمال کیا جارہا ہے۔
گوگل موبائل سروسز اور پلے اسٹور سے محرومی کے بعد ہواوے نے متبادل ایپ گیلری متعارف کرائی جس میں ایپس کی تعداد بہت زیادہ نہیں مگر دنیا بھر میں ڈویلپرز کی خدمات حاصل کرکے تعداد بڑھائی جاری ہیے۔
رواں سال مارچ میں کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ اس کی ایپ گیلری کو استعمال کرنے والوں کی تعداد 40 کروڑ تک پہنچ چکی ہے جبکہ 13 لاکھ ڈویلپرز کی خدمات حاصل کی جاچکی ہیں۔
اگر ہواوے کسی طرح گوگل کی مقبول ایپس کے مقابلے میں متبادل ایپس کو کامیاب کرانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ گوگل کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوگا کیونکہ دیگر چینی اسمارٹ فون کمپنیاں بھی ہواوے ایپس کا استعمال شروع کرسکتی ہیں۔
ہواوے ، شیاؤمی، اوپو اور ویوو جیسی بڑی اسمارٹ فونز چینی کمپنیاں بھی ایک پلیٹ فارم کو تشکیل دے رہی ہیں جو چین سے باہر موجود ڈویلپرز کو اپنی ایپس بیک وقت ان کمپنیوں کے ایپ اسٹورز میں اپ لوڈ کرنے کی سہولت فراہم کرے گا۔
یہ کمپنیاں گلوبل ڈویلپر سروس الائنس (جی ڈی ایس اے) کے زیرتحت اکٹھی ہوئی ہیں اور یہ اقدام گوگل پلے اسٹور کی بین الاقوامی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی کوشش ہے۔
چین میں گوگل پلے اسٹور پر پابندی عائد ہے اور وہاں کے اینڈرائیڈ صارفین مختلف ایپ اسٹورز سے ایپس کو ڈاﺅن لوڈ کرتے ہیں جن میں سے بیشتر مختلف کمپنیوں جیسے ہواوے اور اوپو سنبھالتی ہیں، مگر چین سے باہر گوگل پلے اسٹور کی بالادستی قائم ہے، جو ڈویلپرز کو اپنے سافٹ وئیر اپ لوڈ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، اس اجارہ داری کے نتیجے میں تھرڈ پارٹی ایپ اسٹورز کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اور اب اسے جی ڈی ایس اے کے پلیٹ فارم سے چیلنج کیا جارہا ہے۔
ہواوے کو رواں سال جنوری میں ایک بار کامیابی اس وقت ملی تھی جب امریکی مخالفت کے باوجود برطانیہ نے 5 جی نیٹ ورکس کے قیام میں چینی کمپنی کو کردار دینے کی منطوری دے دی تھی۔
اسی مہینے یورپی یونین نے بھی ہواوے کے 5 جی نیٹ ورکس پر پابندیوں کے امریکی دباﺅ کو مسترد کردیا تھا۔
ہواوے فونز میں گوگل سرچ کی جگہ بھی ہواوے سرچ کو متعارف کرایا گیا ہے اور یہ اضافہ گوگل سرچ انجن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہوگا کیونکہ ہواوے اس وقت دنیا کی دوسری بڑی اسمارٹ فون کمپنی یے اور کروڑوں افراد اس کی ڈیوائسز استعمال کرتے ہیں۔
گوگل نے ہواوے کے ساتھ کام کرنے کے لیے رواں سال فروری میں امریکی حکومت کے پاس لائسنس کی درخواست جمع کرائی ہے تاکہ وہ ہواوے کے لیے گوگل موبائل سروسز کے استعمال کے لائسنس کو دوبارہ جاری کرسکے۔
مگر اس درخواست کا تنیجہ اب تک سامنے نہیں آسکا اور ہواوے کے نئے فلیگ شپ پی 40 سیریز سمیت دیگر نئے فونز تاحال گوگل سروسز سے محروم ہیں۔