ۤآئی ایم ایف کی اتنی جرأت ہوئی کہ اس نے کہا دفاعی بجٹ منجمد کردیا جائے، رضا ربانی
اسلام آباد: حکومت کو سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس نے بجٹ کو غیر حقیقی قرار دیا۔
اس موقع پر ایک وفاقی وزیر نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر برائے انسداد منشیات اعظم سواتی نے ایف بی آر کے خلاف دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے اسے ملک کا سب سے بدعنوان ادارہ قرار دیا۔
خیال رہے کہ اعظم سواتی کے کابینہ کے حالیہ اجلاس میں بھی ایف بی آر کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے تھے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم نے بھی ان کے اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’ہاں یہ 100 فیصد بدعنوان ہے اور اسی لیے ہم آٹومیشن کی جانب جارہے ہیں‘ ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا کہ ایف بی آر کے زیادہ تر افسران انتہائی بدعنوان ہیں اور حتیٰ کہ ایف بی آر کے انسپکٹرز بھی بڑا پیسہ بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک اور عوام کو آگے لے جانے کے لیے ٹیکس بیس میں توسیع انتہائی اہم اقدام ہے۔
اس پر جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد نے کہا کہ بجٹ کی اتنی اہم بحث کے موقع پر سینیٹ گیلری میں ایف بی آر کا کوئی سینئر افسر موجود نہیں۔
جس پر چیئرمین سینیٹ نے ہدایت کی کہ ایف بی آر چیئرپرسن، اراکین پالیسی، اراکین کسٹم اور اراکین انکم ٹیکس بدھ کے روز سینیٹ اجلاس کے انعقاد سے قبل موجود ہوں۔
قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سینیٹر رضا ربانی نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سیاسی اور معاشی خودمختاری کو اس حد تک گروی رکھوا چکی ہے کہ مالی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی اتنی جرأت ہوگئی کہ اس نے کہا کہ پاکستان میں دفاعی بجٹ بھی منجمد کردیا جائے۔
سینیٹ کے اجلاس میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ پیش کردہ بجٹ کے 6 ستون ہیں، آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن، بجٹ میں کیپیٹلزم کا گٹھ جوڑ، مافیا، صوبوں کے حصہ کو کم کرنا اورائی ایم ایف کے اسٹافرز سے بات کرکے بجٹ بنانا۔
مزیدپڑھیں: بجٹ 2020: عوام کے لیے کیا اچھا رہا اور کیا بُرا؟
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اتنی مداخلت آئی ایم ایف کی جانب سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی کہ عالمی مالیاتی ادارے کے کہنے پر تنخواہ اور پنشن کو منجمد کردیا گیا۔
سینیٹر رضا بانی نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں عام انسان کے لیے کچھ نہیں، موجودہ بجٹ، بجٹ ہے بھی نہیں بلکہ ایک دھوکا ہے جو ہمارے سامنے رکھا۔
انہوں نے کہا کہ اصل بجٹ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا ہوا ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ بجٹ میں نے بے روزگاری، مہنگائی ، صحت کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے جبکہ بجٹ میں تیل کی قیمت بڑھانے کی بات کی گئی ہے۔
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ نیب اور ایف آئی اے کے ملازمین کی تنخواہوں میں انھوں نے پہلے ہی اضافہ کر دیا۔
موجودہ بجٹ کورونا کرائسز بجٹ ہونا چاہیے تھا، شیری رحمٰن
سینیٹر شیری رحمٰن نے بجٹ بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سارا ملک پارلیمان کی جانب دیکھ رہا ہے کیونکہ ان سنگین حالات میں لگتا ہے بجٹ کسی اور سیارے پر بنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ گزشتہ بجٹ کا کاپی پیسٹ ہے جبکہ کورونا سے قبل ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات ایسے نہج پر تھے کہ پورا ملک پوچھ رہا تھا کہ معیشت کون چلا رہا ہے؟۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ موجودہ بجٹ کورونا کرائسز بجٹ ہونا چاہیے تھا، ہسپتالوں پر دباو ہے۔
دفاعی بجٹ کو منجمد کرنا کوئی مہربانی نہیں، سینیٹر عبدالقیوم
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ دفاعی بجٹ کو منجمد کرنا کوئی مہربانی نہیں جبکہ بھارت للکار رہا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں جائیں گے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پیک تباہ کریں گے۔
سینیٹ کے اجلاس میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ حکومت نے سی پیک کو پس پشت ڈال دیا ہے اور دفاع کے بجٹ کو کاٹنے کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: دفاعی بجٹ کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے کی تجویز
انہوں نے کہا کہ پاکستان نیوی کو ائیر ڈیفنس اور گوادر پورٹ پر دفاع کی ضرورت ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مسلسل پاکستان کو دھمکی دے رہا ہے اور کسی وقت وقت پر بھی حملہ ہو سکتا ہے۔
سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ 'ہم بھارت کے دفاعی بجٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتے، پہلی مرتبہ ہم منفی میں جا رہے ہیں یہ افسوسناک ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین کو معاون خصوصی اطلاعات بنا کر بیک برنر پر ڈال دیا۔
عبدالقیوم نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں سے نوکریاں پیدا ہوتی ہیں جبکہ کورونا وائرس کے بعد اور بے روزگاری آئے گی۔
انہوں نے تنخواہ کو کم از کم 10 فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اسٹیل ملز کی نجکاری کرنا چاہتی تھی تو اسے روکنے میں سب سے آگے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) والے تھے۔
علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اور بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سروس ٹھیک نہیں جس کی وجہ سے طلبہ کو پریشانی کا سامنا ہے۔
مزیدپڑھیں: حکومت سندھ کا 17 جون کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 12 جون کو مالی سال 21-2020 کا بجٹ پیش کیا تھا جس میں دفاعی بجٹ کے لیے تقریباً 12 کھرب 90 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی۔
آئندہ مالی کے لیے تجویز کردہ دفاعی بجٹ جاری مالی سال کے مقابلے میں 11.8 فیصد زیادہ ہے۔
قومی اسمبلی میں وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے مالی سال 21-2020 کا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مشکل حالات میں کفایت شعاری کے اصولوں پر کاربند ہے، ہم افواج پاکستان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے حکومت کی کفایت شعاری کی کوششوں میں بھرپور تعاون کیا ہے۔
پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود بروقت, مستقل بنیادوں پر فیصلے کیے، وسیم شہزاد
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنما اور قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کہا کہ کورونا کے اثرات بتاتے ہیں کہ پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود بروقت اور مستقل بنیادوں پر فیصلے کیے۔
وسیم شہزاد نے بتایا کہ برطانیہ میں 20 فیصد معیشت برباد ہوئی، اٹلی فرانس اسپین کے جی ڈی پی میں کمی ہوئی، امریکا میں 20 ملین افراد بے روزگار ہوئے، ترکی میں 19 سال کا بدترین معاشی بحران سامنے آیا جبکہ بھارت حالیہ اپنی معیشت کی بدترین سطح پر ہے۔
ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کہا کہ کورونا کی وبا تو اب آئی لیکن پاکستان کی معیشت تو کئی دہاہیوں سے اپ کی کرپشن کی وبا کا شکار ہے جبکہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔
انہوں نے کہا کہ خزانہ خالی تھا، حکمران امیر سے امیر تر اور عوام غریب سے غریب تر تھا آپ (مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی) یہ صورت حال چھوڑ کر گئے تھے۔
ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کہا کہ جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تو سب سےپہلے معیشت کو استحکام دیا، ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا، دنیا کے مالیاتی ادراوں نے پاکستان کی معاشی پیش رفت کو تسلیم کیا ۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم ٹیک آف کرنے والے تھے تو کورونا وبا نے جنم لیا لیکن کورونا سے نمٹنے بروقت اقدامات کئے۔
واضح رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور پاکستان کو اس کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ملک کی صورتحال کے حوالے سے گزشتہ روز وفاقی وزیر اسد عمر نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ جولائی 2020 کے اواخر تک ملک میں کووڈ-19 کے کیسز کی تعداد 10 سے 12 لاکھ ہوسکتی ہے۔
15 جون کی شام تک سندھ، پنجاب، اسلام آباد، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مزید کیسز آنے کے بعد ملک میں اس وبا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ 46 ہزار 713 تک جاپہنچی۔