یوسف میرک: ایک کتاب جو شاہ جہاں کے دربار تک نہ پہنچ سکی
صدیوں پہلے گزر جانے والے دن ہمیں سہانے تو لگتے ہیں لیکن کبھی کبھار جب میں تاریخ کے ان زمانوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو یقین جانیے، ماضی کے وہ ماہ و سال اتنے پیچیدہ، مشکل اور ڈراؤنے لگتے ہیں کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔
ان تاریخ کے پنوں پر مجھے تو کسی بھی طبقے کا انسان محفوظ نہیں لگتا۔ جنگ کے میدانوں میں لوگ گاجر مولی کی طرح کٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومتی مشینری کا کوئی بھی عہدیدار عام آدمی کو جیسے چاہتا ذلیل، خوار اور رُسوا کرتا۔ سُوکھا پڑتا تو لوگ اس خیال کے ساتھ بازاروں میں اپنے لختِ جگروں کو بیچنے نکل پڑتے کہ ان کے بدلے کچھ روپے مل جائیں گے اور بک جانے پر بچہ کم از کم زندہ تو رہے گا۔
یہ بے بسی کی آخری سرحد ہوتی ہے جب آدمی اپنے بچے بیچ دے! ایسا نہیں کہ اِن دنوں انسان سکھ، سکون اور مسکان کے جھولے میں جھول رہا ہے مگر پہلے سے بہت بہتر اور زبردست زندگی ضرور گزار رہا ہے۔ باقی انسان ہے۔ جس کی سرشت میں وحشت ہے اس کو ہم کئی صدیوں تک نہیں نکال سکتے۔ اس کو کسی نہ کسی روپ و کیفیت میں انسان کے دماغ میں رہنا ہے۔
آج ہم زیادہ دُور نہیں بس 400 سال پہلے گزرے زمانوں میں چلیں گے۔ آپ اگر ان زمانوں سے متعلق تحریروں کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو کئی رنگین افسانوں جیسی سچی کہانیاں پڑھنے کو مل جائیں گی۔ جہانگیر، اکبر کا بیٹا تھا، یہ اس کے لیے ایک اعزاز تھا جو جہانگیر کے تخت و تاج میں کسی نایاب ہیرے کی طرح چمکتا تھا۔ مگر اولاد کے معاملے میں وہ اتنا زیادہ خوش نصیب نہیں تھا۔ ہاں البتہ اپنی چہیتی بیوی نور جہاں سے متعلق ’تزک جہانگیری‘ میں لکھی اس کی تحریر میں نور جہاں سے محبت کی خوشبو بستی ہے کہ کیفیتیں زمان و مکان سے آزاد ہوتی ہیں۔
بیٹے ’خسرو‘ نے جہانگیر کو بغاوتوں کے حوالے سے پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دربار میں ’مہابت خان‘ کو ذلیل و خوار کرنے کی وجہ سے اس نے بغاوت کی، جس کی وجہ نور جہاں بیگم تھی۔ بہرحال شہزادہ خرم بھی اسی قطار میں تھا جس کو تخت و تاج حاصل کرنے کی چاہت میں راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔
نورجہاں بیگم کے حوالے سے تاریخ میں بہت سارے ابہام اور حقیقتیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ نور جہاں کو اپنے خون کے رشتوں سے بڑی محبت تھی۔ تاریخ کے صفحات میں مشکل سے ہی محلوں میں رہنے والی ایسی دوسری عورت نظر آئے گی جس کو اپنے خاندان سے اتنی شدید محبت رہی ہو۔ کبھی وقت ملا تو ہم اس بارے میں بھی تفصیل سے بات کریں گے۔
1625ء میں ننگر ٹھٹہ کے مغل گورنر ’سید بایزید بخاری‘ نے یہ جہان چھوڑا تو نور جہاں کے کہنے پر جہانگیر نے ننگر ٹھٹہ کا صوبہ ’شہریار‘ (نور جہاں کے داماد) کو جاگیر کے طور پر دے دیا، جس کا نائب ’شریف الملک‘ کو مقرر کیا گیا۔
جہانگیر کشمیر سے لوٹتے وقت ’راجور‘ کی منزل سے آگے بڑھا تو اس کی طبیعت خراب ہوگئی۔ وہ 60 برس کی عمر میں 22 برس 8 ماہ 1 دن کی حکمرانی کے بعد 1627ء میں 7 نومبر بروز اتوار کو انتقال کرگیا۔
نور جہاں کے بھائی، ابوالحسن آصف خان نے یہ خبر سُن کر فوری طور پر خسرو کے بیٹے ’داور بخش‘ کو تاج پہنایا کہ ملک افراتفری سے بچ سکے۔ دوسری طرف نور جہاں اپنے داماد ’شہریار‘ کو بادشاہ بنانا چاہتی تھی مگر اس کے بھائی نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا کیونکہ وہ اپنے داماد ’شاہ جہاں‘ کو تخت کا مالک بنانا چاہتا تھا۔ اس نے ’بنارسی‘ نامی ایک ہندو گماشتے کو ’دکن‘ روانہ کیا جہاں اس وقت شاہ جہاں ٹھہرا ہوا تھا۔
بنارسی 20 دن کے بعد 28 نومبر 1627ء بروز اتوار دکن پہنچا اور یہ خبر شاہ جہاں کو دی۔ شاہ جہاں یکم دسمبر بروز منگل دکن سے گجرات کے راستے آگرہ روانہ ہوا۔ اتوار 26 دسمبر کو ’احمد آباد‘ میں شاہ جہاں نے ’شیر خان‘ کو گجرات اور مرزا عیسیٰ ترخان ثانی کو ’ٹھٹہ‘ کا صوبہ دار مقرر کیا۔ یوں اتوار 30 جنوری 1628ء کو شاہ جہاں کی تخت نشینی کا آگرہ میں اعلان ہوا۔
’میرابوالبقا امیر خان‘ ان دنوں یمین الدولہ آصف خان کی طرف سے ملتان کا نائب مقرر تھا۔
یکم فروری 1628ء بروز منگل کے ٹھنڈے دنوں میں شاہ جہاں نے آصف خان (جو اس وقت لاہور کا صوبہ دار تھا) کو حکم دیا اور اسی طرح خسرو کے بیٹے ’داور بخش‘ کو قتل کردیا جس کو خود آصف خان نے تخت پر بٹھایا تھا۔ ساتھ میں داور بخش کے بھائی ’گرشاسپ‘، شہریار کے بیٹے ’طہمورث‘ اور دانیال کے بیٹے ’ھوشنگ‘ کو بھی مار دیا گیا۔ یہ جو 4 سے 5 لوگوں کے ٹھنڈے خون اور بے بسی میں بہے خون کا ذکر کیا گیا ہے وہ کوئی غریب مسکین نہیں تھے بلکہ یہ سارے اسی تاتاری خاندان کے چشم و چراغ تھے جن کے جنم پر شاہی خزانے سے اشرفیاں غریبوں میں ایسے بانٹی جاتی تھیں جیسے غریب اپنے بچوں کے جنم پر ریوڑیاں بانٹتا ہے۔
یہ وجود مغلیہ خاندان کی جڑیں تھیں جو اس سلطنت کی مضبوطی اور ہرا بھرا رکھنے کے لیے ضروری تھیں۔ مگر جب تخت و تاج کا سحر بیچ میں آجائے پھر سارے رشتوں کے رنگ اُڑ جاتے ہیں، بس ایک ہی رنگ رہ جاتا۔ سُرخ رنگ، خون کا رنگ جس میں کسی رشتے کی کوئی محبت کی کلی نہیں کھلتی۔ کسی گزری یاد اور ہنسی کی کوئی فاختہ دل کے نیلے امبر پر نہیں اُڑتی۔ بس آنکھوں کے سامنے تخت و تاج کے سحر کا صحرا رہ جاتا ہے۔ دیکھنے والے کو یہ صحرا بھی اچھا لگتا ہوگا مگر اسے وقت کے سوا اور کوئی یہ سمجھا بھی نہیں سکتا کہ اس صحرا میں نخلستان نہیں ہوتا۔ جب ایک مقررہ وقت کے بعد زندگی اس صحرا میں دوڑتی ہے تو شیریں اور ٹھنڈے پانی کا ایک گھونٹ تک نہیں ملتا۔ پھر یہی صحرا اس وجود کو موت دیتا ہے جس کو وہ تخت و تاج کی وجہ سے شاندار اور خوبصورت سمجھتا تھا۔
میدانِ جنگ میں لڑنا اور مرجانا ایک طے شدہ عمل ہوتا ہے مگر بغیر لڑے کسی کو ایسے ہی ماردینے، اس کا سر قلم کردینے کو ہم ٹھنڈے خون کا قتل کہتے ہیں اور یہ اس کائنات کا ایک قبیح ترین فعل ہے۔ وہ وجود جو بے بس کھڑا ہے، جسے یقین ہوتا ہے کہ کچھ پلوں میں وہ مار دیا جائے گا، ذرا اس کے چہرے کی کیفیات، مجبوری اور بے بس آنکھوں کا تصور تو کیجیے۔ اس تصور سے ہی آپ کی روح کانپ جائے گی مگر یہ تخت و تاج کا کھیل اپنوں کے اس بہائے ہوئے خون کی خوشی میں محفلیں سجاتا ہے۔ کافوری شمعیں جلتی ہیں اور جام نوش فرمائے جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید بہادر شاہ ظفر کا خاندان دہلی کی گلیوں میں کبھی دو نوالوں کے لیے پریشان نہ ہوتا۔
دوسرے دن یعنی 2 فروری 1628ء بروز بدھ شاہ جہاں اکبرآباد (آگرہ) میں داخل ہوکر ’باغِ نور جہاں‘ میں منزل انداز ہوا اور اسی طرح 4 مارچ ہفتے کے روز شاہ جہاں کی باقاعدہ تخت نشینی کی رسم ادا کی گئی۔ اپریل 1629ء میں ’احمد خان بیگ‘ (نور جہاں کے بھتیجے) کو سندھ میں سیہون کا حاکم مقرر کیا گیا۔
یہ ان دنوں کا سیاسی منظرنامہ تھا جو میں نے سرسری طور پر اس لیے تحریر کیا ہے کہ ہم اب جس کتاب کا ذکر کرنے والے ہیں اس کی تار و پود اس ماحول سے جُڑی ہوئی ہے۔ ہم اس کتاب کے مصنف ’یوسف میرک‘ جو مست مولا انسان تھا اس کے ساتھ بھی وقت گزاریں گے کیونکہ جانے انجانے میں اس نے ہمارے دامن پر بڑی عنایتیں کی ہیں۔ وہ عام انسان نہیں تھا۔ وہ بہت کم پر راضی رہنے والا شخص تھا۔ اگر عام بہاؤ میں بہنے والا انسان ہوتا تو یہ کتاب یقیناً تحریر کے دائرے میں نہ آتی اور میں آپ سے مخاطب نہ ہوتا۔
یوسف میرک کے والد میر ابوالقاسم ’نمکین‘ بن ملا میر سبزواری کا وطن سبزوار (اسقرار) کی پسگردائی میں واقع ’بجق‘ نامی ایک گاؤں تھا۔ سبزوار، خراسان کی دارالحکومت ’ہرات‘ کا مشہور اور مردم خیز مقام مانا جاتا ہے۔ سبزوار کا ایک نام ’اسفزار‘ بھی تھا۔ خراسان کا یہ شہر اس وقت افغانستان میں، قندھار سے ہرات جانے والے راستے کے کنارے پر واقع ہے۔
پیر حسام الدین راشدی لکھتے ہیں کہ ’مُلا میر نے خراسان تب چھوڑا اور قندھار آئے جب خراسان میں اوزبکوں کا فتنہ ہوا۔ ملا میر کا انتقال قندھار میں ہی ہوا۔ (محمد خان شیبانی نے 1507ء میں سارے خراسان پر قبضہ کیا، قندھار پر ان دنوں ارغون خاندان کی حکومت تھی جو بعد میں 1521ء سندھ پر آکر قابض ہوئے)۔ ملا میر کا فرزند میر ابوالقاسم پہلے کابل کے حکمران، مرزا حکیم بن ہمایوں کے ہاں ملازم تھا۔ بعدازاں وہ ہندوستان آئے۔ جس زمانے میں اکبر بادشاہ لاہور میں مقیم تھا تو اس کے دربار میں پیش ہوا۔ (’اکبرنامہ‘ میں اس کا ذکر 1572ء سے ملتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے بھی کچھ برس پہلے آیا ہوگا) اور اکبر کے امیروں میں شامل رہا۔ میر ابوالقاسم کو اکبر بادشاہ نے ’نمکین‘ کا لقب دیا تھا۔ (میر ابوالقاسم جب نمکسر (پنجاب) میں جاگیردار تھا تب نمک سے ایک تھالی بنوا کر اکبر بادشاہ کی خدمت میں بھجوائی تھی، بادشاہ نے اس تھالی کو ابوالقاسم کی نمک حلالی سے تعبیر کیا اور ’نمکین‘ کا لقب دیا)۔
اپنی سرکاری ملازمت کے دوران وہ زیادہ عرصہ سندھ میں ہی رہا۔ جب تک وہ زندہ رہا تب تک اس کا خاندانی وطن سکھر ہی رہا پھر جب اس کے بڑے بیٹے ’میر ابوالبقا امیر خان‘ ٹھٹہ کا نواب مقرر ہوکر آیا تو خاندان کا بڑا حصہ ننگر ٹھٹہ آگیا۔ امیر خان نے اپنے خاندان کے لیے ایک محلہ بسایا جو اس کے نام ’امیر خانی محلہ‘ کے نام سے مشہور ہوا اور اب تک اسی نام سے مشہور ہے۔
ایک زمانے میں اسی محلے میں ایک بڑی شاندار مسجد ہوا کرتی تھی جسے امیر خانی مسجد پکارا جاتا تھا۔ یقیناً محلہ امیر خانی کی یہ ایک آباد مسجد رہی ہوگی۔ پانچوں وقت اذان بھی آتی ہوگی۔ گرم دنوں کی شاموں اور جاڑوں کی ٹھنڈی صبحوں کے وقت جب لوگ نماز پڑھنے آتے ہوں گے تو کیا شاندار لگتی ہوگی یہ مسجد اور محلہ امیر خانی کی یہ گلی۔ مگر اب یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مسجد کب کی ویران پڑی ہے۔ بدذوقی کی حد یہ ہے کہ ایک بجلی کا ٹرانسفارمر مسجد کی شمال میں نصب کیا ہوا ہے۔ ایک لوہے کا بورڈ جس پر مسجد کا نام تحریر ہے وہ جنوبی کونے پر گاڑ دیا گیا ہے۔ خستہ حالی ہے کہ مسجد کو روز بروز کمزور کر رہی ہے۔
محکمہ آثارِ قدیمہ کے پاس اور بہت سارے فالتو کام ہیں اور جب تک وہ صاحبان ان کاموں سے فارغ ہوں گے تب تک یہ خوبصورت مسجد شاید شہید ہوچکی ہوگی اور آنے والی نسلوں کو وہاں کے لوگ بتائیں گے کہ ہاں یہاں کبھی ایک مسجد تھی تو سہی مگر اب وہاں سُرخ اینٹوں کا ایک ٹیلہ سا موجود ہے۔
یہ اس خاندان کا مختصر تعارف تھا جس میں ہمارے دوست ’یوسف میرک‘ نے اپنی زندگی گزاری۔ اس کا ذکر جب بھی ملتا ہے اس کے والد اور بھائی کے ساتھ ملتا ہے۔ پیر حسام الدین راشدی صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ میرک نے اپنی ابتدائی زندگی اپنے والد کی خدمت کرتے گزاری۔ میر ابوالقاسم نمکین، اپنی ملازمت کے دوران جہاں بھی گیا، یوسف میرک اس کے ساتھ رہا۔ 1605ء میں جب ’باجوڑ‘ میں قلعہ دار تھا تب بھی وہ اپنے والد کے ساتھ موجود تھا۔ میر نمکین، باجوڑ سے پہلے بکھر، گجرات، سیہون، جلال آباد اور دوسرے مقامات پر مقرر ہوا تو میرک بھی اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ ابوالقاسم نمکین کو جب تیسری بار یعنی 1607ء میں سیہون کی جاگیرداری ملی تو اس نے پہلے میرک کو سیہون کا انتظام سنبھالنے کے لیے بھیجا اور بعد میں خود آیا۔
1608ء میں میر نمکین کو ملے شاہی فرمان کی بجا آوری کے لیے مرزا غازی ولد مرزا جانی بیگ ترخان کے ساتھ قندھار جانا پڑا اور انتظام کے لیے اپنے بڑے بیٹے میر ابوالبقا امیر خان کو انتظام سنبھالنے کے لیے مقرر کیا۔ ایک برس بعد یعنی 1609ء میں قندھار سے واپس لوٹتے وقت راستے میں ان کی سانس کی ڈوری نے بے وفائی کی۔ جہانگیر کو جب اس موت کی اطلاع ملی تو اس نے صوبہ سیہون ’میر ابوالبقا‘ اور ’شمشیر ازبک‘ کی عہدیداری میں دینے کا حکم جاری کیا مگر یہ شراکت میر ابوالبقا کو اچھی نہیں لگی اس لیے وہ دربار چلا گیا مگر ’یوسف میرک‘ سیہون میں ہی رہا۔ شمشیر ازبک کا عہدہ میرک کے مشوروں پر ہی چلتا تھا اور اس طرح ایک طویل عرصے تک وہ سیہون میں رہا۔
زمانے بدلے اور 4 مارچ 1628ء ہفتے کے دن شاہ جہاں تخت نشین ہوا۔ میں لاہور، دہلی اور آگرے کا سیاسی منظرنامہ آپ کے سامنے بیان کرچکا ہوں مگر یہ ساری صورتحال ان دنوں میں یقیناً ہمارے دوست یوسف میرک کے سامنے نہیں ہوگی۔ خیر سے جیسے شاہ جہاں تخت پر بیٹھا تو ملکہ نور جہاں کا سیاسی منظرنامے میں جو شروع سے عمل دخل تھا وہ جاری رہا اور رہنا بھی چاہیے تھا کہ گھر کی بات تھی۔ نور جہاں بیگم نے اپنے بھتیجے ’احمد خان بیگ‘ کو سیہون کا حاکم مقرر کروایا اور اپریل 1629ء کو سیہون اس کے حوالے کیا گیا۔
احمد خان بیگ کے سیہون میں آنے کی وجہ سے یہاں کے حالات کی تصویر میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ احمد بیگ نے سیہون کا سارا انتظام اپنے بھائی ’مرزا یوسف‘ کے حوالے کردیا کیونکہ وہ اپنے بھائی کی طبیعت کو جانتا تھا۔
چنانچہ خود سارا دن زنان خانے میں رہتا اور زنان خانے سے باہر اس کے بھائی نے لوگوں کی زندگیوں کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لوگ جتنے ذلیل ہوتے، پریشان ہوتے، خوار ہوتے مرزا یوسف کو یقیناً اتنا اچھا ہی لگتا ہوگا۔
یوسف میرک لکھتے ہیں کہ ’مرزا یوسف کو ملکیت اکٹھا کرنے کا خبط تھا، پیسے والا مرد ہو یا عورت، ان کو ذلیل کرنے میں انہیں کوئی شرم و حیا نہیں ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اچھے اونٹ بھی اس کی کمزوری تھے۔ انہوں نے حکم جاری کردیا تھا کہ جہاں بھی کوئی خوبصورت اور قیمتی اونٹ نظر آجائے اسے پکڑ کر قلعے کے ’شتر خانہ‘ میں داخل کردیا جائے۔
انہوں نے ٹیکس وصولی کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ نکالے تھے۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے کے لیے راہداری لازم کی اور راہداری کے لیے مقرر رقم دینی پڑتی تھی۔ کوئی بھی کشتی چاہے وہ خالی ہی کیوں نہ ہو، جیسے ہی سیہون کی حدود میں داخل ہوتی تو اس کے مالک سے ٹیکس لیا جاتا۔ باہر سے آئے بیوپاریوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ اونے پونے داموں میں لایا ہوا مال سیہون کے بازاروں میں بیچ دیں۔ مرزا یوسف نے یہاں پر بس نہیں کی بلکہ دو قدم آگے بڑھ گئے اور بنگال سے نامور جواریوں کو سیہون لایا گیا اور شہر کے چوراہوں پر جوے کے اڈے قائم کیے گئے تاکہ جتنا ہوسکے لوگوں کی جیبیں خالی ہوں۔ چوری اور جوئے کی یہ ساری آمدنی، شام کو حلال کی کمائی سمجھ کر خزانے میں جمع ہوتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیہون 10 ’پرگنوں‘ (تحصیلوں) پر مشتمل تھا۔
یہ سارے حالات اور لوگوں پر ہوتا ظلم یوسف میرک سے دیکھا نہیں گیا۔ وہ شاید ایک دو بار احمد بیگ خان سے مرزا یوسف کی شکایت بھی کرنے گیا مگر اس شکایت کا شاید کوئی اثر نہیں ہوا۔
یوسف میرک کو ان دونوں بھائیوں کے ظلم سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔ آخر میرک نے فیصلہ کیا کہ وہ خود مرکزی سرکار کے پاس جائے گا اور شاہی ایوان میں پہنچ کر خود یہ دردناک داستان، شاہ جہاں کو دربار میں سنائے گا۔
ممکن ہے کہ یہ سب کرنے سے وہ غریب اور بے سہارا لوگوں کو ان بھائیوں کے ظلم و ستم سے چھٹکارہ دلا سکے۔ مگر پھر سوچا کہ اس دردناک داستان کو زبانی سنانے کے بجائے، طُومار کی شکل میں تحریر کرکے شاہی دربار میں پیش کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’راقم الحروف (یوسف میرک) نے اپنے وطن کو حال سے بے حال دیکھ کر شاہی دربار میں جانے کی تیاری کی کہ وہاں پہنچ کر ملک کے احوال سمیت احمد بیگ کی عملداری سے متعلق تحریر کیا ہوا طُومار بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا جاسکے‘۔
اسی نیت سے میرک سیہون سے نکلے اور سکھر سے ہوتے ہوئے ملتان پہنچے۔ ان دنوں ملتان کا صوبہ آصف خان کی جاگیر میں تھا اور یوسف میرک کا بڑا بھائی میر ابوالبقا وہاں نائب مقرر تھا۔ میرک کا خیال تھا کہ ملتان میں اس شکایتی دکھ بھری طویل تحریر (طُومار) کو ترتیب دے کر وہیں سے دربار کے لیے نکل جائے گا۔ مگر شاید وقت کو کچھ اور منظور تھا۔ 29 اکتوبر 1629ء بروز پیر ابوالبقا کے پاس شاہ جہاں کا فرمان پہنچا کہ وہ ٹھٹہ کی نائبی سنبھالنے کے لیے ملتان سے نکل پڑے۔
میر ابوالبقا امیر خان زمانہ شناس انسان تھا اور مغل بادشاہوں کے مزاج سے بھی اچھی طرح واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے بھائی کا غصہ اور حب الوطنی کا جوش و ولولہ، انصاف اور داد طلبی کا جذبہ اور دربار تک پہنچنے کا خیال نہ تو وقت کے حوالے سے مناسب تھا اور نہ ہی اس کو یہ امید تھی کہ اس طُومار سے منظرنامے میں کوئی تبدیلی آئے گی کیونکہ آصف خان، شاہجہاں، مرزا احمد بیگ اور نور جہاں سب ایک ہی خاندان کا حصہ تھے اور شاہ جہاں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ یوسف میرک کی بات مان کر بہن بھائی کو ناراض کرے۔
یہ خیال دل میں رکھ کر وہ میرک کو ٹھٹہ لے آیا اور کہا کہ ننگر ٹھٹہ میں رہ کر سفر کی تیاری کرنے کے بعد وہیں سے ہی دربار کے لیے روانہ ہوجائے۔ میرک اندازاً نومبر یا دسمبر کے اوائل میں ٹھٹہ پہنچا ہوگا۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے وہ بیمار پڑگیا۔ بیماری کے دوران اس نے اپنے ارادوں میں تبدیلی کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے ارادہ کیا کہ بیماری سے صحتیاب ہونے کے بعد سندھ کی مجموعی صورتحال پر کتاب تحریر کے دائرے میں لائی جائے اور پھر وہ کتاب بادشاہ سلامت کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے‘۔
یہی وہ زمانہ ہے جب سندھ کی تاریخ پر 1600ء سے لے کر 1654ء تک انتہائی اہم کتابیں تحریر ہوئیں، ممکن ہے اور بھی کتابیں تحریر ہوئی ہوں جن کا ہم کو اب تک علم نہیں ہوسکا ہے، یہاں پر ان اہم کتابوں کے نام بمعہ مصنفین پیش کیے جا رہے ہیں:
- ’تاریخ سندھ‘ (تاریخ معصومی) — میر معصوم بکھری (1600ء)
- ’تاریخ طاہری‘ — محمد طاہر نسیانی ٹھٹوی (1621ء)
- ’بیگلر نامہ‘ — ادراکی بیگلاری (1625ء)
- ’تاریخ مظہر شاہ جہانی — یوسف میرک (1634ء)
- ’ترخان نامہ‘ — سید میر محمد ٹھٹوی (1654ء)
سندھ کی تاریخ پر لکھی جانے والی کتابوں کے حوالے سے 17ویں صدی یقیناً ایک شاندار زمانہ تھا۔
اگر سندھ کی تاریخ کے حوالے سے یہ کتابیں ماخذات سے نکال دی جائیں تو تحقیق کرنے والوں کے لیے بڑے مشکل حالات پیش آسکتے ہیں۔
’تاریخ مظہر شاہ جہانی‘ وہی کتاب ہے جو میرک صاحب نے صحتیاب ہونے کے بعد تحریر کی۔ راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ ’اس زمانے کے سندھ کے حقیقی حالات سے متعلق یہ کہنا چاہیے کہ ’مغل شاہی‘ کی حکومت اور ان کے حکومتی رویوں کے بارے یہ کتاب انتہائی اہم ہے‘۔ اس کتاب کے مؤلف، ہمارے دوست اس کتاب کو لکھنے کے اسباب سے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ ’یہ ضعیف بندہ، خدا کی رحمت کا طلبگار، یوسف میرک بن ابوالقاسم نمکین حسینی ہروی کہتا ہے کہ، جب سندھ کے حالات سے واقف ہوا تو اس آیت پر عمل کیا کہ: گواہی کو نہ چھپائیں۔ مؤلف کے دل میں اس خواہش نے جنم لیا کہ ساری حقیقت زمانے کے بادشاہ ابوالمظفر شہاب الدین محمد ’شاہ جہاں‘ کی خدمت میں پیش کی جائے کہ اس کی رعایا پر سے ظلم کا وبال ختم ہو اور ملک میں ہر جگہ عدل و انصاف کی ہوا چلنے لگے۔ یہ کتاب مکمل کرکے اسے 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جس کا میں نے نام ’مظہر شاہ جہانی‘ رکھا ہے۔‘
اس کتاب کا پہلے نام ’مظہر التدبیر‘ رکھا گیا تھا لیکن آگے چل کر ’التدبیر‘ کو مٹا کر اس کی جگہ ’شاہجہانی‘ لکھ دیا گیا۔
یہ کتاب 15 جولائی 1634ء بروز ہفتہ سہہ پہر کو مکمل ہوئی۔ اس کتاب کا نسخہ 814 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ایک اندازے کے مطابق 1630ء میں تحریر ہونا شروع ہوئی ہوگی اور جب 1634ء میں یہ کتاب ٹھٹہ میں مکمل ہوئی تو اس وقت، میرک کا بڑا بھائی میر ابوالبقا ’جونا گڑھ‘ میں حکومت کا نائب تھا۔
4 برس کی عرق ریزی کے بعد اس مست مولا انسان نے یہ کتاب مکمل کی۔ حالات اور واقعات سے نہیں لگتا کہ وہ بادشاہ سلامت تک پہنچ سکی ہوگی کیونکہ ہم سب سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتاب مرزا احمد بیگ کے ظلم کی داستان تھی۔ احمد بیگ، نور جہاں کا بھتیجا، شاہ جہاں کی بیگم ’ارجمند بانو‘ ممتاز محل کا انتہائی نزدیکی رشتہ دار تھا، جبکہ مؤلف کا بڑا بھائی بھی ملازمت کے لحاظ سے اسی خاندان سے جڑا ہوا تھا لہٰذا حالات کو مدِنظر رکھ کر یہ طے کیا گیا ہوگا کہ خیر اسی میں ہے کہ یہ کتاب کسی بھی حالت میں بادشاہ تک نہیں پہنچنی چاہیے اور وہی ہوا۔ نہ کتاب بادشاہ تک پہنچ سکی نہ اس نسخے کی دوسری کاپیاں بنیں اور نہ یوسف میرک مشہور ہوسکا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ نسخہ مؤلف کے پاس ہی رہا اور آگے چل کر انتہائی مایوسی کی کیفیت میں اس نے یہ نسخہ اپنے بھتیجے میر ضیاالدین یوسف کو دے دیا۔ یوں یہ نسخہ اسی خاندان تک محدود اور محفوظ رہا۔
اس بات کا شک شاید مصنف کے دل کے کسی کونے میں کہیں چھپا ہوا تھا کہ یہ کتاب بادشاہ تک مشکل ہی پہنچے۔
اسے جب یہ خبر پہنچتی ہے کہ احمد بیگ کو سیہون کے بجائے اب ملتان کا صوبہ دار بنا دیا گیا ہے تو اسے بہت تکلیف ہوتی ہے جبکہ اسے یقین تھا کہ یہ کتاب بادشاہ کے دربار تک ضرور پہنچے گی، یہ جانتے ہوئے کہ احمد بیگ بادشاہ کو کتنا نزدیک ہے۔ مگر وہ لکھتا ہے کہ ’احمد بیگ کو اس کے اعمال کی سزا دینی چاہیے تھی۔ بجائے اس کے اس کو ملتان ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جو سیہون سے زیادہ ذرخیز ہے۔ یہاں کے مظلوم عوام داد رَسی کے لیے بادشاہ کے دربار میں کیسے پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ ملتان اس کے راستے میں ہے، جہاں احمد بیگ کا حکم چلتا ہے‘۔
یہ کتاب محض اس لیے اہم نہیں ہے کہ اس میں فقط مغلوں کے ظلم کی داستانیں ہیں۔ مگر اس زمانے سے متعلق ہر حوالے سے بھرپور مواد بھی ہے۔ راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ 'یوسف میرک کی یہ کتاب سندھ کی تاریخ کے حوالے سے ایک غنیمت ہے۔ اس کتاب میں انتظامی و سیاسی واقعات کے علاوہ جغرافیائی اور اقتصادی حالات سے متعلق بھی بہت زیادہ معلومات ملتی ہیں۔ فصلیں کس قسم کی ہوتی تھیں، لگان کس طرح سے اور کتنی لی جاتی تھی، ناپ تول کا نظام کیسا تھا، مقامی قبیلے کون کون سے تھے اور ان کی نفسیات اور مصروفیات کس طرح کی تھیں۔ کشتیاں کس طرح سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتیں اور کس قسم کا سامان کس ریٹ پر اٹھاتیں۔ کچھ کتابوں میں بکھر اور ٹھٹہ کے حالات، ان کے علاقوں، مغل دور کے گورنروں یا صوبہ داروں کی لسٹ تو موجود ہے مگر سیہون کے جاگیرداروں کے نام فقط اسی کتاب میں موجود ہیں۔ یہی وہ کتاب ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ارغون اور ترخانوں کے عہد میں سندھ کے اندر 6 راجداھنیاں (دارالخلافہ) تھیں، جن کے نام بکھر، سیہون، نصرپور، چاچکان، ننگر ٹھٹہ اور چاکر ہالا ہیں اور ہر دارالخلافہ کے کئی پرگنے (تحصیلات) تھے‘۔
کبھی کبھی نہ جانے کیوں وقت انسان سے ایسی چال چل جاتا ہے کہ وقت کو غدار کہنے کو جی چاہتا ہے۔ وقت نے ہمارے دوست سے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ امیر خانی خاندان کے 2 بڑے قبرستان ہیں جن میں سے ایک سکھر اور دوسرا ننگر ٹھٹہ میں ہے۔ مگر ’یوسف میرک‘ کی قبر آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ اس کے سانس کی ڈوری کب اور کہاں ٹوٹی یہ بھی یقین سے آپ کو کوئی نہیں بتائے گا۔ جب میرک سے متعلق آپ کوئی کتاب مطالعہ کریں گے تو کتاب آپ کے سامنے شک کی ایک دیوار کھڑی کردے گی اور کہے گی کہ ہوسکتا ہے اس کی آخری سانسیں ٹھٹہ کے امیر خانی محلے میں نکلی ہوں یا ہوسکتا ہے سیہون میں، اس لیے اس مصنف کی قبر ڈھونڈنے کے لیے آپ کا ذہن بٹ جاتا ہے مگر قبر نہ آپ کو سیہون میں ملتی ہے اور نہ ننگر ٹھٹہ میں۔ مکلی میں نہ جانے کتنی قبریں ہیں۔ ہزاروں کتبے ہیں جن پر ان کے نام کنندہ ہیں اور وہ نام پڑھ کر آپ کے اندر اس فرد کے لیے احساس اور محسوسات کی بیل ذہن و دل میں اُگ پڑتی ہے۔ مگر یہ وقت کی کیسی ناانصافی ہے کہ ایک ایسے فرد کی قبر کا کتبہ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا جس نے اپنا وقت تاریخ بُننے میں گزار دیا، جس کی ساری زندگی کی کوئی تمنا پوری نہیں ہوئی۔
مجھے نہیں پتا کہ اس کی شادی ہوئی تھی یا نہیں۔ اس کے خاندان کا سلسلہ بھی نہیں ملتا۔ وہ طُومار جس نے بعد میں کتاب کی شکل لی اور تحریر میں برسوں لگے اور جس بادشاہ کے لیے یہ کتاب تحریر کی گئی وہ اس کے دربار تک پہنچ نہ سکی۔
میں یقیناً دکھی ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ ایک کتاب کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ جس کے لیے آپ اپنی زندگی لگادیں وہ اگر اس جگہ پر نہیں پہنچے جہاں پہنچانے کے لیے آپ اس کو لکھ کر رہے تھے تو اندر سے بہت کچھ ٹوٹ جاتا ہے۔ میں دکھی اس لیے بھی ہوں کہ یوسف میرک کی مجھے وہ جگہ نہیں مل رہی جہاں زندگی اس سے روٹھ گئی تھی۔
دعا کرتا ہوں کہ جس طرح حسام الدین راشدی صاحب کو اچانک اس کتاب کا نسخہ مل گیا تھا، اسی طرح اچانک مجھے یہ اطلاع ملے کہ یوسف میرک کی آخری آرام گاہ کا پتا چل گیا ہے تاکہ میں کم سے کم اس کی قبر کے پہلو میں کچھ دیر آنکھیں موندے بیٹھوں، گلاب کی چند ایک پتیاں اس کی قبر پر بکھیروں اور وہیں بیٹھے عالمِ ارواح میں سے یوسف میرک کے کتاب کے درد میں اس کا شریکِ غم بن سکوں!
حوالہ جات:
۔’تاریخ مظہر شاہجہانی‘۔ یوسف میرک۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
۔ ’تذکرہ امیر خانی‘ ۔ سید حسام الدین راشدی ۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
۔ ’مغلیہ سلطنت کا عروج و زوال‘ ۔ آر پی ترپاٹھی۔ کتاب میلہ، لاہور
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
تبصرے (6) بند ہیں