چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے 3 ججز کا عدالت عظمیٰ میں تقرر چیلنج کردیا
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے لاہور ہائی کورٹ کے 3 ججز کا عدالت عظمیٰ میں تقرر چیلنج کردیا۔
چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پٹیشن میں استدلال پیش کیا کہ ان ججز کا تقرر سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کی تقریر کے 'الفاظ' پر خواتین وکلا کا احتجاج
لاہور ہائی کورٹ کے سابق ججز جسٹس قاضی محمد امین، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی کے تقرر کو چیلنج کرنے کی درخواست چیف جسٹس وقار سیٹھ کی جانب سے سینئر وکیل حامد خان نے دائر کی۔
عدالت عظمیٰ کے تینوں ججز کے علاوہ درخواست میں فیڈریشن، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور ججز کے تقرر کی پارلیمانی کمیٹی کو بطور فریق نامزد کیا گیا ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کا 2 اگست 2011 کو پشاور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج کی حیثیت سے تقرر کیا گیا اور بعد ازاں 28 جون 2018 کو انہوں نے اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا۔
درخواست میں آئین کی متعلقہ دفعات اور قائم شدہ آئینی کنونشن کے علاوہ 1996 میں الجہاد ٹرسٹ اور 1998 میں ملک اسد علی کے مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’ججز کی تقاریر براہ راست نشر کرنا ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے‘
پٹیشن میں کہا گیا کہ ’درخواست گزار کی سینیارٹی اور قابلیت کی بنیاد پر انہیں سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرر کیا جائے‘۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ’چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کو سنے بغیر 3 مرتبہ نظرانداز کیا گیا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ سے ججوں کی تقرری سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی محمد امین، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی کو عدالت عظمیٰ کا جج مقرر کردیا گیا اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کے سینیارٹی کو نظر انداز کردیا گیا۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ اس ’ناانصافی‘ کے خلاف 18 مارچ 2020 کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو درخواست پیش کی گئی لیکن اس شکایت پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے طلال چوہدری کی تقریر پر توہین عدالت کا نوٹس بھجوادیا
انہوں نے کہا کہ ’سندھ بار کونسل نے مئی میں چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط کے ذریعے حالیہ تقرر پر قانونی برادری کے تحفظات بھی بتائے تھے کہ ’کسی بھی مناسب وجہ یا جواز کے سبب درخواست گزار کو 3 مرتبہ نظر انداز کیا گیا‘۔
درخواست میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے کو متعارف کرانے کے بعد عدالت عظمیٰ میں ججوں کی زیادہ تر تقرر کے لیے (سوائے ان تین ہائی کورٹ کے ججوں کے) اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس کو منتخب کیا گیا ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ ’عدلیہ کی آزادی ججوں کی تقرری کے ساتھ منسلک ہے‘۔
چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنی پٹیشن میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وہ تینوں ججوں کے تقرر کے نوٹی فکیشن کو مسترد کرے اور ’ خالی اسامیوں پر تقرر اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس کی سنیارٹی کی بنیاد پر کیا جائے‘۔
پٹیشن کی سماعت کے لیے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا گیا۔