جیل پر حملہ
یہ صدمہ اور خوف دونوں کے ساتھ تھا: ڈیرہ اسماعیل خان کے شہری پیرکی شب گیارہ بجے یکے بعد دیگرے، زوردار دھماکوں کی گونج اور پھر اس کے بعد شدید فائرنگ کی آوازوں سے ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھ تھے۔ سینٹرل جیل کے اطراف میں رہائشی علاقہ، جس کے قریب ایک ہسپتال اور اسکول بھی واقع ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان کے حملہ آوروں نے پہلے ٹرنسفارمر کو اڑایا، جس سے علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا، پھر انہوں نے سنٹرل جیل پر دھاوا بول کر دستی بم مارے اور مشین گنوں سے فائرنگ شروع کردی۔ اسی دوران وہ جیل کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اور جنہیں ساتھ لے جانا چاہتے تھے، لاؤڈ اسپیکروں پر ان کے نام پکارنا شروع کردیے۔
کتنے قیدی فرار ہوئے، تعداد اب تک متنازع ہے: وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خواہ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ مفرور قیدیوں کی تعداد ایک سو پچھہتر ہے، جس میں پینتیس خطرناک دہشت گرد اور عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان کا دعویٰ ہے جنہیں وہ چھڑانے میں کامیاب ہوئے، ان کی تعداد تین سو ہے، جب کہ دیگر خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق یہ تعداد دو سو تیس سے زائد ہے۔
دریں اثنا، اس افراتفری کے عالم میں بھی حملہ آوروں کی سفاکی اور ان کے منظم مظالم کی تصویر واضح ہے۔ قیدیوں کو چھڑانے کی کوشش میں بعض شیعہ قیدیوں کی نشاندہی کی گئی جنہیں حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔
اگر اس طرح کے حملے کی جرات ناقابل یقین ہے تو پھر یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ گذشتہ برس اسی طرح بنوں جیل پر بھی حملہ کر کے قیدیوں کو فرار کرایا گیا تھا لیکن اس کے باوجود انتظامیہ ایک بار پھر بڑی آسانی سے ان کا شکار بن گئی حالانکہ اس مرتبہ تو صوبائی سیکیورٹی حکام اور انتظامیہ کے پاس انٹیلی جنس رپورٹس بھی تھیں کہ جیل پر حملےکا خطرہ ہے۔
ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسند گروہ تیزی سے منظم ہوتے جارہے ہیں، حتیٰ کہ ناکارہ سیکیورٹی نیٹ ورکس کے مقابلے میں اُن کے حوصلے بُلند ہیں اور وہ زیادہ بہتر انداز میں مسلح ہو کر اپنی حکمتِ عملی پر چل رہے ہیں۔
مرکز کی طرح، پی ٹی آئی کی زیرِ قیادت صوبائی حکومت بھی عسکریت پسندی سے موثر طور پر نمٹنے کی خاطر، کسی بھی طرح کی پالیسی مرتب کرنے میں ناکام ہوچکی۔
دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی اس جنگ میں خیبر پختون خواہ کی حکومت کو جس حد تک جانا چاہیے تھا، وہ وہاں تک نہیں پہنچی ہے۔
شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے لینے کی اس پالیسی سے صرف عسکریت پسندوں کے حوصلے ہی بُلند ہوں گے اور رہے وہ جو اس کی مزاحمت کررہے ہیں، ان کے حوصلے مزید پست ہوتے چلے جائیں گے۔
ہوسکتا ہے کہ اپنے آدمیوں کی رہائی کے واسطے حکومت سے مذاکرات کی مخالفت کے بعد، عسکریت پسندوں نے اب اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرلی ہو۔
اب صرف خیبر پختون خواہ ہی میں نہیں بلکہ پورے ملک کی جیلوں اور حراستی مراکز کی سیکیورٹی سخت ترین کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ اس طرح کے حملوں سے وہ، ریاستِ پاکستان کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں تسلیم کرلیا جائے۔