• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

امریکا میں ہونے والے فسادات اور کراچی کی یاد

شائع June 3, 2020

میں نے سوچا تھا کہ نامعلوم افراد صرف کراچی میں ہی ہوں گے جن کے بارے میں معلوم تو سب کو ہوتا ہے لیکن بتاتا کوئی نہیں۔ امریکا میں گزشتہ سال اس نیت سے آیا تھا کہ بس اب یہیں رہنا ہے، لیکن جب سے آیا ہوں حالات کچھ بھلے معلوم نہیں ہوتے، لگتا ہے امریکا کو میری ہجرت پر کچھ اعتراض ہے۔

کورونا کے دنوں میں جو صورتحال دیکھی اور رپورٹ کی اس سے کچھ سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ سیاہ فام امریکی شہری کے قتل کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ شکاگو میں نکلنے والی ریلی یہاں موجود ہسپانوی کمیونٹی کی جانب سے تھی اور طے یہ ہوا تھا کہ سب اپنی گاڑیوں میں ہی رہیں گے، ہارن بجاکر احتجاج کریں گے اور بس گھر چلتے بنیں گے۔

یہ بات ہے ہفتے کی، جب سب کچھ معمول پر تھا کہ اچانک شکاگو کے مرکزی شہر میں پہنچنے والی ریلی کے لوگ آہستہ آہستہ قابو سے باہر ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرین میں سے ایک گروہ بڑھا اور شہر کی برانڈڈ اور مہنگی دکانوں میں گھسنا شروع ہوگیا۔ یاد رہے کہ یہ دکانیں کورونا کی وجہ سے مارچ کے آخری ہفتے سے بند پڑی ہیں اور ان کے مالکان کو شاید بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی دکانوں پر اچانک ایسے گاہکوں کی آمد ہوگی جو صرف لوٹ مار ہی نہیں کریں گے بلکہ دکان کی دیواروں پر پولیس اہلکاروں سے متعلق نازیبا الفاظ کا بھی بے دریغ استعمال کریں گے۔

شکاگو کے مرکزی شہر میں پہنچنے والی ریلی کے لوگ آہستہ آہستہ قابو سے باہر ہونے لگے
شکاگو کے مرکزی شہر میں پہنچنے والی ریلی کے لوگ آہستہ آہستہ قابو سے باہر ہونے لگے

مظاہرین کا ابتدائی پلان یہ تھا کہ ہارن بجاکر احتجاج کریں گے اور بس گھر چلتے بنیں گے
مظاہرین کا ابتدائی پلان یہ تھا کہ ہارن بجاکر احتجاج کریں گے اور بس گھر چلتے بنیں گے

جیسے ہی یہ کارروائیاں اپنے انجام کو پہنچی تو مظاہرین کے منتظمین نے لوٹ مار کرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ مجھے لاتعلقی سے پھر کراچی اور اس کی سیاست یاد آگئی لیکن ابھی ہم امریکا میں ہونے والے واقعات کی ہی بات کرتے ہیں۔

منتظمین کا کہنا تھا کہ لوٹ مار کرنے والے ہم میں سے نہیں بلکہ یہ انجان لوگ ہیں جو دوسرے شہروں سے آئے ہیں۔ امریکا میں مظاہرے آٹھویں روز میں داخل ہوچکے ہیں اور تقریباً 5 روز سے ہر بڑے شہر میں لوٹ مار ہورہی ہے۔ اس لوٹ مار کی خاص بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی تفریق نہیں ہورہی کیونکہ اس میں صرف سیاہ فام نہیں بلکہ کالے گورے پیلے نیلے سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔

ابھی تک یہ مظاہرین پٹاخوں کے ذریعے ہی جلاؤ گھیراو کررہے ہیں اور بظاہر انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ پولیس گھبرائی ہوئی ہے اور ریاستوں کے گورنر کوئی بھی قدم اٹھانے سے ڈر رہے ہیں۔

یہاں ایک اور بات ذہن میں رہے کہ گزشتہ ماہ امریکیوں کی بڑی تعداد نے اسلحہ خریدا ہے، اتنا اسلحہ کہ دکاندار خود پریشان تھے۔ زیادہ تر سفید فام امریکیوں نے یہ کہہ کر اسلحہ خریدا تھا کہ اگر کورونا کی وجہ سے بیروزگاری بڑھی اور لوٹ مار ہوئی تو ہمیں اپنا دفاع کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

مقامی طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلحہ خریدنے والے اور اس کے حامی امریکی زیادہ تر صدر ٹرمپ کے حامی ہیں، یہی وجہ ہے کہ صورتحال آنے والے دنوں میں زیادہ خراب ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ اگر گھروں میں موجود افراد نے اپنے اسلحے کا استعمال شروع کردیا تو پھر اللہ ہی حافظ۔

منتظمین کا کہنا تھا کہ لوٹ مار کرنے والے ہم میں سے نہیں
منتظمین کا کہنا تھا کہ لوٹ مار کرنے والے ہم میں سے نہیں

بتایا جارہا ہے کہ لوٹ مار میں ہر رنگ کے افراد بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں
بتایا جارہا ہے کہ لوٹ مار میں ہر رنگ کے افراد بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں

صورتحال اس معاملے میں ابھی بھی کچھ بہتر نہیں، صرف شکاگو میں گزشتہ 5 دنوں کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں 27 افراد ہلاک اور 92 زخمی ہوئے ہیں، اور زیادہ تر فائرنگ کے واقعات مظاہروں کے قریبی مقامات پر ہی ہوئے ہیں۔

یہی وہ حالات تھے جس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا میں کرفیو لگانے پر مجبور کردیا۔ اس وقت امریکا کے 40 شہروں میں کرفیو کا نفاذ ہے، اور پہلی مرتبہ کوریج کے دوران دل میں خوف تھا کہ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔

یہاں موجود پاکستانی جو کئی دہائیوں سے امریکا میں رہ رہے ہیں بتاتے ہیں کہ آخری بار 1992ء میں نسلی فسادات دیکھے گئے تھے جس میں کھلے عام سڑکوں پر قتل و غارت بھی ہوئی، اس کے بعد اب ایسا دیکھا ہے، ورنہ امریکا میں شہریوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ویسے جب 1992ء کا ذکر چھڑا مجھے ایک بار پھر کراچی کی بہت یاد آئی۔

خیر، امریکا میں نافذ ہونے والے کرفیو کی بات کرتے ہیں جہاں کرفیو کے دوران جن اہم ضروریاتِ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت ہوتی ہے، ان میں ٹیکسی، بنیادی سامان کی دکانوں پر کام کرنے والے، میڈیکل فیلڈ، سیکیورٹی، میڈیا اور دیگر افراد شامل ہیں۔ امریکا میں مکینک اور جانوروں کی خوراک فراہم کرنے والی دکانیں بھی بنیادی ضروریات میں آتی ہیں۔

یہی وہ حالات تھے جس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا میں کرفیو لگانے پر مجبور کردیا
یہی وہ حالات تھے جس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا میں کرفیو لگانے پر مجبور کردیا

پاکستان سے امریکا آئے لوگوں سے بات کی تو وہ کرفیو اور حالات خراب کا سُن کا کراچی میں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہیں اور ہنستے ہیں کہ امریکا ہم سے بہت پیچھے ہے۔

ایک اور بات جس نے امریکی حکام اور عوام کو پریشان کیے رکھا ہے وہ ہے کورونا، کیونکہ سماجی فاصلے سے متعلق تمام ایس او پیز اور قوانین کی تو دھجیاں اُڑا کر رکھ دی گئی ہیں۔ ہر شہر میں مظاہرین ایسے چپکے تھے کہ کورونا کی افزائشِ نسل کا بھرپور اہتمام ہوا، یہاں عام عوام تقریباً 3 ماہ کے مستقل لاک ڈاون کے بعد ابھی کچھ ہی دن پہلے گھروں سے نکلے تھے کہ یہ ہنگامے شروع ہوگئے۔

آپ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ یوں بھی لگاسکتے ہیں کہ محض احتجاج کے ابتدائی 3 دنوں میں کورونا کے نئے 21 ہزار کیسز سامنے آئے ہیں، اب جب حالات بہتر ہوکر تیزی سے ٹیسٹ ہوں گے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حالات کس قدر خراب ہوچکے ہوں گے۔

امریکا میں ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر ہم نے یہاں موجود لوگوں سے بات بھی کی۔ سفید فام امریکیوں سے انٹرویو لیا تو انہوں نے بتایا کہ امریکی صدر کے بیان صورتحال بگاڑ رہے ہیں۔ انہیں افسوس ہے کہ پوری دنیا میں امریکا کا ایک منفی تاثر ابھر رہا ہے۔

دوسری جانب اگر پاکستانیوں کی بات کریں تو وہ ٹرمپ پر تو تنقید کرتے ہیں مگر ساتھ سیاہ فام امریکیوں کو بھی کلین چٹ نہیں دے رہے۔

کرفیو کے نفاذ سے پہلے تو تمام تر خراب حالات کے باوجود بھی امریکا کے کئی علاقے جن کی تعداد زیادہ تھی وہاں کاروبار اور صورتحال اپنے معمول پر تھی اور جس طرح کورونا میں ایک لاکھ جانیں گنوانے کے بعد بھی امریکا کا پہیہ مکمل طور پر نہیں رکا تھا، تو ابھی معاملات چل رہے تھے، لیکن کرفیو کے بعد کی صورتحال کیا ہوگی، یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہوگا۔

لیکن جاتے جاتے ایک سینئر پولیس افسر کے مؤقف کو بھی ضرور جان لیجیے جو بڑے اطمینان سے بتاتے ہیں کہ سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے الزام میں گرفتار پولیس اہلکاروں کو سزا نہیں ہوگی، کیونکہ پولیس یونین ایسا نہیں ہونے دے گی۔ لہٰذا یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ امریکا کے نامعلوم افراد کے پیچھے کون نکلتا ہے اور احتجاج اور مظاہرے کب ختم ہوتے ہیں۔


تصاویر: لکھاری

یاسر فیروز

صحافتی کیرئر کا آغاز سات سال پہلے ڈان نیوز ٹی وی کے انٹرنیشنل ڈیسک سے کیا۔ پھر سما کے ساتھ پانچ سال بطور اسائنمنٹ ایڈیٹر کام کیا، اسپیشل پروجیکٹس ہیڈ کئے اور اب سما ٹی وی کے لیے امریکا میں بطور نمائدہ کام کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Farid Jun 04, 2020 01:00am
حالات سے لگتا ہے امریکہ میں آنے والے دنوں میں مزید فساد ہوں گے اگر سزا نہیں ہوئی پولیس والوں کو تو یہ مسلہ مسائل میں تبدیل ہو جائے گا یاسر صاحب بہترین اور مکمل حالات سے جو آپ نے آگاہ کیا واقعی کراچی تو پھر آپ کو زیادہ یاد آتا ہوگا گریٹ ورک
Yasir feroz Jun 04, 2020 01:45am
بہت شکریہ فرید صاحب بلکل ایسا ہی ہے

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024