چینی بحران: کمیشن نے وزیر اعظم عمران خان کو ’مجرم‘ قرار دیا ہے، مریم اورنگزیب
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے چینی تحقیقاتی کمیشن نے وزیراعظم عمران خان کو ’مجرم‘ قرار دیا ہے جنہوں نے کنٹینرز پر بیٹھ کر سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو گرانے کی ’سازش‘ کی تھی۔
راولپنڈی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کارکردگی کی سیاست نہ ہوتو الزامات کی سیاست ہوتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سبسڈی تب دی جب چینی کی قلت نہیں تھی۔
مزید پڑھیں:اپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دے دیا
اس سے قبل اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ 'شاہد خاقان عباسی ٹارزن بن کر کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے لیکن انہوں نے 20 ارب روپے کی سبسڈی دی تھی'۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے 5 برس تک چینی مہنگی نہیں ہونے دی۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ خسرو بختیار کے ذریعے چینی کا ’ڈاکا‘ ڈالا گیا انہیں فوڈ سیکیورٹی کی وزارت فراہم کردی گئی، یہ موجودہ حکومت کی ایک وزیر کے لیے سزا کا معیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کو پاکستان پر مسلط کردیا گیا، خود احتسابی کا نعرہ لگانے والا ’وزیراعظم آج لاپتا ہے‘۔
ترجمان مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ’ہیلی کاپٹر کیس میں وزیراعظم لاپتا، مالم جبہ کیس میں وزیراعظم لاپتا‘۔
مزید پڑھیں:اپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دے دیا
ان کا کہنا تھا کہ ’اب معلوم ہوا ہے کہ وہ نتھیا گلی میں اس لیے براہ مہربانی ادھر سے نکل کر حکومت کے امور سنبھالیں جہاں کورونا وائرس سے لوگ مر رہے ہیں اور یومیہ اجرت کے مزدوروں پریشانی میں مبتلا ہیں'۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ حکومت کی ترجیح کورونا وائرس نہیں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو یاد کرنا ہے کیونکہ انہیں الزامات کی سیاست کرنی ہے۔
اب عثمان بزدار کا وزیر اعلیٰ پنجاب ہونا نہیں بنتا، عظمیٰ بخاری
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو پیش کیے بغیر کسی رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں ہے، جس نے تمام امور کی منظوری دی، وہ ہی کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا تو کمیشن رپورٹ کی حیثیت نہیں رہتی۔
لاہور میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عمثان بزدار خود پیش ہو کر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات میں گناہ گار ثابت ہوئے ہیں اور اب ان کا وزیراعلیٰ پنجاب ہونا نہیں بنتا۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ عمثان بزدار جاتے جاتے یہ بتادیں کہ وہ کس کا سیاسی اثر ورسوخ تھا جس کا وہ شکار ہوئے۔
مزید پڑھیں:چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ
مسلم لیگ (ن) کی رہنما نے کہا کہ واٹس ایپ والا وزیراعلیٰ نہیں چاہیے جس کا وزیراعظم بھی پوری حکومت واٹس ایپ پر چلانے کا عادی ہو۔
خیال رہے کہ آج کی جانے والی کی پریس کانفرنس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے پنجاب حکومت کی سبسڈی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'کمیشن میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ سندھ کو بلایا گیا لیکن مراد علی شاہ پیش نہیں ہوئے جبکہ عثمان بزدار پیش ہوئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کے سوالات کے جواب دیے لیکن کمیشن نے ان کی پیداواری لاگت پر جائزے کی بات کو نہیں مانا کیونکہ انہوں نے پچھلے سال کی لاگت بتائی تھی'۔
تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ان کی بریف کیسوں سے بنائی گئی پنجاب حکومت بھی گناہ گار ثابت ہوتی ہے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ’موجودہ حکومت غیرقانونی ہے اس لیے ہم ایسے تسلیم نہیں کرتے‘۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ’وزیراعظم عمران خان نے حکومت پنجاب کو سبسڈی دینے کی اجازت دی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے قرنطینہ میں رہنے پر ابھی انہیں اعتراض ہے جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ سماجی فاصلہ رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کے گھر میں رہنے پر بھی حکومت کو مسئلہ ہے۔
چینی بحران رپورٹ
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔
بعد ازاں 5 اپریل کو وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ 25 اپریل کو اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
تاہم فرانزیک رپورٹ میں تاخیر ہوتی رہی اور بالآخر اسے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جہاں اسے عوام کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔
فرانزک رپورٹ کے بارے میں معاون خصوصی برائے احتساب نے بتایا کہ چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب چینی انکوائری کمیشن میں پیش، حکومت پنجاب کے کردار پر بیان ریکارڈ
معاون خصوصی نے کہا کہ رپورٹ میں صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے، ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کرکے اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے
انہوں نے کہا کہ شوگر کمیشن نے فرانزک آڈٹ کے بعد پچھلے سالوں کا جو تخمینہ لگایا ہے تو اس کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا اور 2019 میں کمیشن بننے کے بعد گنے کی خریداری مہنگی ہوئی تو اس کی زیادہ قیمت کے اثرات کا اطلاق چینی کی قیمت میں اضافے پر نہیں ہوتا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے، گنے کی خریداری کے لیے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے۔
معاون خصوصی نے مزید کہا کہ بیچ میں کمیشن ایجنٹس کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے گنا اور زیادہ کم دام میں خریدا جاتا اور نقصان کسان کو ہوتا ہے جو بہت مشکل سے کاشتکاری کا نظام چل رہا ہے، ایک نظام کے تحت اس سے کم قیمت پر گنا خریدا جاتا ہے اور چینی کی پیداواری لاگت میں قیمت زیادہ ظاہر کی جاتی ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ عوام کو کس طرح لُوٹا گیا اور وہ پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے، انکوائری کمیشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا آج سے پہلے آزاد آڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔
شہزاد اکبر نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں شامل 3 سالوں کے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ہے، شوگر ملز نے 18-2017 کی جو پیداواری لاگت دی وہ 51 روپے فی کلو جبکہ فرانزک آڈٹ نے اس کی قیمت 38 روپے متعین کی ہے جو تقریباً 13 روپے کا فرق ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گنا کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی جاتی ہے اور اس اضافی قیمت کو پیداواری لاگت میں شامل کیا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مصنوعات بگاس (گنے کی پھوک) اور مولیسس دونوں کی قیمت کو کم ظاہر کیا جاتا ہے جب شوگر کمیشن نے صحیح طریقے سے تعین کیا تو پیداواری لاگت میں فرق آگیا۔