• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے پر اردن کی اسرائیل کو سنگین تنازع کی تنبیہ

شائع May 16, 2020
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے ایک انٹرویو میں اسرائیل کے منصوبوں کے خلاف انتباہ جاری کیا—فائل فوٹو: رائٹرز
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے ایک انٹرویو میں اسرائیل کے منصوبوں کے خلاف انتباہ جاری کیا—فائل فوٹو: رائٹرز

اردن کے بادشاہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کو الحاق کرنے کا منصوبہ جاری رہا تو بڑے پیمانے پر تنازع جنم لے سکتا ہے۔

دوسری جانب یورپی یونین کے وزرائے خارجہ، اسرائیلی قبضے کو روکنے کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔

مزیدپڑھیں: سی این این نے فلسطین کی حمایت پر تبصرہ نگار کو برطرف کردیا

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے یہودی بستیوں اور وادی اردن کو الحاق کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ایک طویل عرصے سے تعطل کا شکار امن عمل کے خاتمے کا عملی جواز بنا سکتا ہے۔

اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے ایک انٹرویو میں اسرائیل کے منصوبوں کے خلاف انتباہ جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ قائدین جو ’ایک ریاست‘ کے حل کی حمایت کرتے ہیں ان کو سمجھ نہیں آتی ہے کہ اس کا کیا مطلب ہوگا۔

شاہ عداللہ نے کہا کہ فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے خاتمے سے کیا ہوگا؟ اس خطے میں مزید انتشار اور انتہا پسندی ہوگی، اگر اسرائیل واقعی جولائی میں مغربی کنارے پر قبضہ کر لیتا ہے تو یہ اردن کے ساتھ بڑے پیمانے پر تنازعات کا باعث بنے گا۔

یہ بھی پڑھیں: لاقتدار ملاتو فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے، سربراہ لیبر پارٹی

واضح رہے کہ اردن، مغربی ممالک کا اتحادی ملک ہے اور ان دو عرب ریاستوں میں سے ایک جس نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں دھمکیاں نہیں دینا چاہتا اور لاگرہیڈس کا ماحول پیدا نہیں کرنا چاہتا لیکن ہم تمام آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔

شاہ عبداللہ نےکہا کہ ہم یورپ کے بہت سے ممالک اور عالمی برادری سے متفق ہیں کہ مشرق وسطی میں طاقت کا قانون لاگو نہیں ہونا چاہئے۔

دوسری جانب مشرق وسطیٰ کے انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو خالد ایلجینڈی نے کہا کہ اسرائیل کے الحاق کے منصوبوں سے اردن کی بادشاہت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بادشاہ خود باہر آجائے اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاہدے کو لازمی قرار دے تو یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے دفاتر کو بند کرنے کا اعلان

واضح رہے کہ اردن یورپی یونین سے مسلسل لابنگ کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کے الحاق کے منصوبے کو روکا جا سکے۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن السفادی نے عالمی برادری اور خاص طور پر یورپی یونین کی طرف سے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

ایک ویڈیو کانفرنس میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ’دو ریاستوں کے حل‘ اور کسی بھی وابستگی کی مخالفت کی حمایت کی تصدیق کی تھی۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بورریل نے اجلاس کی صدارت کرنے کے بعد کہا تھا کہ ہمیں الحاق کے لیے کسی بھی ممکنہ اقدام کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا

انہوں نے کہا تھا کہ ’یہاں اور ہر جگہ بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنا ہوگا‘۔

یورپی یونین پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کرچکا ہے۔

امریکی منصوبہ

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان میں کہا تھا جس کے تحت یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

فلسطینیوں نے ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کردیا تھا جو پورے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت نہیں دکھائے کیونکہ اس علاقے میں مسلمانوں، یہودیوں اور عسائیوں کے مقدس مقامات موجود ہیں۔

تاہم امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا۔

مزید پڑھیں: فلسطینی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟

امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا تھا اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگائی گئی۔

امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق امن منصوبہ تنازع کے کلیدی مسائل پر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے جس کی وجہ سے ماضی میں سرحدوں سمیت امن کی کوششیں متاثر ہوئیں اور اس میں فلسطینیوں کو ریاست دینے کے لیے تقریباً ناممکن حالات موجود ہیں۔

امن منصوبے پر اقوام متحدہ اور یورپ کی جانب سے غیر جانبدارانہ ردعمل دیا گیا جبکہ اہم اسلامی ممالک نے اسے مسترد کرتے ہوئے فلسطین سے غداری قرار دیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024