صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک گلوکار کرشن لال بھیل انتقال کرگئے
چولستان سے تعلق رکھنے والے سرائیکی زبان کے عظیم لوک گلوکار کرشن لال بھیل 60 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
کرشن لال بھیل کا انتقال رحیم یار خان میں ہوا، وہ گردے کی بیماری میں مبتلا تھے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق گلوکار کو 5 روز قبل ہسپتال داخل کروایا گیا تھا کیوں کہ وہ گردے کی سنگین پیچیدگیوں میں مبتلا تھے۔
وہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے میلے لوک ورثہ میں کئی بار پرفارم کرچکے ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے رفیع پیر مسٹک میوزک صوفی فیسٹیول، پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس اور الحمرہ آرٹس کونسل میں بھی پرفارم کیا، وہ دنیا بھر میں کئی ممالک میں پرفارم کرچکے ہیں۔
ان کی کارکردگی پر انہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
مزید پڑھیں: ڈیجیٹل قانون کی خلاف ورزی: بنگلہ دیش میں صوفی لوک گلوکار گرفتار
کرشن لال بھیل نے 1970 میں گلوکاری کا آغاز کیا، وہ زیادہ تر مارواڑی زبان میں گلوکاری کرتے تھے، اس کے علاوہ ان کے ہندی، سندھی، اردو اور سرائیکی زبان میں گانے میں سامنے آئے۔
ڈاکٹر فوزیہ سعید نے اپنی ایک کتاب میں کرشن لال بھیل کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ان کے والد ان کی گلوکاری کے خلاف تھے۔
کرشن لال بھیل کے والد کو ان کی گلوکاری کے بارے میں 1978 میں اس وقت پتا چلا جب وہ بھاولپور کے ایک ریڈیو اسٹیشن میں پرفامر کرتے تھے، ان کی برادری کے افراد نے ان کی گلوکاری سنی اور ان کے والد کو اس سے آگاہ کیا، شروعات میں ان کے والد خفہ ہوئے تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور لوگوں نے کرشن لال بھیل اور ان کے خاندان کی عزت کرنا شروع کی۔
رفیع پیر فیسٹیول تھیٹر کے تخلیقی ہدایتکار سعدان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ رفیع پیر مسٹک میوزک صوفی فیسٹیول کا کوئی بھی ایڈیشن کرشن لال بھیل کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندو برادری بھیل سے تعلق رکھنے والے کرشن لال بھیل گزشتہ تین ماہ سے علیل تھے، وہ گردے کی بیماری جیسی متعدد طبی پیچیدگیوں میں مبتلا تھا، انہیں فالج بھی ہوا اس کے علاوہ وہ ڈائلیسس پر بھی تھے۔
کرشن لال بھیل کی آخری رسومات رحیم یار خان میں ادا کی گئیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی کرشن لال بھیل کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ کرشن لال بھیل نے لوک گلوکاری میں خوب نام کمایا اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کی ایک پریس ریلیز کے مطابق وفاقی وزیر تعلیم، قومی ورثہ اور ثقافت شفقت محمود نے بھی ان کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا۔
انہوں نے کرشن لال بھیل کے اہل خانہ کو فون کیا، ان کے بھائی سکھ دیو سے بات کی اور کرشن لال بھیل کے دو بچوں شمبو لال اور شبنا دیوی کی خیریت دریافت کی۔
یہ بھی پڑھیں: معروف لوک گلوکار منصور ملنگی چل بسے
کرشن لال بھیل کی نہایت منفرد آواز تھی جنہیں چولستان کی ثقافتی آواز کہا جاتا تھا، انہوں نے اپنی زندگی میں کئی اعزازات اپنے نام کرائے جن میں لوک ورثہ کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’کرشن لال بھیل کے جانے کے بعد ان کے علاقے کی اس بہترین انداز میں نمائندگی کون کرے گا، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم پاکستان کی کئی متناسب روایات کے ساتھ چولستان کے موزیکل ورثے کو تسلیم کریں‘۔
کرشن لال بھیل کے خاندان نے دعویٰ کیا کہ گلوکار نے حکومت سے مالی امداد کی کئی بار اپیل کی، کیوں کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے دن اور پاکستانی ثقافت کی تشہیر میں اپنی زندگیاں گزار دی۔
کرشن لال بھیل کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ پرفارم کیا کرتی تھی۔
یہ خبر 8 مئی 2020 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔