سندھ کی بیٹیاں
"انہوں نے بھری دوپہر کو فائر کرکے میری بیٹی کو مارا"
وہ سسکتی اور عین پروگرام کے بیچ میں کھڑی ہو جاتی، لمحہ بھر کے لیئے رکتی، کراہتی اور پھر اٹھ کھڑی ہوتی۔
"جیجاں(ماں) انہوں نے آگا پیچھا لے کر دس فائر کیئے، مجھے انصاف دلاؤ"
جواں سال بیٹی کے قتل کے بعد اس ماں کی آنکھیں تو کہاں سوکھنی تھیں مگر اس کی دردمندانہ چیخ و پکار سے ہال میں بیٹھے تمام خواتیں و حضرات آبدیدہ ہو جاتے۔ پھر سے کچھ دیر کے لیئے پروگرام رک جاتا اور پھر اسکی پکار کلیجے میں اترتی اور اک بے رحم سرد آہ کے بعد سلسلہ وہیں سے جڑتا جہاں رکا تھا۔
یہ نازیہ سولنگی کی ماں تھی جسے بڑی بے دردی سے اس کے سابقہ شوہر نے اس وقت گولیوں سے بھون دیا تھا جب وہ بے نظیر یوتھ ووکیشنل ٹریننگ سینٹر سے بھائی کے ساتھ اپنے گھر کو لوٹ رہی تھی کہ اس کے سابقہ شوہر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ راستے میں ہی اس پہ گولیاں برسا دیں۔
جون، جولائی لاڑکانہ، قمبر میں سخت گرمی کے مہینے سمجھے جاتے ہیں۔ دس گولیاں اسکے جسم سے آر پار ہوگئی تھیں۔ سخت گرمی میں وہ پانی کا گھونٹ تک پینے سے پہلے ہی موقعے پہ دم توڑ گئی تھی اس لیئے ماں کو یہ یاد رہ گیا تھا کہ جلاد نے اسے بھری دوپہر میں قتل کیا۔ بکری بھی ذبح کی جاتی ہے تو اسے بھی پانی پلاتے ہیں، مگر نازیہ کی ماں کو گلہ تھا کہ اسے پیاس میں مارا گیا ہوگا۔
نازیہ کا بھائی بتاتا رہا کہ انہوں نے ملزم کے خلاف تھانے جا کر این سی بھی کٹوائی تھی کہ وہ ہر روز موٹر سائیکل پہ اسکا پیچھا کرتا اور اسے مارنے کی، اٹھانے کی دھمکیاں دیتا رہا تھا۔ مگر پولیس کہاں واقعہ سے پہلے حرکت میں آتی ہے۔ یہ پولیس تو نازیہ کے قتل کے بعد بھی قاتل گرفتار کرنے سے قاصر ہے.
"اچھا ہے کہ اسکی ماں پڑھی لکھی نہیں ہے ورنہ شاید وہ ساری عمر نہ سو پائے کہ ظالم نے اسکی بچی کو کیسے مارا ہے کہ جس رات میں نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ پڑھی تو میرا وجود تک کانپ گیا اور میں وہ ساری رات پل بھر کے لیئے آنکھ نہ جھپک سکی تھی"
"نہ کوئی وائٹل آرگن، نہ جسم کی کوئی ہڈی سلامت تھی، بازو، کندھے، دل، گردے، اندرونی اور بیرونی زخم اتنے تھے، بس ایسا سمجھو کہ اسکا پورا وجود زخم زخم تھا۔"
"میرے سندہ میں جس بے دردی کے ساتھ لڑکیاں ذبح کی جاتی ہیں اس طرح تو کوئی جانور بھی نہیں مارا جاتا ہوگا!"
میری وہ ڈاکٹر دوست سسک پڑی اور دیر تک روتی رہی۔
نازیہ کو کسی جاہل ان پڑھ نے نہیں اسکے سابقہ شوہر نے قتل کیا جو ایک بڑی سیاسی جماعت کی شاخ کا اسٹوڈنٹ لیڈر تھا. نازیہ سے اسکی شادی بھی پسند کی تھی۔ کیا یہ حیرت کی بات نہ تھی کہ اسکی اپنی لیڈر بھی اک خاتون ہی تھی۔
نازیہ کی ماں چیختی رہی، مقامی عورتوں کی تنظیم کئی جلوس نکال کر اور ہائیکورٹ کے ججوں کو اپیلیں ڈال ڈال کر تھک ہار چکی ہے لیکن پولیس کو نازیہ کا قاتل ابھی تک نہیں مل پایا ہے، یہی پولیس چاہے تو دبْئی سے شاہ رخ جتوئی کو برآمد کرا سکتی ہے۔
پھٹے پرانے کپڑوں میں ٹوٹی چپل کے ساتھ ڈیڑھ سالہ بچی کو خاموشی سے دودھ پلاتی خاتون نے کچھ دیر کے بعد اک تصویر میرے آگے کی۔ یہ کٹے ہوئے گلے والی اسکی جوان بچی کی تصویر تھی، جس میں لڑکی کی آنکھیں بند تھیں، اور گلے پہ بہت سارا خون جمع تھا۔ یہ بیس سالہ ناہید مستوئی کی تصویر تھی، جسے اسکے شوہر نے بیدردی سے ذبح کیا تھا۔
"میرا حق کریں، میرا انصاف کریں"
اس نے دھیمی آواز میں کہا. شاید وہ انصاف کی امید ہار بیٹھی تھی۔ سردار جرگے کے لئے زور ڈال رہے تھے مگر وہ میاں بیوی بضد تھے کہ قاتل کو سزا ہو۔
"ادی(بہن)، یہ تو وہ مائیں ہیں جو اپنی بیٹیوں کے قتل پہ رو تو سکتی ہیں بین تو کر سکتی ہیں لیکن کاری کے الزام تلے مرنے والیوں کی مائیں تو جگ دنیا والوں کے سامنے مرنے والی بیٹی کے لیئے بین تک نہیں کر سکتیں کہ وہ بدکار کی مائیں کہلاتی ہیں۔" مجھے وہاں کی خواتین بتا رہی تھیں۔
یہ کسی قبائلی علاقے کی داستان نہ تھی بلکہ پاکستان کی دو دفعہ وزیرِاعظم رہنے والی کا حلقہِ انتخاب تھا۔ پاکستان کی ایسی وزیرِاعظم جس کو نہ صرف مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا میں سب سے کم عمر وزیرِ اعظم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
ریاست اور سیاست دونوں ان چیختی بلکتی مائوں کی زبان سجھنے سے قاصر تھیں اور انصاف کا گھر ان سے کوسوں دور تھا۔
عجیب بات یہ تھی کہ جب میڈیا کے چند صحافی ان سے بات کرنے کے لیئے مائک آگے کرتے تو وہ سرکار، پولیس یا کسی چھوٹے بڑے جج کے بجائے مقامی سردار کو اپیل کرتیں کہ ہم سے انصاف کرو۔۔۔۔۔۔۔
"ادی، آخر میری نسل کو اور کتنا خون کا خراج دینا پڑے گا۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ دھرتی کو ماں کہنے والی قومپرست سیاست سندھ کی ان ماؤں سے بے خبر ہے، اور جمہوریت کی سیاست کرنے والوں نے ساری خلق کو سرداروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ بتایئے سندھ کو اکیسویں صدی تک پہنچنے کے لیئے ابھی اور کتنی صدیوں کی مسافت درکار ہوگی"
امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں