ٹی20 کے آغاز سے کئی سال پہلے ٹی20 طرز پر کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ
کیریبئن کے زرخیز جزائز ورلڈ کلاس کرکٹروں اور موسیقاروں کو پیدا کرنے کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی مشہور رہے ہیں۔ ان میں سر گارفیلڈ سوبرز اور باب مارلے جیسی 2 عظیم ہستیوں کا شمار بھی ہوتا ہے، سر گارفیلڈ کا جنم بارباڈوز میں ہوا تھا جبکہ باب مارلے کی جائے پیدائش جمائکا میں ہے۔
ایک کیریبئن بچے کے لیے کرکٹ محض ایک کھیل اور موسیقی صرف فن نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ان کے سفرِ حیات اور طرزِ زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔
دنیا کے اس حصے میں موسیقی اور کرکٹ ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں، یہی وجہ ہے کہ ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کو اکثر Calypso cricketers پکارا جاتا ہے۔
گس لوگی کے نام سے مشہور آگسٹائن لارنس لوگی ای او ایس کو بتاتے ہیں کہ 'تھکادینے والے دن کے بعد میں تنہائی میں انیتا بیکر، موٹاؤن ساونڈ کی موسیقی سنتا ہوں یا پھر موڈ کے اعتبار سے کوئی اچھی فلم دیکھتا ہوں'۔ ہماری ان سے ملاقات گزشتہ برس ویسٹ انڈیز کی خواتین کرکٹ ٹیم کے دورے پاکستان کے موقعے پر ہوئی تھی اور پھر بذریعہ ای میل بھی ان سے رابطہ ہوا۔ حالیہ آئی سی سی وومن ٹی20 ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈین ٹیم کی کارکردگی کے بعد میں نے ان سے رابطے میں آنے کا فیصلہ کیا۔
لوگی ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو میں واقع 'لا بری' کے قریب واقع ایک قصبے میں چھوٹے سے بڑے ہوئے تھے، اسی جگہ پر کم عمری میں ہی ان کا کرکٹ سے تعارف ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ، 'سوبو ولیج نامی میرے علاقے میں دیگر لڑکوں کی طرح مجھے بھی اپنے بڑے بہن بھائیوں کو گھروں اور گاؤں کے میدانوں اور اسکولوں میں کرکٹ کھیلتا دیکھ کر اس کھیل کا شوق پیدا ہوا'۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا پہلا ٹیسٹ میچ 1983ء میں جمائیکا کے شہر کنگسٹن میں سبینا پارک کے میدان میں بھارت کے خلاف کھیلا تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی شروعات اتنی شاندار نہیں رہی کیونکہ وہ اپنی پہلی ٹیسٹ اننگ میں 13 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوگئے تاہم وہ ٹیسٹ میچ بڑا ہی دلچسپ اور سنسنی خیز ثابت ہوا تھا اور ویسٹ انڈیز نے 4 وکٹوں سے یہ میچ جیتا تھا۔
لوگی کہتے ہیں کہ 'یہ ایک یادگار ترین میچ تھا، ہمیں پانچویں دن کے کھیل کے آخری سیشن میں 26 اوؤر میں 170 رنز بنانے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ٹی20 کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا اور تب بغیر کسی قسم کی پابندیوں کے اس میچ کو ٹی20 مقابلے کے طور پر کھیلا گیا تھا۔ ماحول میں جوش و خروش تھا اور ہدف حاصل کرنے کے لیے ہمارے کھلاڑیوں کا عزم غیر معمولی تھا'۔
یہ لوگی کی خوش نصیبی ہے کہ انہوں نے ویسٹ انڈیز کے 2 عظیم کپتانوں کلائیو لائیڈ اور ویون رچرڈز کی قیادت میں کرکٹ کھیلی۔ جب انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا تب ان کے کپتان لائیڈ تھے اور جب 1991ء میں انگلینڈ کے خلاف برمنگھم کے ایجبیسٹن میدان میں انہوں نے اپنے کیریئر کا آخری ٹیسٹ میچ کھیلا تب ٹیم کی قیادت ویون رچرڈز کررہے تھے۔
'کلائیو مجھ سمیت کئی کھلاڑیوں کے لیے والد کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی رہنمائی اور پُرسکون حوصلہ افزائی ہی ان کی کپتانی کا خاصہ تھی۔ ویون رچرڈز نے ہمیشہ فرنٹ سے ٹیم کی قیادت کی اور ان کا یہی اعتماد ٹیم کے باقی کھلاڑیوں میں بھی منتقل ہوجاتا تھا۔'
بین الاقوامی کرکٹ میں جانٹی رہوڈز کی آمد سے پہلے لوگی کو ہی عالمی منظرنامے پر بہترین فیلڈر ہونے کا اعزاز حاصل تھا جس کی بڑی وجہ فارورڈ شارٹ لیگ پوزیشن پر ان کی شاندار فیلڈنگ تھی۔ وہ بجلی کی مانند گیند پر جھپٹتے تھے۔
1986ء میں وہ پہلے ایسے کھلاڑی بنے جنہیں صرف فیلڈنگ کے شعبے میں شاندار کارکردگی دکھانے پر مین آف دی میچ قرار دیا گیا تھا (انہوں نے نہ تو اس میچ میں بلے بازی کی تھی اور نہ ہی گیند بازی)، یہ شارجہ میں پاکستان کے خلاف چیمپئنز ٹرافی کا میچ تھا جس میں انہوں نے 3 کیچ پکڑے اور 2 بلے بازوں کو رن آؤٹ کیا تھا۔
1988ء میں برسبین ٹیسٹ کے موقعے پر انہوں نے چیتے کی طرح ہوا میں اچھل کر بائیں ہاتھ سے شاندار و یادگار کیچ پکڑا تھا، جو آج بھی کئی کرکٹ مداحوں کے ذہنوں میں نقش ہے۔
لوگی کہتے ہیں کہ، 'مجھے وہ لمحہ یاد ہے اور اِس وقت چونکہ خواتین ٹیم میں کورٹنی والش میرے اسسٹنٹ کوچ ہیں اس لیے یہ قصہ اکثر زیرِ گفتگو آتا رہتا ہے کیونکہ وہ کیچ آوٹ ان کی بال پر ہی ہوا تھا۔ اس کیچ کو دیکھ کر اب بھی بہت اچھا محسوس ہوتا ہے'۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرکٹ میں ہوا میں ہتھیلیوں کو ملا کر خوشی کا اظہار کرنے کی روایت ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے متعارف کروائی۔ مگر اپنے دیگر طویل القامت ساتھی کھلاڑیوں کے مقابلے میں 5 فٹ 4 انچ کی لمبائی کے ساتھ لوگی کا قد بہت چھوٹا تھا۔ کرٹلی ایمبروس (6 فٹ 7 انچ) اور کرٹلی والش (6 فٹ 6 انچ) جیسے لمبے قد والے کھلاڑیوں کے ساتھ ان کی تالی مارنے کا نظارہ بھی ان دنوں کافی دیدنی ہوا کرتا تھا۔ وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ خوشی کا اظہار فطری تھا اور ہمارے جشن کا حصہ تھا اس لیے میں نے محسوس کیا کہ ٹیم کے دیگر کھلاڑی مجھے ان کے ہاتھوں تک پہنچنے کے لیے اوپر چھلانگ مارتے ہوئے دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوتے تھے'۔
لوگی نے ایک ایسے دور میں کرکٹ کھیلی تھی جب تیز گیند بازوں کا دور دورہ تھا، جن میں نہ صرف ان کے ساتھی کھلاڑی بلکہ حریف ٹیموں کے بھی چند گیند باز شامل تھے۔ ان وقتوں میں ریورس سؤنگ، خطرناک باؤنسر اور ایڑی توڑ دینے والے یارکر پھینکے جاتے تھے۔ ان کے کیریئر میں وہ کون سے گیند باز تھے جس کا سامنا کرنے میں انہیں سب سے زیادہ مشکل پیش آئی؟
وہ کہتے ہیں کہ، 'بین الاقوامی سطح پر تمام گیند باز مشکل ہوتے ہیں اس لیے ان کا سامنا کرنا ہمیشہ ہی ایک مشکل تجربہ رہا۔ لیکن اگر مجھے چند کے نام لینے ہوں تو میں نوجوان وسیم اکرم، وقار یونس اور سر رچرڈ ہیڈلی کے نام لوں گا'۔
1980ء کی دہائی میں ویسٹ انڈیز ناقابلِ تسخیر ٹیم ہوا کرتی تھی مگر ایک ایسا 'مسٹری' گیند باز بھی تھا جو اس ٹیم کے بلے بازوں کو بھی چکما دے جاتا تھا۔
عبدالقادر اور ان کی لیگ اسپن گیند بازی کا سامنا کرنے کے تجربے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میں قادر کے اہل خانہ سے ان کی بے وقت موت پر اظہارِ تعزیت کرنا چاہوں گا۔ مگر ان کی لیگیسی ہر اس کھلاڑی کے دلوں اور ذہنوں میں زندہ ہے جو ان کے ساتھ اور ان کے خلاف کھیلے۔ ان وقتوں میں ہماری ٹیم اکثر تھومسن اور للی کو نیند حرام کردینے والے کھلاڑی قرار دیتی تھی، اور عبدالقادر بھی اسی کیٹیگری میں شمار ہوتے تھے'۔
کرکٹ کیریئر کے نشیب و فراز پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 'مجھے کسی بات کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ میں خود کو ایک ایسے کھیل کا حصہ ہونے پر خوش نصیب محسوس کرتا ہوں جس کی وجہ سے مجھے کئی ملک گھومنے اور زندگی بھر کے دوست بنانے کا موقع ملا۔ اس دور میں کرکٹ کھیلنا اور ایک ایسی ٹیم کا حصہ بننا بڑی بات ہے جسے ایک بھی ٹیسٹ سیریز میں شکست کا سامنا نہیں ہوا، اور میرا خیال ہے کہ ان دنوں کو واپس لانے کی ہماری لاچاری کا افسوس برداشت کرنا بھی کوئی معمولی بات نہیں'۔
اپنے کیریئر کے سب سے یادگار لمحے کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ میرے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ 1988ء کے دورہ انگلینڈ کے موقعے پر لارڈز کے میدان پر ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 81 اور 95 اسکور بناکر ٹیسٹ میچ میں ویسٹ انڈیز کو جیتنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ یہ ایک بہت ہی شاندار تجربہ تھا'۔
آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے حالیہ آئی سی سی وومن ٹی20 ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے توقعات کے مطابق کھیل پیش نہیں کیا اور ٹیم سیمی فائنل تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ بطورِ ہیڈ کوچ لوگی نے اپنی ٹیم کو پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بھی بتایا۔
'وومن ورلڈ کپ کے موقعے پر ہماری کئی تجربہ کار کھلاڑیوں کو انجری اور فارم کی محرومی جیسے مسائل کا سامنا رہا جس کے باعث ہماری توقعات کو کافی ٹھیس پہنچی. اوپر سے ہم نے نہ تو جذبہ دکھایا اور نہ ہی اجتماعی اعتماد اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا حالانکہ ٹیم میں بھرپور صلاحیت تھی جس کا مجھے بخوبی اندازہ تھا۔'
تاہم عمومی طور پر لوگی وومن کرکٹ ٹیم کے موجودہ معیار اور بہتری سے مطمئن ہیں۔ 'خواتین کے کھیل میں نکھار آیا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ مزید نکھار آتا جا رہا ہے، چند خواتین کھلاڑیوں کا جارحانہ پن اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کافی متاثر کن ہے۔ دیگر خواتین کھلاڑیوں کی طاقتور پرفامنس اور بے خوف ہوکر کھیلنے کی صلاحیت اور اسپنروں کے معیار نے کھلاڑیوں کو یہ کھیل مزید آگے لے جانے کے لیے سخت محنت کرنے کی ترغیب دی ہے'۔
2019ء میں لوگی نے ویسٹ انڈیز کی وومن ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طور پر پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اس دورے کو کیسا پایا؟
وہ کہتے ہیں کہ 'کئی برسوں کے بعد پاکستان آکر اور کرکٹ کے لیے وہی جوش و جذبہ، پیار اور ہمارے ساتھ کھیلنے والے اور اس وقت ٹیم کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کو دیکھ کر بہت ہی اچھا لگا۔ مگر آپ کے مرغی کے سالن اور نان تو میرے فیورٹ ہیں۔'
پتا چلا کہ کیریبئن والوں کو صرف کرکٹ اور موسیقی ہی نہیں بلکہ وہ کھانوں سے بھی شغف رکھتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں 3 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔