کیا واقعی ایرانی ایئرلائن نے مشرق وسطیٰ میں کورونا وائرس پھیلایا؟
معروف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں ایرانی فضائی کمپنی ماہان ایئر کے ذریعے سفر کرنے والے لوگوں نے ہی خطے میں کورونا پھیلایا۔
بی بی سی عربیہ کی تحقیقی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین، وسطی ایشیائی، مشرق وسطیٰ اور یورو ایشیائی ممالک کی جانب سے ایرانی ایئرلائن ماہان ایئر کی سروس پر پابندی عائد کیے جانے کے باوجود مذکورہ ایئر لائن نے درجنوں بار متعدد ممالک کی جانب سفر کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بی بی سی عربیہ کی ٹیم نے عراق، شام اور چین سمیت دیگر ممالک کی جانب ماہان ایئر کے سفر کا ڈیٹا حاصل کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ کمپنی نے اپنی حکومت سمیت دیگر ممالک کی حکومتوں کی جانب سے فضائی سفر پر پابندیوں کے باوجود سروس کو بحال رکھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگرچہ ابتدائی طور پر ایرانی حکومت نے 31 جنوری 2020 کو ایران اور چین کے درمیان فضائی سفر پر عارضی پابندی لگادی تھی، تاہم اس باوجود ایران کی ماہان ایئر نے مسافروں کو چین لے جانے اور وہاں سے ایران لے آنے کا سلسلہ برقرار رکھا۔
رپورٹ کے مطابق ماہان ایئر نے اس وقت بھی چین اور ایران کے درمیان اپنی سروس بحال رکھی جب دونوں ممالک میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ عروج پر تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں کورونا وائرس سے ہر 10 منٹ میں ایک شخص ہلاک
رپورٹ میں ماہان ایئر کا فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مجموعی طور پر پابندیوں کے بعد بھی چین اور ایران کے درمیان ماہان ایئر کی 157 فلائیٹس نے سفر کیا، تاہم رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا ماہان ایئر نے ووہان کے لیے بھی فضائی سروس بحال رکھی یا نہیں؟
زیادہ تر ماہان ایئر نے چین کے شہروں بیجنگ، شنگھائی، شنزن اور گوانگژو کی جانب اپنی سروس بحال رکھی۔
رپورٹ کے مطابق ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ پابندیوں کے باوجود ماہان ایئر کو چین اور ایران کی سول ایوی ایشن حکام اور حکومت نے سروس بحال رکھنے کی اجازت دی۔
اسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہان ایئر نے جنوری سے اپریل تک متحدہ عرب امارات (یو اے ای) لبنان، شام، عراق، ترکی، تھائی لینڈ اور ملائیشیا سمیت دیگر ممالک میں درجنوں پروازیں چلائیں اور اسی کے طیاروں میں سفر کرنے والے متعدد افراد ہی اپنے ممالک کے کورونا کے پہلے مریض بھی بنے۔
رپورٹ میں مجموعی طور پر ماہان ایئر کی فلائیٹس کی تعداد نہیں بتائی گئی، تاہم دعویٰ کیا گیا کہ ایرانی ایئر لائن نے متعدد مشرق وسطی ممالک، یوروایشیائی و سطی ایشیائی ممالک میں اپنی سروس بحال رکھی۔
بی بی سی کے مطابق کورونا وائرس کے باعث تمام ممالک نے فضائی سفر پر عارضی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں تاہم اس باوجود ماہان ایئر کو سفر کی اجازت دی گئی۔
رپورٹ میں ماہان ایئر کے ذریعے لبنان اور عراق پہنچنے والے ایسے لوگوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو کہ ملک پہنچنے کے اگلے چند دن میں ملک کے پہلے کورونا کے مریض بنے۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا کے علاج کیلئے زہر کھانے سے اموات
رپورٹ کے مطابق 19 فروری کو ایک عراقی نوجوان تہران سے نجف ماہان ایئر کے ذریعے پہنچا اور 5 دن بعد 24 فروری کو اسی نوجوان میں کورونا کی تشخیص ہوئی اور وہ ملک پہلا کورونا کا مریض بنا۔
اسی طرح ان ہی دنوں میں تہران سے لبنان کے دارالحکومت بیرون پہنچنے والی ایک خاتون میں بھی 21 فروری کو کورونا کی تشخیص ہوئی اور وہ بھی ملک کی پہلی کورونا کی مریض بنیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایرانی حکومت اور ماہان ایئر کے مطابق ایئر لائن نے کچھ فلائیٹس فلاحی کاموں اور پھنسے ہوئے افراد کو منتقل کرنے کے لیے بھی چلائیں۔
رپورٹ کے مطابق دبئی، ترکی، ملائیشیا، چین، تھائی لینڈ، لبنان اور عراق کی حکومتوں نے پابندی کے باوجود ماہان ایئر کو اپنی ایئرپورٹس پر اترنے کا حکم دیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر تمام ممالک کے حکام نے ایسا کیوں کیا؟
رپورٹ میں ماہان ایئر پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ فضائی کمپنی نے اپنے ملازمین کو بھی اس معاملے پر خاموش رہنے کا حکم دیا اور خلاف ورزی پر مقدمات دائر کرنے سمیت ملازمت سے نکالنے جیسی دھمکیاں دی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق مارچ کے آغاز تک ماہان ایئر کے 50 ملازمین بھی کورونا سے مبتلا ہو چکے تھے، تاہم اس باوجود مذکورہ فضائی کمپنی نے اپریل کے آخر تک اپنی سروس بحال رکھی اور مبینہ طور پر متعدد مشرق وسطی ممالک میں کورونا کو پھیلایا۔
رپورٹ میں ماہان ایئر کے عہدیداروں کا بیان شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایرانی حکومت سمیت چینی حکام یا دیگر ممالک کے حکام کا کوئی بیان دیا گیا ہے، تاہم بتایا گیا کہ ماہان ایئر نے فضائی سروس حکومتوں کی اجازت سے ہی جاری رکھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں 100 میٹر دور سے کورونا کے مریض کو پہچاننے والا آلہ متعارف
خیال رہے کہ ایران میں جنوری میں ہی کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے تھے اور ابتدائی طور پر چین کے بعد ایران ہی کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ملک تھا۔
بعد ازاں دیگر ممالک میں بھی کورونا کے کیسز سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے مشرق وسطیٰ میں کورونا پھیل گیا، زیادہ تر ممالک میں کورونا کے پہلے مریضوں نے کورونا میں مبتلا ہونے سے قبل ایران کا سفر کیا تھا۔
مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی فروری کے آخر میں کورونا کا پہلا کیس جو سامنے آیا تھا، وہ شخص بھی تفتان کے راستے ملک میں داخل ہوا تھا۔
اس وقت اگرچہ ایران میں کورونا کی شدت کم ہو چکی ہے، تاہم اب بھی وہ کورونا کے مریضوں کے حوالے سے مسلم ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے، پہلے نمبر پر ایک لاکھ 29 ہزار مریضوں کے ساتھ ترکی ہے جب کہ ایران میں 6 مئی کی شام تک مریضوں کی تعداد ایک لاکھ ایک ہزار سے زائد ہوچکی تھی۔
اسی طرح 6 مئی کی شام تک مشرق وسطیٰ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زائد ہوچکی تھی جب کہ دنیا بھر میں مریضوں کی تعداد 35 لاکھ سے زائد اور ہلاکتوں کی تعداد 2 لاکھ 58 ہزار تک جا پہنچی تھی۔