کورونا وائرس کی ساخت اسے بہت زیادہ متعدی بناتی ہے، تحقیق
نیا نوول کورونا وائرس دنیا بھر میں اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ سائنسدان اس سوال سے پریشان ہیں کہ آکر یہ اتی آسانی سے ایک سے دوسرے فرد میں کیسے منتقل ہوجاتا ہے۔
اب برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔
کارنیل یونیورسٹی کی تحقیق میں اس وائرس کی ساخت کو دیکھا گیا جو کووڈ 19 کا باعث بنتا ہے اور اس میں ایک ایسا منفرد فیچر دریافت کیا جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان اتنی آسانی سے کیسے منتقل ہوجاتا ہے۔
محقق پروفیسر گرے وائٹیکیر نے وائرس کے اسپائیک پروٹین کے ایک حصے کو شناخت کیا جو اسے کسی خلیے کو متاثر کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس حصے کے 4 امینو ایسڈز کا سیکونس تیار کیا گیا جو دیگر انسانی کورونا وائرسز سے مختلف تھے۔
محققین نے دریافت کیا کہ نئے نوول کورونا وائرس کا بیشتر حصہ 2002 کے سارس وائرس سے ملتا جلتا ہے جو جان لیوا تو تھا مگر وہ اتنا متعدی نہیں تھا جبکہ یہ نیا وائرس جان لیوا اور متعدی دونوں ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ وائرس دونوں خصوصیات کا عجیب امتزاج ہے اور اس کا یہ حصہ ایک سے دوسرے میں منتقلی اور استحکام کے لیے بہت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اسٹرکچرل لووپ پر مزید توجہ مرکوز کی جائے گی۔
محققین کا کہنا تھا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس میں شناخت کی گئی ہے کہ چین میں ایک چمگادڑ میں ایک کورونا وائرس میں اس سے ملتا جلتا لوپ موجود ہے مگر اس کے امینو ایسڈز کا سیکونس مختلف ہے، اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس نئے وائرس کی ساخت کا موازنہ دیگر جانوروں میں موجود کورونا وائرسز سے کیا اور بتایا کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے پھیلنا شروع ہوا، تاہم ایسے شواہد نہیں ملے کہ یہ وائرس پینگولینز سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ انسانوں تک یہ وائرس کیسے منتقل ہوا اور اس میں ایک نئے جینیاتی سیکونس سے کسی نامعلوم عارضی میزبان کے امکان کی جانب اشارہ ملتا ہے۔
محققین کے مطابق بلیاں، فیرہٹ اور منک بھی اسے پھیلانے کے حوالے سے کردار ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ بلیوں میں ایسا ریسیپٹر پایا جاتا ہے جس کو یہ وائرس متاثر کرتا ہے اور وہ انسانوں سے بہت حد تک ملتا جلتا ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل آف مالیکیولر بائیولوجی میں شائع ہوئے۔
نوول کورونا وائرس کے بارے میں جاننے کا بنیادی مقصد اس کی روک تھام کی موثر حکمت عملیوں کو ترتیب دینے میں مدد ہے۔
اگرچہ اب بھی اس وائرس کے بارے میں بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا مگر تحقیق سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس بہت تیزی سے پیش رفت کرتا ہے۔
مارچ میں جرمنی کی جامعات نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے دریافت کرلیا ہے کہ یہ وائرس کس وقت سب سے زیادہ متعدی (پھیلتا) ہے۔
تحقیق کے نتائج سے ممکنہ عندیہ ملتا ہے کہ آخر کیوں یہ وائرس بہت آسانی سے پھیل رہا ہے، کیونکہ بیشتر افراد اس وقت اسے پھیلا رہے ہوتے ہیں، جب اس کی علامات معمولی اور نزلہ زکام جیسی ہوتی ہیں۔
تاہم محققین نے اس کو آن لائن شائع کیا ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ یہ وائرس مختلف مراحل میں کس طرح اور کن ذرائع سے پھیلتا ہے۔
محققین نے کووڈ 19 کے شکار 9 افراد کے متعدد نمونوں کا تجزیہ کیا جن کا علاج میونخ کے ایک ہسپتال میں ہورہا تھا اور ان سب میں اس کی شدت معتدل تھی۔
یہ سب مریض جوان یا درمیانی عمر کے تھے اور کسی اور مرض کے شکار نہیں تھے۔
محققین نے ان کے تھوک، خون، پیشاب، بلغم اور فضلے کے نمونے انفیکشن کے مختلف مراحل میں اکٹھے کیے اور پھر ان کا تجزیہ کیا۔
مریضوں کے حلق سے لیے گئے نمونوں سے انکشاف ہوا کہ یہ وائرس جب کسی فرد کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو پہلے ہفتے میں سب سے زیادہ متعدی ہوتا ہے، جبکہ خون اور پیشاب کے نمونوں میں وائرس کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں ہوئے تاہم فضلے میں وائرل این اے موجود تھا۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ سارز وائرس سے بالکل مختلف ہے، جس میں وائرس کی منتقلی کا عمل 7 سے 10 دن میں عروج پر ہوتا ہے مگر نیا نوول کورونا وائرس میں یہ عمل 5 دن سے پہلے ہی تیز ہوجاتا ہے اور سارز کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن افراد میں اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے، ان میں وائرس کے متعدی ہونے کا عمل 10 یا 11 ویں دن تک عروج پر پہنچتا ہے جبکہ معتدل مریضوں میں 5 دن کے بعد اس عمل کی شدت میں بتدریج کمی آنے لگتی ہے اور 10 ویں دن ممکنہ طور پر یہ مریض اسے مزید پھیلا نہیں پاتے۔