حکومتِ پنجاب نے فوج کی اراضی شہری حکام کو الاٹ کرنے کی منظوری دے دی
پنجاب حکومت نے آرمی ویلفیئر اسکیم (اے ڈبلیو ایس) کے تحت شہید فوجیوں کے اہلخانہ کے لیے مختص 25 ایکڑ سرکاری اراضی کو 47 سویلین حکومتی عہدیداران کو دینے کی منظوری دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں دو افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ الاٹمنٹ میرٹ اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے حکم پر قانونی پابندی کے بغیر کی گئی۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے الاٹمنٹ منسوخ کردی تھی جس کا حکم سابق صدر نے جنوری 2004 سے مئی 2008 کے درمیان دیا تھا جو سرکاری زمین کی کولونائزیشن (پنجاب) ایکٹ 1912 اور 1962 میں آرمی ویلفیئر اسکیم کے تحت مرتب کی گئی الاٹمنٹ پالیسی کی مبینہ خلاف ورزی تھا۔
منسوخی کے حکم کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف کی توثیق کے لیے پیش کردہ متعدد سمریوں کو بھی مسترد کردیا۔
مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم
جی ایچ کیو کی شاخ برائے زمین نے الاٹمنٹ منسوخ نہ کرنے کے لیے اپریل 2009 میں پہلی بار حکومت پنجاب سے رجوع کیا تھا۔
فوج کی رائے تھی کہ ’سرکاری اہلکاروں کو دی جانے والی الاٹمنٹ کو ختم ہونے والے معاملے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے‘ اور انہوں نے صوبائی حکومت اور صوبائی بورڈ آف ریونیو کی مشاورت سے مستقبل کے لیے الاٹمنٹ کے طریقہ کار پر کام کرنے کی پیش کش بھی کی تھی تاہم شہباز شریف نے اسے نہیں مانا۔
وزیراعلی سیکرٹریٹ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ اے ڈبلیو ایس کی تقریبا 837 ایکڑ اراضی سویلین عہدیداروں کو صوبائی حکومت سے مشاورت کے بغیر الاٹ کی گئی تھی۔
یہ زمین بہاولپور، پاکپتن، خانیوال، ساہیوال، مظفر گڑھ، بہاولنگر، رحیم یار خان اور صادق آباد کے اضلاع میں الاٹ کی گئی تھی۔
سابق وزیراعلیٰ نے فروری 2012 میں بورڈ آف ریونیو کے ذریعے تیار کردہ ایک اور سمری کو بھی مسترد کردیا تھا۔
عثمان بزدار حکومت کی جانب سے الاٹمنٹ کو بحال کرنے اور اس کی توثیق کرنے کے لیے منظور کی گئی تازہ سمری کے مطابق شہباز شریف حکومت نے 2010 میں الاٹمنٹ منسوخ کردی تھی اور مستفید اہلکاروں سے الاٹ کی گئی زمین کو واگزار کرالیا تھا کیونکہ قانون کے تحت اصل میں یہ زمین فوج کو مخصوص مقصد کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ جن لوگوں نے ملنے والی زمین کو بیچ دیا تھا انہیں شہباز شریف کی انتظامیہ نے صوبائی خزانے میں سیل پروسیڈز جمع کرانے کا کہا تھا۔
ساتھ ہی جی ایچ کیو کے فیصلے سے مستفید ہونے والے صوبائی عہدیداروں کو معطل کردیا گیا تھا جبکہ تین ڈی ایم جی افسران جنہیں زمین ملی تھی، کے معاملے کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیج دیا گیا تھا تاہم بظاہر اب تک اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
فائدہ اٹھانے والے ڈی ایم جی افسران میں سردار احمد نواز سکھیرا (جو اس وقت وفاقی کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری ہیں)، ڈاکٹر فیصل ظہور اور سید امتیاز حسین شاہ شامل ہیں۔
حکومتی فیصلے سے فائدہ اٹھانے والے سابق پی سی ایس عہدیداروں میں محمد زاہد اکرام، سکندر علی بخاری، سید نجف عباس بخاری، ملک محمد رمضان، محمد اشرف یوسفی، عبدالغفور ورک، دور محمد خان، ارشاد محی الدین، سید زاہد حسین جیلانی، محمد اشفاق، محمد اکرم بھٹی، امیر کریم خان (جو اس وقت وزیر اعلٰی عثمان بزدار کے پی ایس او ہیں)، مشتاق احمد انجم اور محمد اعظم خان شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل ہیڈ کوارٹرز کے لیے 293 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ جاری
باقی عہدیداروں میں زیادہ تر ضلعی ریونیو کے عہدیدار شامل ہیں۔
اس کے بعد 8 فائدہ اٹھانے والے افسران نے حکومت پنجاب کے منسوخی کے حکم کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
جون 2013 میں عدالت نے بورڈ آف ریونیو کے ممبر (کالونیوں) کو ہدایت کی تھی کہ وہ منسوخی کے احکامات کو معطل کریں اور فریقین کی جانب سے پیش کیے گئے تمام قانونی نقطہ نظر اور حقائق پر غور کرتے ہوئے قانونی ضروریات کے مطابق نئے سرے سے معاملے پر فیصلہ کریں۔
اس کے بعد اکتوبر 2013 میں جی ایچ کیو نے اپنے دستاویزات میں سے الاٹمنٹ منسوخ کردی تھی۔
وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے عہدیداروں نے کہا کہ جب تک شہباز شریف موجود تھے کسی نے بھی اس معاملے کو دوبارہ اٹھانے کی ہمت نہیں کی تھی۔
نومبر 2019 میں جی ایچ کیو کے ڈی جی لینڈز نے عثمان بزدار کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف حکومت کو الاٹمنٹ کی بحالی کے لیے خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ‘صدر / چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کے تمام احکامات کو آئینی تحفظ دیا گیا تھا اور اس کی ٹکا اقبال کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے توثیق بھی کی تھی‘۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈی جی لینڈز نے یہ ذکر نہیں کیا کہ مذکورہ فیصلے کو پی سی او ججز کیس میں جولائی 2009 میں 14 رکنی بینچ نے معطل کردیا تھا۔
ڈی جی لینڈز کے خط موصول ہونے کے دو روز بعد بورڈ آف ریونیو ممبر (کالونیز) نے وزیر اعلی پنجاب کو ایک تازہ سمری بھجوائی جس میں عثمان بزدار سے درخواست کی گئی کہ وہ ’واضح فیصلہ لیں کہ آیا ناجائز الاٹمنٹ منسوخ کرنے والے آرڈر کو واپس لیا جائے‘۔
وزیر اعلی نے اس معاملے کو قانون سازی سے متعلق کابینہ کی قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا تھا جس نے فروری میں ڈی جی لینڈز جی ایچ کیو کے نقطہ نظر کی توثیق کی۔
بعد ازاں وزیر اعلی نے گزشتہ ہفتے ملنے والی ‘کابینہ کی توثیق سے مشروط قائمہ کمیٹی کی تجویز‘ پر الاٹمنٹ کی منظوری دے دی۔
اس سلسلے میں پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور نہ ہی وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری افتخار ساہو نے ڈان کے سوالات اور گزشتہ تین روز کے دوران کی گئیں متعدد فون کالز اور میسجز کا جواب دیا۔
فیاض الحسن چوہان کا جواب صرف اتنا موصول ہوا کہ انہوں نے سوالات تحریری طور پر طلب کیے تاہم انہیں فراہم کیے جانے پر انہوں نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔
وزیر کو یہ سوالات بھیجے گئے کہ کیا صوبائی حکومت / کابینہ نے جمعرات کے روز اپنے اجلاس میں 47 شہری حکام کو اے ڈبلیو ایس اراضی کی الاٹمنٹ کی توثیق کردی ہے؟
ان سے یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ کن عوامل کی وجہ سے الاٹمنٹ کی منسوخی کے حکم کو پلٹ دیا گیا جسے اتنے سالوں سے گزشتہ حکومت نے غیر قانونی قرار دیا ہوا تھا۔