حکومت نے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی بحالی کیلئے وقت مانگ لیا
اسلام آباد: وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ حکومت قبائلی اضلاع میں 3 جی اور 4 جی براڈ بینڈ سروسز فراہم کرنا چاہتی ہے لیکن علاقے کو انٹرنیٹ سے دوبارہ منسلک کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
اسلام آباد کے تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعلم کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت میں وزارت داخلہ کے سیکشن افسر ایم ریاض وفاق کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے۔
پٹیشنر نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ حکام کو قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز بحال کرنے کا حکم دیا جائے تا کہ وہ ملک میں نافذ لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسز لے سکیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان علاقوں کے طلبہ موجودہ سمسٹرز میں مارکس حاصل نہیں کرسکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت سے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی فراہمی سے انکار پر وضاحت طلب
حکومتی مؤقف سننے کے بعد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ قبائلی اضلاع پاکستان کا حصہ ہیں اور وہاں کے رہائشیوں کو تمام آئینی حقوق حاصل ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’یہ مقبوضہ کشمیر نہیں اس لیے ان علاقوں کے عوام اپنے آئینی حقوق استعمال کرنے کے لیے آزاد ہیں‘۔
عدالت کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے قبائلی اضلاع کو انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنے سے انکار نہیں کیا گیا۔
تاہم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کی صورتحال کی وجہ سے حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو متاثرہ علاقوں میں انفرا اسٹرکچر تعمیر کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: وزارت آئی ٹی کو قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ بحال کرنے کی ہدایت
عدالت نے کہا کہ قبائلہ اضلاع کے عوام نے دہائیوں تک مصیبتیں اٹھائی ہیں اور قانون نہ ہونے، شورش اور حکومتی کوتاہیوں کی وجہ سے حقوق سے محروم رہے لیکن اب ان علاقوں میں امن بحال ہوگیا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام، مسلح افواج اور شہری حکام کی قربانیوں کی وجہ سے امن اور حکومتی رٹ بحال ہوگئی ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ چونکہ اب امن بحال ہوگیا ہے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس علاقے کے عوام کے آئینی حقوق کو یقینی بنائے اور حکام اس سلسلے میں ضروری اقدامات کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے تحت انٹرنیٹ تک رسائی بلا شبہ بنیادی حق ہے کیوں کہ اس نے لا محالہ معیار زندگی کو متاثر کیا ہے۔
عدالت اس لیے توقع کرتی ہے کہ قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز کی جلد بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تا کہ رہائشی اپنے بنیادی حقوق سے لطف اٹھاسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی سیکیورٹی کلیئرنس سے مشروط
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وزارت داخلہ نے سیکیورٹی خدشات کی بنا پر 2016 میں انٹرنیٹ سروسز معطل کی تھیں۔
خیال رہے کہ درخواست گزار کے وکیل عبدالرحیم وزیر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی کے حق کو آئینی ضمانت حاصل ہے جو آئین کی دفعہ 19 اے کے تحت بنیادی حقوق کا اہم حصہ ہے۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر طلبہ کو آن لان کلاسز لینے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی درکار ہے۔
یہ خبر 29 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔