سندھ کے گرگلے، اپنے ہی درد سے ناواقف نسل کی کتھا
تحریر و تصاویر: عبدالرزاق کھٹی
ان کی زندگی پر کتاب لکھنے کے لیے انہیں ابھی تک کوئی گیبریل گارشیا مارکیز نہیں ملا، جو ایک بار پھر ‘تنہائی کے سو سال’ جیسا ناول ان پر لکھے، اور وہی سحر دوبارہ اس ناول کے الفاظ میں سمودیا جائے جو ان کی زندگی میں کہیں دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔
نہ جانے ندا فاضلی نے کس کیفیت میں لکھا تھا
چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کہ کس راہ گزر کے ہم ہیں؟
یہ شعر گُرگلوں کی زندگی پر بالکل صادق آتا ہے۔
نسل در نسل ان لوگوں نے زندگی کو ایسے ہی دیکھا ہے، بے رنگ، بے اختیار، خودی اور لطف سے عاری، دن بھر لڑنا، گالیاں دینا اور شام ہوتے ہی مٹی کے چولہے میں لکڑیاں ڈال کر آگ جلانا، کھانا پکانا اور اس کے بعد ٹھرے کی تھیلی کی گانٹھ کھولنا، نشے میں دُھت ہوکر بچوں کو مارنا اور بیوی کے ساتھ سونے سے پہلے اسے دھمکی دینا کہ 'کل زیادہ نہ کمایا تو تیری خیر نہیں' یہ ان کے مرد کی زندگی ہے۔
ان کے ہاں پیدا ہونے والی لڑکی تو جیسے اپنے ساتھ اپنا عذاب بھی لاتی ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی وہ زندگی کو ایسے ہی دیکھتی ہے، جیسے اس کی ماں دیکھتی آئی ہے۔ صدیوں سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ الہڑپن کی عمر میں اسے چوڑیاں، جھاڑو یا کھلونے بیچنے پر لگادیا جاتا ہے، اکثر گرگلے ایسے بھی ہیں جو اس عمر میں انہیں بھیک مانگنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ شادی ہو تو شوہر کے گھر جاکر بھی اسے یہی کام کرنا پڑتا ہے۔
‘بھیک مانگنا عیب تھوڑی ہی ہے صاحب!‘، اس کی باتوں میں تجربات ضرور تھے، لیکن فہم نہیں تھا۔ ناک کے نیچے پھیلی ہوئی بڑی بڑی مونچھیں، جو دونوں مٹھیوں میں پوری آجائیں، دبدبے اور مردانگی کی علامت سمجھی جاتی ہیں، مجھ سے مخاطب یہ گرگلوں کا مکھیہ پارو گرگلو تھا۔
زیریں سندھ کے شہر بدین کی کینٹ کے قریب رینجرز ہیڈکوارٹر کے ساتھ درجنوں گرگلوں نے پرائی خالی زمین پر جُھگیاں بنا رکھی ہیں۔ بچے سارا دن دوڑتے اور کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ان کی جُھگیوں کی طرف جاتے ہوئے آپ کو سامنے کم اور نیچے زیادہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ نے تھوڑی بھی غفلت کردی تو آپ کی جوتی خراب ہوجائے گی کیونکہ رفع حاجت کے لیے ان کے پاس کوئی بندوبست نہیں، بس جہاں جی چاہا ضرورت پوری کرلی۔
ان کے عارضی محلے میں جاکر آپ کو احساس ہوگا کہ جُھگیاں عارضی اور مندر مستقل ہے۔ عبادت خانوں کی تعمیر سے تو ویسے بھی کسی علاقے کی یا وہاں کے لوگوں کی معاشی حالت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ان کا مندر بھی ان کی جُھگیوں سے کافی بہتر تھا۔ وہ دل سے اس مندر کی لیپاپوتی کرکے اسے تیار کرتے ہیں اور صاف بھی رکھتے ہیں۔ جب دوسری جگہ منتقل ہونا ہو تو وہ مندر کی مورتیاں اور تصاویر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور مندر کا ڈھانچہ وہیں رہ جاتا ہے۔
ہم جس زندگی کو سفر سے تشبیہہ دیتے ہیں، ان کی زندگیاں ہر ایک دو ماہ بعد اس کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ ان کی زندگی میں کہیں کوئی فل اسٹاپ نہیں، خانہ بدوشوں کا کہاں کب کوئی پڑوس ہوتا ہے۔
'پہلے ہم لغاری گوٹھ میں رہتے تھے، زمین کے مالک کو ضرورت پڑی تو وہاں سے اٹھ کر یہاں آگئے'، پارو گرگلو مجھے بتارہا تھا۔
یہ لوگ نسل در نسل زندگی کو ایسے ہی گزارتے ہیں۔ ان کی عورتیں کماتی ہیں اور یہ کھاتے ہیں۔ ان کے پاؤں کے نیچے نہ اپنی زمین ہوتی ہے اور نہ سر پر چھت۔ زندگی کو انہوں نے ایسے ہی دیکھا، اچھے کی آرزو نہیں، بُرے کی تمیز نہیں۔
گرگلے سندھ کے مختلف شہروں میں بستے ہیں، انہیں آپ جپسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کی اس نسل کی اپنی روایات ہیں۔ بچوں کو تعلیم دلوانے کا ان کے پاس تصور نہیں۔ 14، 15 سال کی عمر میں اپنے بچوں کی شادی کردیتے ہیں۔
بدین کے قریب رہنے والے گرگلوں کی خواتین شادی بیاہ اور مختلف محلوں میں گھر گھر جاکر چوڑیاں فروخت کرتی ہیں۔ کچھ عورتیں بھیک بھی مانگتی ہیں، کچھ شہروں میں یہ مٹی اور پلاسٹک کے کھلونے اور جھاڑو بھی بیچتی ہیں۔
’ہماری عورتیں شادیوں میں سامان بیچتی ہیں، شہر کے نواح میں دیہاتوں میں جہاں شادیاں ہوں وہاں چلی جاتی ہیں۔ پھر ان شادیوں میں ہی وہ کسی دیہاتن سے دوسری جگہ ہونے والی شادیوں کی تاریخوں کے بارے میں بھی پوچھ لیتی ہیں، اس طرح ہمارا کام چلتا رہتا ہے‘، پارو مجھے بتارہا تھا۔ ‘بچے غبارے بیچتے ہیں، اس طرح کچھ وہ بھی کماکر لے آتے ہیں’، اس نے اپنی بات کو مکمل کیا۔
گرگلوں میں ایک روایت عام ہے، جب 15 یا 16 سال کی عمر میں ایک نوجوان کی شادی ہوجائے تو وہ کام نہیں کرتا۔ بیوی صبح ہوتے ہی گھر سے سامان لے کر نکل جاتی ہے اور شام کو واپس لوٹتی ہے۔ اپنے ٹھکانے پر واپس آتے وقت وہ بازار سے سودا سلف بھی ساتھ لے آتی ہے۔ گھر میں بیٹھا شوہر کھانا خود پکاتا ہے، کبھی کبھی گھر کی خاتون بھی اس کی مدد کرلیتی ہے۔ یہ کتے پالتے ہیں تاکہ رات کو ان کی گھر کی حفاظت ہوسکے۔ اپنے پالے ہوئے کتوں کے بھونکنے کی آوازوں میں یہ سو جاتے ہیں۔ گرگلوں میں ایک میاں بیوی کے آدھے درجن سے زائد بچے عام سی بات ہے۔
جب میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی جھونپڑیوں میں گیا تو ایک مرد ’مرغی کے پائے‘ پکا رہا تھا۔ ’جب بیوی زیادہ بیوپار کرکے آئے تو ہم یہی پکاتے ہیں، ورنہ ایک کلو آٹے میں پانی اور نمک ڈال کر پکاتے ہیں اور کھاتے ہیں‘، اس شوہر نے مجھے بتایا۔
’ آپ ووٹ کس کو دیتے ہیں؟‘
میرے اس سوال پر پارو نے جواب دیا کہ 'ہم نے تو زندگی میں کبھی ووٹ نہیں دیا، کیونکہ ہم ایک جگہ کبھی ٹھہرتے ہی نہیں، ایک جگہ ٹھکانا ختم ہو تو دوسری جگہ چلے جاتے ہیں، زندگی اسی طرح گزرتی ہے۔ ہم شادیاں اپنوں میں نہیں کرتے، دُور دراز علاقوں میں ہماری برادری کے لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور وہیں رشتے طے کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ادلے بدلے کا رشتہ نہیں ہوتا'۔
گرگلوں میں تعلیم کی شرح ایک فیصد بھی نہیں۔ بچوں کو تعلیم دینے کا ان کے پاس تصور تک نہیں۔ اس کے 3 اسباب ہیں،
- ایک تو ان کی کہیں مستقل رہائش نہیں ہوتی،
- دوسرا سبب یہ ہے کہ جہاں یہ رہتے ہیں وہاں کے آس پاس اسکولوں میں انہیں اپنے بچے داخل کروانے کی طرف راغب نہیں کیا جاتا، جبکہ
- تیسرا اہم سبب یہ ہے کہ اگر ان کے بچے اسکول چلے جائیں تو غبارے بیچ کر سو پچاس روپے کون کمائے گا؟ کیونکہ باپ کو تو کمائی کی عادت نہیں۔
یہ اپنے آپ کو راجپوت قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمارے بڑے راجستھان سے آئے تھے، تقسیم کے بعد جو جہاں تھا وہیں رہ گیا۔
ضلع سانگھڑ کے علاقے بھٹ بھائٹی میں ان کا ایک قبرستان ہے۔ آس پاس کے اضلاع میں اگر کسی گرگلے مرد یا خاتون کی موت ہوجائے تو وہ اس کی میت اسی قبرستان میں لے آتے ہیں اور وہیں تدفین کرتے ہیں۔
خانہ بدوشوں پر کام کرنے والے مصنف خالد جوگی بتاتے ہیں کہ 'گرگلے اپنے مہاراج کی میت کو جلاتے ہیں جبکہ باقی عام گرگلوں کی تدفین ہوتی ہے'۔ پارو گرگلو کے مطابق ’ہمارے ہاں اگر کوئی مرجائے تو ہم اس کی میت کو ٹنڈوالہیار کے قریب خواجہ اسٹاپ کے پاس واقع اپنے قبرستان لے جاکر دفن کرتے ہیں‘۔
خالد جوگی کے مطابق ’گرگلے اپنی بیٹی کو جہیز میں اور کچھ دیں نہ دیں لیکن ایک اچھی نسل کا کتا ضرور دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ شکاری کتوں کے بڑے شوقین ہوتے ہیں، اور وہ سور کا شکار اپنے کتوں کی مدد سے ہی کرتے ہیں‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’وہ سور کا شکار کرنے کے بعد اس کا گوشت خشک کرکے رکھ دیتے ہیں اور رات کو ٹھرا (کچی شراب) پینے کے بعد اس کو فرائی کرکے کھاتے ہیں‘۔
ان کی بھیک مانگتی خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی روزمرہ کے مسائل ہیں۔ پاکستان کے صوبے سندھ کے ٹنڈوالہیار، سانگھڑ، میرپورخاص، مٹھی، عمر کوٹ، بدین اور دیگر اضلاع میں بھٹکتے یہ لوگ ریاستِ پاکستان کی توجہ کے محتاج ہیں، کیونکہ یہ لوگ تبدیلی کے لیے تیار نہیں، ان کے ذہنوں کی کھڑکیوں پر لگے تالے زنگ آلود ہوچکے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں وہ باقی معاملات سے کوسوں دُور ہیں لیکن ان کی جُھگیوں کے باہر ہمیں ڈش لگی ضرور نظر آتی ہیں۔ چارپائی ٹھیک ہو نہ ہو لیکن ٹی وی وہ ضرور دیکھتے ہیں۔
سندھ حکومت اگر ان ہزاروں لوگوں کو کسی بھی علاقے میں زمین فراہم کردے اور وہاں صحت اور تعلیم کا بندوبست کرے تو معاشرے سے الگ تھلگ قابلِ نفرت بنے ہوئے ان بھٹکتے ہوئے لوگوں کو ایک اچھے سماج کا حصہ ضرور بنایا جاسکتا ہے۔
عمرکوٹ میں رانا چندر سنگھ نے خانہ بدوش جوگیوں کو زمین دے کر آباد کردیا تھا، اب تو اس کالونی میں جوگی بازار بھی ہے اور اسکول بھی، اگر گرگلوں کو بھی اس طرح آباد کیا جائے تو یہ ہمارے سماج میں کارآمد ہوسکتے ہیں۔
عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@
تبصرے (6) بند ہیں