نیب کے اختیارات کو محدود کرنے والا آرڈیننس غیرمؤثر ہوگیا
قومی احتساب بیورو (نیب) کو کاروباری حضرات، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے خلاف کارروائی سے باز رکھنے کے لیے لایا گیا اہم آرڈیننس 120 روز کی آئینی مدت مکمل ہونے پر غیر مؤثر ہوگیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے قانونی اور ٹیکنیکل مسائل سے بچنے کے لیے نیا آرڈیننس لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس معاملے پر ایک اجلاس کی صدارت کے بعد ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں نیا آرڈیننس لانے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، مشیر پارلیمانی امور بابراعوان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر بھی شریک تھے۔
مزیدپڑھیں:نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کا نوٹی فکیشن جاری
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنی ٹوئٹ میں پہلے یہ دعویٰ کیا کہ نیب آرڈیننس کے حوالے سے اجلاس میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا جبکہ اسی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ترمیم کرکے آرڈیننس لایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'نیب آرڈیننس کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس ہوا ہے، ابھی تک آرڈیننس کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچے، اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینےکا فیصلہ کیا ہے، اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نیب کے حوالے سے ترمیم شدہ آرڈیننس جاری کیا جائے گا'۔
وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ برس دسمبر میں متعارف کروایا گیا نیب آرڈیننس ایک ایسے وقت میں غیر مؤثر ہوگیا ہے جب کورونا وائرس کے باعث قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس نہیں ہورہے ہیں۔
یاد ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے 28 دسمبر 2019 کو نیب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد یہ قانون بن گیا تھا اور اس حوالے سے نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا تھا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اس کو قومی احتساب دوسرا ترمیمی آرڈیننس 2019 کا نام دیا گیا تھا جس کو ناقدین نے کاروباری شخصیات، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے لیے تمام این آر اوز کی ماں قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:نیب ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج
اپوزیشن جماعتوں نے بھی شروع میں حکومت کے اس فیصلے کو تحریک انصاف کا یوٹرن قرار دیتے ہوئے کافی تنقید کی تھی لیکن بعد میں نہ صرف حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہوئے بلکہ چند سیاست دانوں نے فائدہ بھی اٹھایا۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے اسپیکر کی زیر صدارت اجلاس میں شریک ایک رکن کا کہنا تھا کہ نیا آرڈیننس لانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ حکومت اس آرڈیننس کو دوبارہ پیش نہیں کرسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت کسی بھی آرڈیننس کو صرف ایک مرتبہ پارلیمنٹ میں قرار داد کے ذریعے توسیع دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے بل کی صورت میں آرڈیننس پہلے ہی پارلیمنٹ میں جمع کرادیا ہے اور قائمہ کمیٹی کے پاس ہے۔
اجلاس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ نیب قانون میں تبدیلی کے لیے اپوزیشن کی جانب سے دی گئیں تجاویز کو بھی اس نئے قانون میں شامل کرلیا جائے گا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی کو اس معاملے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ پارٹی کے متعدد اراکین کا خیال ہے کہ پارٹی نے بلاامتیاز احتساب کے بنیادی نعرے پر سمجھوتہ کرلیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیا قانون بناتے وقت پارٹی کے منشور کو بھی مدنظر رکھا جائے گا اور ایسی کوئی شق شامل نہیں کی جائے گی جس سے نیب ناکارہ ادارہ بن کر رہ جائے۔
مزید پڑھیں:نیب ترمیمی آرڈیننس کا دفاع، 'جموریت میں سیاسی مشاورت سے چلنا ہوتا ہے'
دوسری جانب سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کیے بغیر ایک اور آرڈیننس لارہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اس معاملے پر گزشتہ 3 ماہ کے دوران اپوزیشن سے کوئی مشاورت نہیں کی۔
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 'حکومت مکمل آئینی خلا میں کام کررہی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس نیا قانون لانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ اس آرڈیننس کو آئین کے مطابق دوبارہ نافذ نہیں کیا جاسکتا لیکن نیا قانون لانے میں بھی حکومت کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ کی آبزرویشن بھی آچکی ہیں۔
پی پی پی سینیٹر نے کہا کہ نیب قانون کی تبدیلی کے معاملے پر کئی اجلاس ہوئے تھے اور ڈرافٹ بھی دیا گیا تھا لیکن حکومت نے اپوزیشن کی تجاویز پر کوئی جواب نہیں دیا۔