امدادی کاموں میں خواجہ سرا شاید نظر انداز ہوگئے
'میں بچپن سے ہی دُکھ دیکھ رہی ہوں۔ والدین اور بہن بھائیوں کو چھوڑنے کا دُکھ، تعلیم حاصل نہ کرنے کا دُکھ، زندگی کے ایک مذاق بننے کا دکھ، لیکن گزشتہ ایک ماہ اتنا بھیانک گزرا ہے کہ مجھے پُرانے سارے دکھ ہی بھول گئے ہیں،' خواجہ سرا سمیرا نم آنکھوں کے ساتھ مخاطب تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں کو واپس چلی جائیں، اگر باہر نکلیں تو تھانے میں بند کردیا جائے گا۔
پہلے پہل تو سمیرا اور ان کی دیگر ساتھیوں نے اس بات کو سنجیدہ نہ لیا لیکن جب لاک ڈاؤن شروع ہوا اور پورا شہر بند ہوگیا تو معاملے کی نزاکت سمجھ آئی۔
'ہم تو روزانہ کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ شہر بند ہوا تو 2، 4 روز میں سب راشن ختم ہوگیا۔ اب گھر میں بیٹھیں تو بھوک اور باہر نکلیں تو پولیس ستاتی ہے۔ مجھے اس مشکل میں اپنے والدین بہت یاد آئے۔ میں بہت روئی،' وہ دھیمے انداز میں اپنی بات کہے جا رہی تھیں۔
وہ اسلام آباد میں ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع وزیرِاعظم اور صدر کی رہائش گاہ کے عقب میں موجود دربار بری امام سے متصل آباد کچی بستی میں رہتی ہیں۔
پانی, گیس اور نکاسی آب کی بنیادی سہولیات سے محروم اس آبادی کے زیادہ تر مکانات کم لاگتی پناہ گاہیں ہیں۔ کم کرایوں، شہر کے قریب ہونے اور ہمہ وقت لنگر کی شکل میں مفت خوراک کی دستیابی کے باعث اس علاقے کی آبادی گزشتہ چند سالوں میں بے تحاشا پھیل گئی ہے۔
اس بستی کی تنگ و پیچیدہ گلیوں میں خواجہ سرا بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا گزر بسر بھیک مانگنے اور شادی بیاہ پر ناچ گانے سے ہوتا ہے۔ کچھ جسم فروشی بھی کرتے ہیں۔ مفلسی کی لکیر سے کہیں نیچے بسنے والوں میں شاذ ہی کوئی خواجہ سرا کسی کاروبار یا ملازمت سے منسلک ہو۔
لاک ڈاؤن کے بعد شہر کے دوسرے حصوں کی طرح اس علاقے کی بھی تمام دکانیں بند کردی گئیں۔ دربار اور اس سے ملحقہ لنگر خانہ بھی قریباً ایک ماہ سے بند ہے۔ ہمیشہ بھرے پرے رہنے والے اس بازار پر پابندی میں نرمی کے بعد بھی ہُو کا عالم ہے۔ چوک کے ساتھ ہی سڑک کنارے دکانوں کے عقب میں ایک تنگ و تاریک کمرے میں خواجہ سرا سمیرا کی رہائش ہے۔ اس گلی میں کئی اور خواجہ سرا بھی رہتے ہیں۔
جولی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب ہی پریشانی کا شکار ہیں لیکن پہلے سے ہی تنہائی کا شکار خواجہ سرا مزید تنہا ہوگئے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ عام طور پر ماں باپ بھی کسی جنسی نقص یا منفرد جنسی رجحان رکھنے والے بچے کو قبول نہیں کرتے۔ اسے کسی عمر رسیدہ خواجہ سرا کے پاس چھوڑ دیا جاتا ہے۔
'پھر وہ ہی ان کی پرورش کرتا ہے۔ کم وسائل کی وجہ سے بہت ہی کم خواجہ سرا تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔ جو پڑھ لکھ جائیں تو انہیں روزگار نہیں ملتا۔ مجبوراً کچھ بھیک مانگنے لگتے ہیں۔ کئی ناچ گانے کو پیشہ بنالیتے ہیں۔ کچھ جسم فروشی کرنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی خواجہ سرا نہیں چاہتا کہ وہ ڈانسر یا جسم فروش بنے، لیکن معاشرہ ان 3 پیشوں کے علاوہ انہیں کسی چوتھے روپ میں دیکھنا نہیں چاہتا۔ یہ ہمارا معاشرہ ہی ہے جو انہیں اس جانب دھکیل دیتا ہے۔'
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جولی خود گریجویٹ ہیں اور طویل عرصے سے بے روزگار ہیں۔
اس بستی کی ایک اور رہائشی خواجہ سرا 'ف' کہتی ہیں کہ وہ اتنی مجبور ہیں کہ سماجی دُوری کے وقت میں بھی جسم فروشی کرتی ہیں۔
'اپنا جسم بیچنا ایسے ہی ہے جیسے کسی زندہ انسان کو گدھ کے آگے ڈال دیا جائے اور وہ اسے بھنبھوڑے'، ف بولیں۔ ان کا ماننا تھا کہ جنسی ترجیحات مختلف ہونا ایک الگ بات ہے جبکہ جسم فروشی ایک بالکل مختلف عمل۔ کوئی انسان انتہائی مجبوری کے علاوہ یہ کام نہیں کرسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ وبا کے بعد بھی دھندہ کر رہی ہیں کیونکہ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔
بری امام چوک سے کافی آگے یونیورسٹی روڈ پر ایک گلی آبادی کو جاتی ہے۔ اس بل کھاتی گلی میں کافی آگے جاکر گنجان آبادی میں ایک نسبتاً کشادہ گھر ہے۔ یہ ندیم کشش نامی خواجہ سرا کا ڈیرہ ہے۔ کشش سماجی کاموں کی وجہ سے اپنی برادری میں کافی مقبول ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے خواجہ سرا بہت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جو ناچ گا کر پیٹ پالتے تھے، شادی بیاہ نہ ہونے کی وجہ سے کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے ہیں۔ کئی جو کرایہ نہ ادا کرسکے اپنے گھر چھوڑ کر اب کھولیوں میں آبسے ہیں۔
پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد کے حوالے سے کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ندیم کشش کے مطابق حکومت کے کاغذوں میں خواجہ سراؤں کی تعداد 10 ہزار ہے۔ نادرا میں 2200 افراد نے خود کو خواجہ سرا کے طور پر درج کروایا ہے، جبکہ ایڈز پر کام کرنے والے اداروں نے 75 ہزار خواجہ سراؤں کے ٹیسٹ کیے ہیں۔ کشش مصر ہیں کہ ملک میں خواجہ سراؤں کی اصل تعداد 5 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نادرا کارڈ بنوانے کی سہولت سے زیادہ تر غیر خواجہ سرا افراد نے فائدہ اٹھایا۔ جبکہ مستحقین کی اصل تعداد ابھی بھی شناختی کارڈ سے محروم ہے۔ کشش نے بتایا کہ امدای رقم غیر سرکاری تنظیمیں لے اڑتی ہیں اور خواجہ سرا کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔ وبا کے بعد کچھ مخیر حضرات نے مدد کی لیکن وہ طلب کے مقابلے میں بہت معمولی ہے۔
یہیں ہماری ملاقات شلپا سے ہوئی۔ چھریرے بدن والی طویل القامت شلپا ڈانسر ہیں۔ عام دنوں میں وہ 30 ہزار ماہانہ کما لیتی تھیں۔ 5 سے 6 ہزار روپے وہ فنکشن کا ایڈوانس لیتی تھیں جبکہ جتنی ’ویل‘ ملے ان کے بقول وہ ان کا نصیب۔ ویل اس رقم کو کہتے ہیں جو لوگ ناچنے کے دوران نچھاور کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ہفتے میں دو تین تقریبات مل جاتی ہیں۔ اگر کسی ہفتے کوئی فنکشن نہ ہو تو وہ ڈیرے پر ہی پارٹی رکھ لیتی تھیں۔ 27 سالہ شلپا نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے وہ اور ان کے دونوں ساتھی بھی بے روزگار ہیں۔ ناچنے کے پیشے سے وابستہ دوسرے سیکڑوں خواجہ سرا بھی گھر بیٹھے ہیں۔
اسی سڑک پر ایک کھولی نما کمرے میں نیلی رہتی ہیں۔ نیلی عمر کے اس حصے میں ہیں جس میں عام طور پر لوگ گھروں میں بیٹھ کر اولاد سے خدمت کرواتے ہیں۔ لیکن نیلی کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں۔ گزر بسر کے لیے وہ بھیک مانگتی ہیں۔
لاک ڈاؤن کے بعد چند دنوں تک انہوں نے خود کو گھر پر محصور رکھا مگر جب تنگ دستی بڑھ گئی تو وہ گھر سے نکلیں۔ سواری تو تھی نہیں۔ پیدل نکل پڑیں اور جاکے ایک کھلی دکان کے باہر کھڑی ہوگئیں۔
کچھ دیر میں پولیس کی گاڑی آئی اور انہیں تھانے لے گئی۔ کسی کو ترس آیا تو اس نے ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دیا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے نیلی آج بھی گھر سے نکلتی ہیں اور میلوں چلتی ہیں کہ ویگن ہے نہیں اور کورونا کے ڈر سے کوئی لفٹ دیتا نہیں۔
نیلی کے پاس سے اٹھا تو شام ہو چلی تھی۔ سنسان سڑک پر واپسی کے سفر میں میرے ذہن میں یہی بات چلتی رہی کہ کسی جسمانی نقص یا مختلف جنسی فطرت کے ساتھ پیدا ہونا قدرت کی مرضی ہے کسی انسان کی مرضی یا اس کا انتخاب تو نہیں ہے۔ خواجہ سرا بھی اتنے ہی انسان ہیں اور اتنے ہی محترم جتنا کہ آپ یا میں۔ وبا کے بعد سے بے شمار افراد اور تنظیمیں ضرورتمندوں کی مدد کر رہی ہیں لیکن اس امدادی کام میں شاید خواجہ سرا نظر انداز ہوگئے ہیں۔ اس بھول کو انفرادی اور ریاستی سطح پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔
ویڈیو و تصاویر: لکھاری
تبصرے (4) بند ہیں