’ہر تبلیغی کورونا کا مریض نہیں اور ہر مسلمان تبلیغی نہیں، بھارتی حکومت رویہ بدلے‘
بھارت میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد وہاں کی اقلیتوں کے ساتھ حکومت کے ناروا سلوک میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے اور جہاں یہ خبریں سامنے آئیں کہ ہندوستان میں کورونا سے متاثر ہر مذہب و فرقے، خاص طور پر مسلمانوں و کم ذات ہندوؤں کے لیے الگ قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔
وہیں تمام مسلمانوں کو تبلیغی قرار دے کر انہیں کورونا پھیلانے کے ذمہ دار بتانے کی حکومتی پالیسی میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے اور بھارتی میڈیا تقریباً ہر مسلمان کو تبلیغی اور ہر تبلیغی شخص کو کورونا کا مریض قرار دینے کی دوڑ میں ایک دوسرے آگے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ ایسے رویے کو دیکھتے ہوئے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین و ارکان نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو ایک کھلا خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ حکومت مسلمانوں سے متعلق اپنے رویے میں تبدیلی لائے اور میڈیا کو بھی اسلامو فوبیا سے روکا جائے۔
بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کے مطابق دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر نظر الاسلام اور اسی کمیشن کے ہندو رکن کرتار سنگھ کوچر نے مشترکہ طور پر ایک طویل خط لکھ کر مرکزی وزارت داخلہ امت شاہ اور تمام ریاستی وزارئے اعلیٰ کو بھجوادیا، جس میں انہوں نے کورونا وائرس کی آڑ میں اقلیتی لوگوں کو نشانہ بنانے پر حکومتی پالیسی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق اقلیتی کمیشن کی جانب سے لکھے گئے طویل خط میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو بتایا گیا ہے کہ پہلے تو جان لیں کہ ہر مسلمان تبلیغی نہیں ہے اور یہ بھی جان لیں کہ ہر تبلیغی کورونا وائرس کا مریض نہیں، اس لیے حکومتی ارکان اور میڈیا ہر مسلمان کو تبلیغی قرار دینے سےگریز کرے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ حکومتی اور بھارتی میڈیا کے رویے سے عام مسلمانوں کو مشکلات پیش آ رہی ہیں اور ہر کوئی انہیں ایک تبلیغی کے طور پر دیکھ رہا ہے جب کہ ہر صحت مند تبلیغی کو ہر کوئی کورونا کے مریض کے طور پر دیکھ رہا ہے، جس سے لاکھوں مسلمان پریشانی کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: تبلیغی جماعت میں شرکت والے 27 افراد میں کورونا کی تشخیص، 7 ہلاک
خط میں ایک ایسے تبلیغی رکن کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو کہ کورونا کا مریض نہیں تھا مگر تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے کے ناتے انہیں بھی وبا کا مریض سمجھا جانے لگا اور اسے طعنے دیے گئے جس وجہ سے اس نے خودکشی کرلی۔
اسی طرح خط میں نئی دہلی کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بھیڑ نے ایک ایسے نوجوان پر تشدد کیا جو کہ تبلیغی جماعت کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھوپال گیا تھا۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ بھارتی میڈیا کی جانب سے بھی ہر تبلیغی شخص کو کورونا کا مریض جب کہ ہر مسلمان کو تبلیغی قرار دیے جانے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور لاکھوں مسلمان مسائل کا شکار بن گئے۔
طویل خط میں حکومت کو سمجھایا گیا کہ حکام اور میڈیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بھارت میں رہنے والا ہر مسلمان تبلیغی جماعت سے وابستہ نہیں اور نہ ہی تبلیغی جماعت سے وابستہ ہر شخص کورونا کا شکار ہے۔
اقلیتی کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ کچھ تبلیغی جماعت کے رہنماؤں نے ابتدائی طور پر احتیاط نہیں کیا مگر یہ لاپرواہی صرف تبلیغی جماعت کے رہنماؤں نے نہیں بلکہ دیگر سیاسی و سماجی رہنماؤں اور تنظیموں نے بھی کی اور ایسی غفلت کرنے والے تمام افراد کے خلاف سخت ایکشن لینا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر اس کی آڑ میں عام مسلمان اور عام تبلیغی کو نشانہ بنانا درست نہیں۔
دہلی اقلیتی کمیشن کا مذکورہ خط ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ دہلی پولیس نے نظام الدین تبلیغی مرکز کے چیف محمد سعد قندھلوی کے خلاف ایک روز قبل اجتماعات پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں ان کے خلاف مجرمانہ قتل کے اقدامات کے تحت مقدمہ دائر کیا تھا۔
مزید پڑھیں: بھارت: حکومت کا تبلیغی جماعت کے ہر رکن کو قرنطینہ کرنے کا منصوبہ
دہلی کے نظام الدین تبلیغی مرکز کو پہلے ہی پولیس نے سیل کرتے ہوئے اس قرنطینہ سینٹر میں تبدیل کردیا ہے اور وہاں گزشتہ ماہ مارچ میں ہونے والے اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والے درجنوں ملکی و غیر ملکی تبلیغی افراد کو قرنطینہ کر رکھا ہے۔
اسی مرکز میں مارچ کے وسط میں ہونے والے اجتماع میں تقریبا 3400 افراد نے شرکت کی تھی اور نئی دہلی حکومت کے مطابق اسی مرکز کے 1100 کے قریب افراد میں کورونا کی تشخیص ہو چکی ہے۔
اسی اجلاس میں شرکت کرنے والے درجنوں افراد اجتماع ختم ہونے کے بعد مختلف ریاستوں میں چلے گئے تھے، جہاں پر کچھ افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی تھی، تاہم بھارتی حکومت پر الزامات ہیں کہ وہ تبلیغی جماعت کے ارکان کے حوالے سے نفرت پھیلا رہی ہے۔
بھارت میں جہاں مسلمانوں کی جانب سے تبلیغی اجتماعات دیکھنے میں آئے، وہیں ہندو مذہب کے پیروکاروں کی جانب سے بھی پابندی کے باوجود کئی بڑے اجتماعات دیکھنے میں آئے اور وہاں پر ایک ہندو مذہبی گرو کی کورونا سے موت بھی ہوگئی، تاہم اس باوجود وہاں ہندو مذہبی افراد کے حوالے سے اتنی سنسنی نہیں دیکھی جا رہی۔
بھارت میں 17 اپریل کی صبح تک کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ کر 14 ہزار کے قریب جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 450 تک جا پہنچی تھیں۔