بُک ریویو: ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر
’ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر‘، اصغر ندیم سید کا اوّلین ناول ہے جو ایک مٹتے ہوئے شہر کی داستان رقم کرتا ہے۔ ناول میں بیان کیے گئے مختلف حوالوں سے یہ بات واضح ہے کہ یہ شہر ملتان کا احوال ہے۔
ناول کی کہانی شہر کے قدیمی گھرانوں، خانقاہوں کے وارثوں، جاگیردار خانوادوں کی ذاتی زندگیوں کے قصے بیان اور شہر کی روایات و ثقافت کے ہمہ جہت پہلو آشکار کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ کہانی کے کرداروں کی باہمی جڑت، سماجی طاقت اور جنسی تعلقات کے اس باہمی تال میل پر رواں ہے جن پر اس معاشرے کی بنیادیں استوار ہیں۔
تقدیس اور تحریص کا ایک دوسرے کو قوت دیتا ہوا تعلق اس ناول کے کرداروں اور واقعات کی سب سے مضبوط لڑی ہے۔ اسی لڑی کے گرد بدلتی ہوئی سماجی اور معاشی زندگی، اخلاقی اقدار، طاقت کے بدلتے توازن، اور پُراسراریت کی تہیں بند ہوتی اور کُھلتی ہیں۔
شہری زندگی سے جڑی ہوئی مگر متوازی چلتی ہوئی روہی کی صحرائی زندگی بھی اس کہانی کا ایک اہم جزو ہے۔ سرائیکی سماج، شاعری اور داستانوں میں روہی اور چولستان کا علاقہ ایک قدیم استار اور رومانس کا استعارہ رہا ہے۔
خواجہ غلام فرید کی بہت سی کافیوں میں اسی علاقے کے موسموں، پیلو چننے کے گیت اور نازک حسیناؤں کے ذکر سے عبارت ہے۔ یزمان سے آگے پھیلے ہوئے صحرا اور آبادیوں میں سرگوشیاں کرتی ہوئی خاموشی اور اس کے پہلو بہ پہلو وقوع پذیر ہوتے میلوں اور ان میں جنم لیتی کہانیاں ان استعاروں سے بیان ہوتی ہیں جو اس علاقے کے لوگوں میں سینہ بسینہ وقت کے دھاروں پر رواں دواں رہے ہیں۔ اور لوگ کبھی ان سے غافل نہیں ہوتے۔ ناول میں ان داستانوں کو بہت خوبصورتی سے سمویا ہے اور انہیں کہانی کے مرکزی بیان کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اردو ناولوں میں گمشدہ تہذیبوں اور مٹتی ہوئی بستیوں کی کہانی ایک مقبول موضوع رہا ہے۔ نوآبادیاتی نظام اور اس کے بعد تیز رفتار سائنسی ترقی اور معاشی ترقی کے اثرات نے جس طرح قدیم اور ٹھہرے ہوئے معاشروں، شہروں اور تمدن کے مراکز پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر انہی اقدار کا احوال بیان کرتا ہے۔ ناول کی کہانی ملتان، بہاولپور اور اس کے گرد و نواح کی بستیوں کی خانقاہی زندگی کے گرد رواں دواں معاشرت کی رنگا رنگ پرتیں کھولتا ہے۔
قرةالعین نے گردش رنگ چمن میں ایسی ہی زوال پذیر سماجی تہذیب کی کہانی کو بیان کیا ہے جو ایک جاگیردار سماج کے ایک تغیر پذیر معاشرتی تبدیلیوں سے شکست اور پسپائی کو بیان کرتی ہے۔ تاہم ان ناولوں میں کہانی کو تاریخ میں رونما ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ ’ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر‘ میں کہانی کو مختلف قصوں کے گمنام کرداروں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔
ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر میں کہانی کا بہاؤ یک رخہ نہیں ہے، بلکہ بیان کرنے والے کے اپنے انداز میں مختلف اطراف میں بہتا ہوا مرکزی خیال کے خدوخال کو عیاں کرتا ہے۔ ناول کی کہانی ایک خط مستقیم میں نہیں چلتی بلکہ کہانی کو مختلف قصوں کو ملا کر ایک کولاج کی صورت میں ایک تاثر تخلیق کیا گیا ہے۔
یہ تاثر اس علاقے کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو ایک زوال آمادہ معاشرے کی تیز رفتار اور مؤثر اور جدید سماجی تبدیلی کو جذب کرنے یا اس کے ساتھ چلنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ سماجی تغیر سے نبرد آزما ہونے کی بے نتیجہ اور ناکام جنگ میں اس تہذیب کا کھوکھلا پن عیاں ہوتا ہے۔
کہانی کے مختلف اجزا الگ الگ مگر باہم مربوط انداز میں اس کہانی کو بیان کرتے ہیں۔ ناول کی کہانی 2 مختلف دائروں میں گھومتی ہے جو ہر دم ایک دوسرے میں پیوست اور الگ الگ متحرک رہتے ہیں۔ ایک دائرہ جاگیر دار اور خانقاہی سماج میں طاقت اور اقتدار رکھنے والے خاندانوں کا ہے جس میں زیادہ تر مردانہ کردار اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے ہمہ وقت سازشوں میں گِھرے رہتے ہیں یا سازشوں کے جال بچھا رہے ہوتے ہیں۔
کہانی کا دوسرا دائرہ عورتوں کا ہے، جو حرم سے جڑی ہوئی طاقت یا محرومی کی لکیروں سے عبارت ہے۔ انہی ان دیکھی اور پُراسرار راہداریوں میں بہت سی داستانوں کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق عمومی سماجی اور سیاسی طاقت سے جڑا ہوتا ہے۔ پورا ناول انہی 2 دائروں میں گھومتا ہے اور جہاں یہ 2 دائرے ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں وہیں ناول کی کہانیاں اپنے ڈرامائی موڑ پر پہنچتی ہیں۔
کہانیوں کا راوی امام بخش ہے۔ جاگیردار اور خانقاہی سماج میں ایسے کردار خاص طور پر اہم رہتے ہیں جن کی رسائی اہلِ حکم اور اہلِ حرم تک باآسانی ہوتی ہے اور وہ ان تمام رازوں اور کہانیوں کے امین ہوتے ہیں جن کے اردگرد بظاہر تقدیس اور اعلیٰ روایات اور اقدار کی چادر تنی ہوتی ہے۔
کہانی قصہ گوئی کی روایت میں کہی گئی ہے جس میں ایک کردار امام بخش دوستوں کی منڈلی میں بیٹھا ایک زوال پذیر سماج کے اہم کرداروں کی اندرونی زندگی عیاں کررہا ہوتا ہے۔ بہت سی باتیں وہ کہہ دیتا ہے جبکہ بہت سی باتیں وہ سننے والوں کی تصور گری کی آزمائش کے لیے ان کہی چھوڑ دیتا ہے۔
اصغر ندیم سید کا تعلق بھی ملتان سے ہے۔ وہیں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر تدریس کا شعبہ اختیار کیا۔ بعدازاں وہ لاہور آگئے۔ ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھے۔ یہ ان کا پہلا ناول ہے۔ جس زمانے میں ناول نگار کا بچپن اور جوانی کا زمانہ ملتان میں گزرا، یہ ناول اسی عہد کی علمی، ادبی اور فکری محفلوں میں زیرِ بحث مسائل اور بدلتے ہوئے سماج میں مختلف گھرانوں سے وابستہ اہم کرداروں سے جڑے قصوں کو بیان کرتا ہے۔
اردو ناولوں میں گمشدہ تہذیبوں اور مٹتی ہوئی بستیوں کی کہانی ایک مقبول موضوع رہا ہے۔ وادئ سندھ کی تہذیب، شراوستی اور پاٹلی پتر کا بیان، لکھنؤ اور بنگال کی سرزمینوں کا حال قرةالعین حیدر نے خوب بیان کیا ہے۔
اسی طرح مستنصر حسیں تارڑ نے بہاؤ اور خس و خاشاک زمانے میں وادئ سندھ کی تہذیب کو موضوع بنایا ہے۔ اختر رضا سلیمی کے ناول جو جاگے ہیں خواب میں پوٹھوہار اور گندھارا تہذیب کو موضوع بنایا گیا ہے۔
نوآبادیاتی نظام اور اس کے بعد تیز رفتار سائنسی ترقی اور معاشی ترقی کے اثرات نے جس طرح قدیم اور ٹھہرے ہوئے معاشروں، شہروں اور تمدن کے مراکز پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر انہی اقدار کا احوال بیان کرتا ہے۔
ناول: ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر
مصنف: اصغر ندیم سید
پبلشر: سنگ میل پبلشرز، لاہور