• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

کورونا وائرس کے بعد کی معیشت: خدشات اور امکانات

ہمارے لیے بہتر یہی ہوتا کہ یا تو سوئیڈن کا فارمولہ اپنا لیتے یا ووہان کا مگر ہم نے 100 پیاز بھی کھائے اور 100 جوتے بھی۔
شائع April 16, 2020

اقتصادی ماہرین کی نظر میں کورونا وائرس کی موجودہ وبا جنگِ عظیم دوم کے بعد معاشی بحران کا سب سے بڑا سبب بنے گی۔ سوال یہ نہیں کہ معاشی بحران آئے گا یا نہیں، سوال یہ ہے کہ اس کا دورانیہ کتنا ہوگا اور یہ کتنی گہرائی میں جاکر کسی بھی ملک کی معیشت کو جڑوں سے کھوکھلا کرے گا۔

کورونا وائرس کی معاشی تباہ کاریوں کا آغاز جنوری 2020ء سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ دسمبر کے اواخر میں ووہان سے پھوٹنے والی اس وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے عالمی مصنوعات اور خام مال کی فراہمی کو شدید دھچکا پہنچایا۔

انسان سے دوسرے انسانوں کو منتقل ہوجانے کے پیشِ نظر کئی عالمی کانفرنسیں اور ایکسپو منسوخ یا ملتوی کرنے پڑے۔

اسپین کے شہر بارسلونا میں منعقد ہونے والا موبائل کی دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ موبائل ورلڈ کانگریس (MWC) میں منعقد نہیں ہوسکا۔ یاد رہے کہ صرف یہ ایک کانفرنس سے بارسلونا کا شہر 492 ملین پاؤنڈز کماتا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں اور 14 ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ صرف ایک بندے کی کانفرنس رجسٹریشن 872 ڈالر میں ہوتی ہے۔

موبائل ورلڈ کانگریس کی منسوخی کے بعد تو جیسے لائن ہی لگ گئی۔ فیس بک کی F8 کانفرنس ہو یا مائیکرو سافٹ کی Build کانفرنس، ایپل کی WWDC کانفرنس ہو یا گوگل ا/و، دبئی ورلڈ ایکسپو ہو یا 4 سال بعد منعقد ہونے والے ٹوکیو اولمپکس یا ٹیکنالوجی کی دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ ساؤتھ بائے ساؤتھ ویسٹ (SXSW)، سب منسوخ یا ملتوی کردیے گئے۔

صرف SXSW کی وجہ سے آسٹن شہر کو 330 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور اولمپکس کی صرف ٹکٹ کی واپسی کی ادائیگی کے لیے 850 ملین ڈالرز چاہئیں۔ اشتہاروں سے ملنے والے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کا نقصان الگ اور برانڈز کے 700 گھنٹوں سے زائد کے اشتہارات کی پروگرامنگ بیکار ٹھہری۔

گزشتہ 3 ماہ میں صرف ان ایونٹس کے منسوخ ہوجانے کی وجہ سے تقریباً 2 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔

بہت سی انڈسٹریز تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ ایئر لائنز کی 95 فیصد بکنگ کم ہوگئی ہیں۔ ڈزنی ورلڈ اور تھیم پارکس بند پڑے ہیں۔ ہولی وڈ اور فلم انڈسٹری میں اُلّو بول رہے ہیں۔ صحت اور میک اپ میں 25 فیصد زوال آیا ہے۔ انٹرٹینمنٹ میں 22 فیصد، ریسٹورنٹ میں 30 فیصد، ٹرانسپورٹ کے بزنس میں 45 فیصد، شاپنگ میں 60 فیصد، کرائے کی گاڑیوں میں 80 فیصد، معدودے چند کاروبار کے ہر کاروبار پر بحران آچکا ہے۔ خام تیل کی قیمتیں 70 ڈالر فی بیرل سے کم ہوکر 18 ڈالر تک آچکی ہیں، کیونکہ جہازوں اور گاڑیوں کے نہ چلنے کی وجہ سے کھپت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

دنیا بھر میں اسٹاک مارکیٹیں نقصان کا شکار ہیں۔ ہر وہ کاروبار یا سروس جس میں گاہک سے بالمشافہ معاملہ ہوتا تھا وہ زوال کا شکار ہے. حجام کی دکان سے لے کر مووی تھیٹرز تک اور شاپنگ مالز سے لے کر پھول بیچنے تک۔ ایک جہاز جسے ہینگر میں کھڑا کرنا ہو تاکہ بوقت ضرورت اُڑ سکے، اس پر کم از کم 400 انسانی گھنٹے لگتے ہیں۔

ایک ساتھ کوئی بھی معیشت اتنا زیادہ نقصان برداشت نہیں کر سکتی۔ کاروبار میں زوال آئے گا تو لوگ نوکریوں سے نکالے جائیں گے، نوکریاں نہیں ہوں گی تو لوگ بینکوں کی قسطیں نہیں بھر سکیں گے اور راشن اور دوسرے اخراجات، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی، گاڑی اور گھر کی قسطیں نہیں دے سکیں گے اور اس طرح ایک نہ ختم ہونے والا معاشی چکر چل جائے گا جس میں غربت، وبا سے زیادہ تیزی کے ساتھ لوگوں کو متاثر کرتی چلی جائے گی۔ میں چونکہ خود امریکا میں مقیم ہوں اس لیے آنکھوں دیکھا حال بتارہا ہوں کہ یہاں ایک ماہ میں ایک کروڑ لوگوں نے بے روزگاری کے وظیفے کے لیے فارم جمع کروائے ہیں جو 1987ء کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔

خاموش اور لوگوں سے خالی ایک برطانوی ایئرپورٹ—رائٹرز
خاموش اور لوگوں سے خالی ایک برطانوی ایئرپورٹ—رائٹرز

کچھ کاروبار جن کا دارومدار آن لائن بزنس پر تھا اس میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً اسکول کی بندش کے باعث تمام تر کلاسز آن لائن ہو رہی ہیں۔ اسی طرح آن لائن خریداری، گروسری شاپنگ، ویڈیو گیمز، ای بکس، فوڈ ڈیلیوری، بیکنگ کا سامان، بال کاٹنے کا سامان اور گھر میں ہوم آفس بنانے کے لیے کمپیوٹر ڈیسک ان سب کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آن لائن ویڈیو کی Apps مثلاً Zoom ،Skype گوگل ویڈیو انٹرنیٹ اور کلاؤڈ کا بزنس آسمان کو چُھو رہا ہے۔ یہاں امریکا میں ایمازون اور انسٹاکارٹ مسلسل لوگوں کو نوکریاں دے رہے ہیں مگر مانگ ختم ہی نہیں ہو رہی۔

مضبوط معاشی نظام اور بااصول معاشرے کسی بھی قوم کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اور یہ بات ترقی یافتہ ممالک اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے بہت بڑی معاشی آسانی کے پیکیجز کا اعلان کیا تاکہ عوام ایک خاص حد تک اپنی روزمرہ کی معمول کی زندگی گزار سکیں۔ گھر کا کرایہ، بینکوں کی اقساط، گروسری کی خریداری اور اسکول کی فیس دے سکیں۔

جاپان نے ایک کھرب ڈالر کا Stimulus پیکج نکالا تو امریکا نے 2 کھرب 20 ارب ڈالرز پر مبنی دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا پیکج کا اعلان کیا جس میں ہر اس بالغ فرد کو 1200 ڈالر کیش ملیں گے جس نے ٹیکس دیا ہو اور 16 سال سے کم عمر بچوں کو 500 ڈالر فی کس دیے جائیں گے۔

اگر آپ کی کمپنی میں 500 سے کم ملازم ہیں تو آپ قرضے کے لیے اپلائی کرسکتے ہیں اور اگر آپ اس ادھار سے صرف آنے والے مہینوں میں ملازمین کی تنخواہیں یا یوٹیلیٹی بلز بھریں گے تو یہ ادھار بھی مکمل طور پر معاف ہوجائے گا۔ پہلی قسط بھی 6 ماہ بعد ادا کرنی ہے۔

آئر لینڈ ہر شہری کو 1600 یورو ماہانہ دے رہا ہے اور اسپین یونیورسل بیسک انکم UBI کا پلان بنا رہا ہے۔ ویتنام نے غربا کے لیے چاولوں کی مفت ATM مشینیں لگا دی ہیں تو امریکا کی کچھ ریاستوں نے میڈیکل پروفیشنلز کو پیٹرول اور انٹرنیٹ مفت دینا شروع کردیا ہے۔

آئر لینڈ کی حکومت کسی شہری سے ان 3 ماہ کا یوٹیلیٹی بل بھی نہیں لے رہی۔ وہ اسے ایڈجسٹ کرکے آئندہ مہینوں میں دے سکتے ہیں تاکہ زندگی کی گاڑی چلتی رہے۔ کورونا وائرس سے بین الاقوامی معیشت کو کم از کم 6 کھرب ڈالرز کا نقصان پہنچے گا۔

پاکستان کی صورتحال

آپ نے وہ پیاز اور جوتوں کی کہانی تو سُنی ہوگی؟ ایک حاکم کسی مجرم کو سزا سناتا ہے کہ یا تو 100 جوتے کھاؤ یا پیاز۔ آدمی پیاز کھانا شروع کرتا ہے مگر 15، 20 کھانے کے بعد کہتا ہے اس میں تو بہت جلن ہے آپ جوتے ہی مار دیں۔ 15، 20 جوتوں کے بعد پھر پیاز اور یوں وہ 100 جوتے بھی کھاتا ہے اور پیاز بھی۔

وبا کے پھیلنے کے درمیان معاشی استحکام کی باتیں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص جلتے گھر میں نیا فرنیچر ڈالنے کا مشورہ دے۔ ہم بحیثیت قوم نہ تو مکمل لاک ڈاؤن برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا صحت کا نظام سارے مریضوں کو سنبھالنے کا متحمل ہوسکتا ہے۔

اس پریشان کن صورتحال میں یا تو ہم سوئیڈن کا ماڈل اپنا لیتے اور کوئی لاک ڈاؤن نہیں کرتے، باشعور لوگ (جتنے بھی ہیں) اپنی حد تک اپنا بچاؤ خود کرتے اور معاشی سرگرمیاں جاری رہتیں یا ہم ووہان کا ماڈل اپناتے اور متاثرہ علاقے اور لوگوں کو مکمل لاک ڈاؤن اور قرنطینہ میں بھیج دیتے اور انہیں اشیائے خور و نوش مہیا کرتے کہ ایک بار اس وبا کا پھیلنے کا عمل رک جاتا تو معیشت کو جلد سنبھالا دیا جا سکتا۔

مگر ہم نے پیاز اور جوتے دونوں کھانے ہیں۔ ہم نے نام نہاد لاک ڈاؤن کیا۔ مسجدیں تو بند کردیں مگر سیاسی پارٹیاں، لوگوں کا میل جول سب چلتا رہا اور وائرس پھیلتا چلا گیا۔ کاروبار کے بند ہوجانے سے غربت اور معاشی بحران نے الگ سر اٹھالیا ہے۔

پاکستان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سالانہ 900 ملین ڈالر اور احساس پروگرام میں 200 ملین ڈالر ویسے ہی خرچ کر رہا ہے اور اب 12 ہزار فی کس الگ بانٹ رہا ہے جس کا فائدہ غریب لوگوں کو ضرور ہوگا مگر چھوٹے کاروبار اور کمپنیوں کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ہم لوگ بحیثیت قوم کامیاب لوگوں اور کاروبار سے نفرت کرتے ہیں. ہم بے گھر و بے آسرا لوگوں کو روٹی ضرور کھلا دیں گے مگر اگر کوئی کمپنی انہیں لوگوں کو نوکری دینے کی بات کرے تو اس کی مدد کبھی نہیں کریں گے۔ حسد و بغض کے اس رویے اور محدود جذباتی سوچ نے ہمیں آج یہ دن دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔

معاشی بحران کے اندازے

کسی بھی ناگہانی یا وبا کی صورت میں اس کے دُور رس نتائج کا تخمینہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ ہمیں ابھی تک کورونا وائرس کی ساخت اور کام کرنے کی صلاحیتوں کا مکمل ادراک نہیں ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ بظاہر صحت مند نظر آنے والے لوگ کس رفتار سے اور کیسے باقی لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ وائرس بچوں پر اثر انداز کیوں نہیں ہوتا اور کس رفتار سے پھیل رہا ہے۔ مزید اس کی وجہ سے حکومتیں جو اقدامات اٹھا رہی ہیں ان کا اثر کیا نکلے گا اور لوگ اور کاروبار کیا ردِعمل دیں گے؟

اقتصادی ماہرین بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات کسی بھی ملک کی معیشت کو 3 طرح سے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

  • اوّل ان کا اثر براہِ راست سرمایہ دار طبقہ کے اعتماد پر ہوتا ہے اور وہ ملکی معیشت میں سرمایہ لگانا چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی نئے منصوبے شروع نہیں کرتے بلکہ پہلے سے موجودہ منصوبہ جات کو بھی مختصر کر دیتے ہیں۔
  • دوسرے طریقے میں اس کا بالواسطہ اثر عام آدمی کے اعتماد اور مزید کمانے کی امید پر پڑتا ہے اور وہ صرف انتہائی ضروریاتِ زندگی کے سوا ہر قسم کے خرچ سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور
  • تیسری طرح کا اثر براہِ راست اشیا اور افرادی قوت کی سپلائی پر پڑتا ہے۔ اگر آپ کے پاس خام مال نہیں ہوگا یا اس سے بنائے جانے والی مصنوعات کے لیے افرادی قوت نہیں ہوگی تو مصنوعات مارکیٹ تک نہیں پہنچیں گی اور آپ گاہک کی ڈیمانڈ کو پورا نہیں کرسکیں گے۔ چین دنیا کی ایک تہائی مینو فیکچرنگ ضروریات کو پورا کرتا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بھی ہے۔

ان تینوں طریقوں سے ملکی معیشت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اسے شاک جیومیٹری کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اقتصادی شاک یا تو V کی شکل کا ہوگا یا U یا پھر L کی شکل کا۔

تصویر نمبر ایک

V-Shape کی صورت میں کاروباری سرگرمیاں ایک مختصر مدت (معاشی بحران) کے لیے بہت کم ہوجاتی ہیں مگر جیسے ہی بحران ختم ہوتا ہے (مثلاً وبا کا ختم ہوجانا یا ویکسین کی فراہمی) تو مارکیٹ پھر سے اپنی پہلی پوزیشن یا اس سے بھی مستحکم پوزیشن پر واپس لوٹ جاتی ہے۔

کورونا وائرس کے معاشی نقصان کی شکل بھی کچھ اس طرح کی بنتی نظر آرہی ہے کہ لوگ اور سرمایہ دار کچھ مہینوں کے لیے اپنے منصوبے اور اخراجات کو روک لیں گے مگر اس سے کوئی اتنا زیادہ مستقل نقصان نہیں ہوگا۔ 1918ء کے ایشین فلو، 1968ء کے ہانگ کانگ فلو، 2003ء کے SARS اور 2008ء کے معاشی بحران کے بعد بھی معیشت نے V-shape بنایا تھا۔ ہر ملک میں اس کا دورانیہ اور شدت مختلف ہوسکتی ہے مگر شکل اس سے ملتی جلتی ہی بنے گی۔

تصویر نمبر دو

U-Shape بحران کی صورت میں معیشت کو بحران سے پہلے والی صورت میں آنے تک کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ وہ بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ اقتصادی ماہرین ترقی پذیر ملکوں میں کورونا وائرس کے بعد کی معیشت کو ایسے ہی دیکھتے ہیں اس صورت میں کچھ معاشی آؤٹ پٹ کا مستقل نقصان ہوجاتا ہے۔

تصویر نمبر تین

L-Shape سب سے بُرا Shape ہے جس میں ملکی معیشت ایک طویل عرصے تک بحران کا شکار رہتی ہے۔ معیشت میں کئی جگہ Structural damage آجاتا ہے۔ سپلائی چین، افرادی قوت، سرمایہ کاری، لیبر مارکیٹ، پیداواری صلاحیت سب انحطاط کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس کا دورانیہ کچھ ماہ سے بڑھ کر کئی سالوں تک چلا جاتا ہے اور یہ Recession سے ڈیپریشن بن جاتا ہے جیسے کہ 1918ء کے اسپینش فلو کے بعد کوئی 10 سال تک گریٹ ڈپریشن چلتا رہا۔

یہاں اس بات کو یاد رکھیں کہ ایک ہی مصیبت یا بحران کا نتیجہ مختلف ممالک میں مختلف ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر 2008ء کے معاشی بحران کے بعد کینیڈا میں معاشی صورتحال V-Shape بنی کہ وہاں کے بینک اس سے متاثر نہیں ہوسکے۔ امریکا میں U-Shape سے نکلتے نکلتے 2 سال لگے تو یونان میں L-Shape کہ وہ آج تک اس بحران کی سنگینی سے باہر نہیں آسکا۔

امید کی کرن

مصیبتیں، ناگہانی آفات اور وبائیں انسانوں کے لیے آزمائش ہوتی ہیں۔ کوئی ان سے کندن کی طرح سنور کے نکلتا ہے، کوئی بس گزارہ کرتا ہے تو کوئی اور مصیبتوں اور گمراہی میں گرجاتا ہے۔ اس بات کو سمجھ جائیں کہ رزق تو انسان کے نصیب میں لکھا ہوا ہے۔ یعنی کیڑے کو پتھر میں رزق مل جاتا ہے تو آپ کو قرنطینہ میں بھی آپ کے نصیب کا رزق ضرور مل جائے گا۔ بس آپ تعمیری سوچ رکھیں۔

1887ء کی امریکن سول وار کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا کو صیغہ واحد میں لکھا جانے لگا تو United States are سے United States is بن گیا۔ اس آفت نے پورے ملک کو ایک کردیا۔

1918ء کے اسپینش فلو کے بعد یورپ میں نیشنل ہیلتھ سروس NHS کی بنیاد پڑی۔ عالمی جنگِ عظیم دوم کے بعد سوشل ویلفیئر اسٹیٹ اور سوشل سیکیورٹی جیسے اداروں کو تقویت ملی۔ کورونا وائرس کے بعد افغانستان نے طالبان کے قیدی رہا کردیے۔ یمن میں جنگ بندی ہوگئی۔ ہمیں پوری امید ہے کہ دنیا اس وبا کے بعد پہلے سے بہتر ثابت ہوگی۔

1918ء کے فلو میں اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ متاثر ہوا تھا اور 5 کروڑ لوگ لقمہ اجل بنے۔ اس وقت صرف ریل گاڑی کا نظام تھا یا بحری جہازوں کا، 2 سال تک دنیا اس عفریت میں جکڑی رہی مگر اس کے باوجود شمالی الاسکا کے کچھ علاقوں اور ڈنمارک کے دارالحکومت کاپن ہیگن تک یہ وائرس نہیں پہنچ سکا۔ بہت ممکن ہے کے اس کے اثرات پاکستان میں باقی ملکوں سے قدرے مختلف رہیں.

VO Eugeno شمالی اٹلی کا ایک گاؤں ہے جہاں کورونا سے پہلی ہلاکت 21 فروری کو ہوئی مگر آج وہاں کوئی کیس نہیں ہے۔ کوئی 3 ماہ میں یہ وائرس ملک سے چلا جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلا کیس 27 فروری کو سامنے آیا۔ امید ہے مئی کے آخر تک یہ وبا بھی ہمارے ملک سے چلی جائے گی۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے اس دورانیے میں اس کی رفتار اندازوں سے کہیں زیادہ سست رہی۔ پاکستان میں روزانہ 4 ہزار 219 افراد طبعی موت مرتے ہیں۔ اس وبا سے ڈیڑھ ماہ میں 100 لوگ ہلاک ہوئے۔

صدقہ و خیرات میں ہم دنیا کی سب سے سخی قوم ہیں۔ امید ہے اس بار بھی ہم ایک قوم بن کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ ہر رات کے بعد ایک صبح ہے۔ 1918ء کے اسپینش فلو کے بعد بھی دنیا باقی رہی ہے، اس بار بھی اچھے کی ہی امید ہے۔

بس آپ تمام احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔ پیسوں کو احتیاط سے استعمال کریں اور اپنے محلے دار و عزیزواقارب کا خیال رکھیں۔ یہ کام اگر ہم کریں گے تو پوری امید ہے کہ ہم اس مشکل سے بھی نکل جائیں گے

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ اسکالر اور آئزن ہاور فیلو ہیں. آپ ایک مانے ہوئے ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں. ڈاکٹر عثمانی اب تک درجنوں کتابیں اور تحقیقی مقالات لکھ چکے ہیں. آپ پرنسٹن، نیو جرسی میں رہتے ہیں. [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔