نئے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا مشکل کیوں؟ جواب جان لیں
یہ تو کافی عرصے پہلے سائنسدان ثابت کرچکے ہیں کہ کورونا وائرس علامات ظاہر کیے بغیر بھی متاثرہ فرد سے دوسروں میں منتقل کرسکتا ہے۔
مگر اب چین کی جانب سے جاری ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ ایسے بیشتر مریض جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، وہ بیمار بھی نہیں ہوتے۔
چین نے پہلی بار ان افراد کا ڈیٹا جاری کیا ہے جن میں نئے نوول کورونا وائرس کی تشخیص بیماری کی علامات کے بغیر ہوئیں اور انکشاف کیا کہ ایسے مریضوں کی اکثریت میں کسی قسم کی علامات آخر تک ظاہر نہیں ہوئیں۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ترجمان نے بیجنگ میں بریفننگ کے دوران بتایا کہ 6764 افراد میں اس وائرس کی تشخیص علامات کے بغیر ہوئی اور ان میں سے صرف 20 فیصد میں کسی قسم کی علامات بعد میں ظاہر ہوئیں اور انہیں مصدقہ کیسز میں شامل کیا گیا۔
اسی طرح 1023 افراد کی مانیٹرنگ طبی قرنطینہ کے دورران تاحال کی جارہی ہے کہ ان میں علامات سامنے آتی ہیں یا نہیں جبکہ باقی 4444 افراد کو علاج کے بعد وائرس کا ٹیسٹ نیگیٹو آنے پر ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ہے۔
درحقیقت نئے نوول کورونا وائرس کا یہ پہلو اس کے پھیلنے کی رفتار میں بہت زیادہ تیزی کا باعث بنا ہے۔
یعنی جب کوئی وائرس سے متاثر ہوتا ہے تو اس کی علامات ظاہر ہونے میں 2 سے 14 دن لگتے ہیں اور اوسطاً 5 دن میں ایسا ہوتا ہے مگر علامات سامنے آنے سے پہلے ہی متاثرہ فرد اس وائرس کو دیگر صحت مند افراد تک منتقل کرسکتا ہے۔
سائنسدانوں نے پہلے خیال ظاہر کیا تھا کہ ایسے مریضوں میں کسی نہ کسی وقت علامات نمودار ہوتیے ہیں مگر چین کے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ایسے افراد کی کمی نہیں جن میں علامات کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتیں اور اس دوران ہوسکتا ہے کہ وہ وائرس کو دیگر افراد میں منتقل کردیں۔
ایسا درحقیقت چین میں سب سے پہلے ریکارڈ بھی ہوا تھا اور فروری میں ووہان کی ایک خاتون نے خاندان کے 5 افراد میں اس وائرس کو منتقل جبکہ وہ خود جسمانی طور پر کبھی بیمار نہیں ہوئی۔
یہ کیس اس وقت سائنسدانوں کی نظر میں آیا جب چائنیز سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے 8 دسمبر سے 11 فروری تک چین میں رپورٹ ہونے والے تمام کیسز کا تجزیہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ 1.2 فیصد افراد میں علامات ظاہر ہوئے بغیر کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔
ان میں سے ووہان کی یہ 20 سالہ خاتون بھی تھی جو 10 جنوری کو یہ آنیانگ شہر گئی تھی اور وہاں 3 دن بعد وہ اور اس کے خاندان کے 5 افراد ایک بیمار شخص کی عیادت کرنے ایک ہسپتال میں گئے تھے۔
17 جنوری کو خاتون کے خاندان کے ایک رکن کو بخار اور گلے میں سوجن کی شکایت کا سامنا ہوا جبکہ اگلے ہفتے دیگر 4 کو بھی بخار اور نظام تنفس کے مسائل کی علامات کا سامنا ہوا، ان سب کو 26 جنوری کو ففتھ پیپلز ہاسپٹل میں داخل کرلیا گیا۔
جب ڈاکٹروں نے اس خاتون میں کورونا وائرس کے ابتدائی ٹیسٹ کیے تو نتائج منفی ثابت ہوئے، اس کا سی ٹی اسکین بھی نارمل تھا، مگر ایک دن بعد اس میں وائرس کی تصدیق ہوگئی حالانکہ اس میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
11 فروری تک بھی خاتون میں بخار، کھانسی، گلے میں سوجن یا کسی قسم کی دیگر علامات نظر نہیں آئی تھیں۔
اب بھی سائنسدان اس حوالے سے مسلسل تحقیق کررہے ہیں کہ ایسے افراد جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، ان میں اس مرض کی نشانیاں کیا ہوسکتی ہیں اور حال ہی میں عندیہ ملا کہ ایسے مریضوں میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی عموماً واحد علامت ہوتی ہے۔
درحقیقت بغیر علامات والے مریض بھی چین میں اس لیے پکڑ میں آگئے کیونکہ ان کے ارگرد کے لوگوں میں اس کی علامات ظاہر ہونے پر پورے خاندان کے ٹیسٹ ہوئے، ورنہ کسی قسم کی نشانیاں نہ ہونے پر تشخیص ممکن ہی نہیں۔
چین میں ایسے افراد کو عموماً الگ تھلگ رکھ کر اس وقت تک نگرانی کی جاتی ہے جب تک وائرس کا ٹیسٹ نیگیٹو نہیں ہوجاتا، یا اگر 2 ہفتے کے قرنطینہ میں علامات ظاہر ہوجائیں تو انہیں مصدقہ کیسز کا درجہ دیکر علاج کیا جاتا ہے۔
علامات ظاہر نہ ہونے والے مریضوں میں عموماً مرض کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے تو جلد صحتیاب ہوجاتے ہیں، مگر اس سے پہلے وہ کتنے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، یہ وہ سوال ہے جس پر سائنسدان مسلسل کام کررہے ہیں۔