لیبیا: حکومت نے خلیفہ حفتر کی فورسز سے 2 شہروں کا قبضہ واپس لے لیا
لیبیا میں عالمی طور پر تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) کی فوج نے متحارب گروپ خلیفہ حفتر کی فورسز کو دو اہم شہروں سے بے دخل کرنے کا دعویٰ کردیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کا کہنا تھا کہ خلیفہ حفتر کی افواج کو دارالحکومت طرابلس اور تیونس کی سرحد کے درمیان واقع دو اہم اسٹریٹجک ساحلی شہروں سے بے دخل کردیا گیا۔
جی این اے کے ترجمان محمد غنونو نے ایک بیان میں کہا کہ 'ہماری فورسز نے صرمان اور صبراتا کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور پیش قدمی جاری ہے'۔
مزید پڑھیں:ترکی اور روس کا لیبیا میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ
رپورٹ کے مطابق حکومتی فورسز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر تصاویر جاری کیں جن کے حوالے سے انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ خلیفہ حفتر کی فوج سے قبضے میں لیا گیا اسلحہ ہے۔
حکومتی فورسز کے مطابق انہوں نے حفتر کی فوج سے راکٹ لانچرز، 10 ٹینک اور فوجی گاڑیاں قبضے میں لی ہیں۔
جی این اے کے کمانڈر محمد الغامودی کا کہنا تھا کہ صرمان اور صبراتا کو 6 گھنٹے کی لڑائی کے بعد واپس لیا گیا جس کے لیے فضائی مدد بھی حاصل تھی۔
دوسری جانب خلیفہ حفتر کے کمانڈر سیراج کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
حکومتی فورسز کا کہنا تھا کہ 'صبراتا اور صرمان پر قبضے سے وہ پورے ساحلی علاقے اور طرابلس کو تیونس سے ملانے والی شاہراہ کو آسانی سے کنٹرول کرسکتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومتی فورسز حفتر کے زیر قبضہ مرکزی شہر زوارہ میں لڑنے والی بربر اور عمازیغ فورسز کے ساتھ شامل ہوسکتی ہیں اور مضبوط ایئربیس الواطیہ کی طرف پیش قدمی کرسکتی ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں:لیبیا: متحارب گروپس کے سربراہان کی عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت متوقع
اس سے قبل کرنل محمد قانونو نے کہا تھا کہ جی این اے کی فضائیہ نے ابوغرین میں خلیفہ حفتر کی فورسز کے ایک جہاز کی مداخلت کو ناکام بنا دیا تھا اور چینی ساختہ دو ایئر کرافٹ اور ایک روسی ساختہ ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر کو مار گرایا تھا۔
رپورٹس کے مطابق اس لڑائی میں جی این اے کے 9 فوجی بھی مارے گئے اور خلیفہ حفتر کے 30 جنگجو ہلاک ہوئے۔
الجزیرہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لیبیا کی حکومتی فورسز نے ترکی سے ملنے والے ڈرونز کا استعمال کیا۔
خیال رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران اقتدار سے الگ کیا گیا تھا۔
معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔
مزید پڑھیں:عرب لیگ کی لیبیا میں فوج بھیجنے کیلئے ترک پارلیمنٹ کی منظوری کی مذمت
جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل ہے۔
ایل این اے نے اپریل 2019 سے طرابلس کی حکومت کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا اور دارالحکومت طرابلس سے محض 370 کلومیٹر دور سرت پہنچ چکے تھے جہاں کئی مہینوں سے لڑائی جاری تھی۔
جی این اے کے فورسز کا کہنا تھا کہ وہ خون خرابے سے بچنے کے لیے سرت سے پیچھے ہٹے ہیں جہاں پر ان کا قبضہ 2016 سے قائم تھا۔