پاکستانی سیاحت پر کورونا بحران کے بڑھتے سائے
بے شک اللہ نے انسان کے لیے اس کائنات میں بے پناہ نعمتیں، سہولتیں اور وسائل رکھے ہوئے ہیں۔ نوع انسانی کی فطرت، عادت اور پسند کو خالقِ کائنات سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ کسی کے دل کو لبھانے کے لیے بلند و بالا پہاڑ تو کسی کی لطف اندوزی کے لیے محوِ رقص سمندر بنائے، کہیں صحرا کو پُراسرار خوبصورتی بخشی تو کہیں جنگلوں کو حیاتی تنوع سے سرشار کیا۔
انسانی زندگی میں بدلتے موسموں کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ کسی کو سردیاں پسند ہیں تو کوئی گرمیوں کا شیدائی ہے۔ شاید ہی اس زمین پر کوئی شخص ایسا ہو جسے بہار کا موسم اور اس کے رنگ پسند نہیں ہوں۔ بہار کا موسم جہاں اپنے اندر فرحت بخش تازگی لے کر آتا ہے وہیں سیاحت کے شوقین لوگوں میں خوبصورت نظارے دیکھنے کی خواہش کو جنم دیتا ہے۔
مگر افسوس اس بات کا ہے کہ رواں سال موسمِ بہار تو آیا ہے لیکن کورونا نامی ایک ایسا مہلک جراثیم سیاحت کے شوقینوں کی دیوانگی پر غالب آگیا ہے کہ جس میں بے احتیاطی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس وقت دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں بہار کے رنگ ہر سوں پھیلے نظر آرہے ہیں لیکن ان رنگوں کو دیکھنے سے سیاح تو درکنار مقامی لوگ بھی قاصر ہیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے جہاں دنیا کے تمام کاروبار بند کردیے ہیں وہیں عالمی سیاحت کو بھی بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ برج خلیفہ سے لے کر ایفل ٹاور اور ترکی کی مشہور نیلی مسجد سے رومانوی شہر وینس سمیت تمام سیاحتی مقامات پر اس وقت سناٹا چھایا ہوا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سیاحت فورم انسٹیٹیوٹ کے سربراہ بلت بیگسی نے بتایا ہے کہ عالمی شعبہ سیاحت کو کورونا وائرس سے ایک کھرب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ اس وائرس کے پھیلنے کی رفتار اور سیاحتی شعبے پر مرتب ہونے والے اثرات پر زور دیتے ہوئے بلت بیگسی نے مزید بتایا کہ اس شعبے میں کام کرنے والے 5 کروڑ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔
سیاحت سے سالانہ اپنی جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ حاصل کرنے والے امریکا، متحدہ عرب امارات، اٹلی، اسپین، فرانس، جنوبی کوریا، جاپان، چین، ہانک کانگ، تھائی لینڈ، ترکی، ملائشیا سمیت دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں اس وقت لاک ڈاؤن ہے۔ جس کی وجہ سے سیاحت کے شعبے پر دیرپا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
تاریخ میں اس سے پہلے سیاحت کے شعبے پر اس قدر بُرا بحران کبھی نہیں آیا۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر وبا پر قابو پالیا گیا تو بھی شعبہ سیاحت کی بحالی آسان نہیں ہوگی اور اس کا اثر سیاحت سے منسلک 60 سے زائد کاروباری شعبوں پر پڑے گا۔
پاکستان میں شعبہ سیاحت اگرچہ اکثر و بیشتر دہشت گردی کے واقعات، قدرتی آفات اور ملکی سیاست کی رسہ کشی و دیگر کئی وجوہات کے باعث مختلف صورتوں میں متاثر رہا ہے مگر گزشتہ 3 سے 4 سالوں سے ملک میں امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال، قدرتی آفات میں کمی، سوشل میڈیا پر عوام میں آگاہی اور حکومتی توجہ سے سیاحت کی صنعت میں بہت بہتری آئی اور یہ شعبہ بھی ملکی جی ڈی پی میں 80 کروڑ روپے سے زائد کا حصہ ڈالنے کے قابل ہوگیا تھا اور توقع کی جارہی تھی کہ 2025ء تک یہ رقم ایک کھرب تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان میں مئی سے اگست تک کے سیاحتی سیزن کے لیے غیر ملکی سیاحوں کی بکنگ و ریزرویشن کا عمل مارچ تک مکمل ہوجاتا ہے مگر اس بار کورونا ایمرجنسی کی وجہ سے اب تک غیر ملکی سیاحوں کی بکنگ نہ ہونے کے برابر ہے اور جو پہلے ہی ہوچکی تھی، اب وہ بھی منسوخ ہورہی ہیں۔ پاکستانی پہاڑ سر کرنے والے کوہ پیماؤں اور سیر سپاٹے کے لیے آنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق اٹلی، جرمنی، اسپین، پولینڈ، جاپان اور کوریا سے ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے مذکورہ ممالک ہی کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ان ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی سیاحوں کی ہر سال 50 سے زائد ایکسپڈیشن (کوہِ پیمائی مہمات) ہوتی ہیں تاہم رواں برس ان کی منسوخی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ان مہمات کی منسوخی سے اسکردو، ہنزہ، شمشال، نلتر، چترال کے مقامی گائیڈز، پورٹرز (قُلی) اور جیپ ڈرائیور بُری طرح متاثر ہوں گے۔
سیاحتی خدمات فراہم کرنے والی ویب سائٹ فائنڈ مائی ایڈوینچر کے بانی کومیل احمد کے مطابق 2 ہزار 865 خاندان ان غیر ملکی مہمات کے نہ ہونے کی وجہ سے براہِ راست متاثر ہوں گے۔
مشہور کوہِ پیما اور متعدد کتب کے مصنف محمد عبدہ اور آل پاکستان ٹؤر آپریٹرز ایسوسی ایشن کے صدر حمزہ خالد کے مطابق موجودہ صورتحال سے گرمیوں کا سیزن بھی متاثر ہوگا۔ غیرملکی سیاحوں کی آمد تو درکنار مقامی سیاح بھی نکلنے سے گریز کریں گے۔
کورونا وائرس کے موجودہ بحران میں سیاحت سے منسلک مندرجہ ذیل شعبہ جات و کاروبار بُری طرح متاثر ہوں گے۔
ایئر لائن کی صنعت
ایئر لائن کی صنعت کو اس وقت پوری دنیا میں 50 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان ہوچکا ہے اور سال کے آخر تک اس نقصان کا تخمینہ کئی گنا زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی عمرہ و حج کی ممکنہ بندش اور دیگر ممالک کی پروازوں کی معطلی سے ایئر لائن کی صنعت بُری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کو اب تک 4 ارب کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یوں مستقبل قریب میں پی آئی اے کے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے امکانات محدود ہوتے نظر آرہے ہیں۔
ٹریول ایجنسیاں
پاکستان میں لاکھوں افراد ٹریول ایجنسی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ایئر لائن آپریشن کی اچانک بندش سے یہ کاروباری طبقہ اربوں روپے ٹکٹس کی ریفنڈ کے سلسلے میں ائیر لائن کے پاس پھنسا چکے ہیں۔ جبکہ عمرہ، حج، ایران اور عراق کے مقدس مقامات کی زیارت، بین الاقوامی سیر وسیاحت پر پابندی اس کاروبار سے وابستہ افراد کو بدترین مالی بحران کا شکار بناسکتی ہے۔
ٹؤر آپریٹرز
پاکستان میں اس وقت آل پاکستان ٹؤر آپریٹرز ایسوسی ایشن کے ساتھ 70 ٹؤر آپریٹر، پاکستان ایسوی ایشن آف ٹؤر آپریٹرز کے ساتھ تقریباً 100، آل پاکستان ٹؤر آپریٹرز کے ساتھ 400 ٹؤر آپریٹرز رجسٹر شدہ ہیں جبکہ غیر رجسٹر شدہ آپریٹرز کی تعداد بھی لگ بھگ اتنی ہی بنتی ہے۔
ان ٹؤر آپریٹرز میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جنہوں نے ملکی سیاحت کے رجحان میں نمایاں اضافہ دیکھتے ہوئے ایک یا 2 سال پہلے ہی اس شعبے میں قدم رکھا تھا۔ عام حالات میں گرمیوں کے سیزن سے آپریٹروں کو اتنا منافع ہوجاتا ہے کہ سال بھر کے اخراجات پورے ہوجاتے لیکن موجودہ حالات کی وجہ سے اگر گرمیوں کا سیزن متاثر ہوتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان اس شعبے میں نئے آنے والے نوجوان کاروباری طبقے کو اٹھانا پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اس کام کو شاید چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں، اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو سیاحت کے شعبے میں آنے والے تمام افراد کی یقیناً حوصلہ شکنی ہوگی۔
ہوٹل کی صنعت
شمالی علاقہ جات کے تقریباً 70 فیصد لوگوں کا روزگار ملکی سیاحت پر منحصر ہے۔ ان میں زیادہ تر افراد ہوٹلنگ کے مختلف کاموں سے وابستہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اسکردو میں تقریباً 200، ہنزہ میں 350، گلگت بلتستان کے مختلف سیاحتی مقامات پر 150، وادئ سوات میں 400، وادئ نیلم میں 50 اور وادئ ناران میں 500 سے زیادہ ہوٹل بہار کے اس خوبصورت موسم میں بند پڑے ہوئے ہیں۔
چنانچہ موجودہ صورتحال میں ان ہوٹلوں سے وابستہ ہزاروں خاندان مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدور کے مطابق موجودہ حالات کا اثر نہ صرف ان ہوٹلوں میں کم تنخواہ پر کام کرنے والے بیرے، خاکروب، باورچی اور دیگر عملے پر پڑے گا بلکہ سالانہ بنیاد پر لیز پر لینے والے اور بینکوں سے قرضہ لینے والے ہوٹل مالکان کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ٹرانسپورٹ
چونکہ سیاحت کے شعبے میں ٹرانسپورٹ کا کردار کلیدی ہوتا ہے مگر پاکستان میں سیاحت نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں بہت کم لوگ ہی اپنا سرمایہ لگانے کا رسک لے رہے تھے۔ لیکن گزشتہ 3 یا 4 سالوں میں پاکستان میں سیاحت کو جتنا فروغ ملا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس شعبے پر ہونے والی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ بعض افراد نے تو لیز پر اور کچھ نے سرمایہ کاروں سے ماہانہ بنیاد پر چھوٹی بڑی گاڑیاں حاصل کرلی تھیں۔ موجودہ صورتحال میں اس شعبے میں نئے آنے والے افراد کے ساتھ ساتھ پرانے ٹرانسپورٹروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مقامی سطح پر دیوسائی، نلتر، ہوشے، سیف الملوک، شوگران، سری پایہ، رتی گلی، فیری میڈوز اور مہوڈنڈ جھیل میں ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے والی جیپوں کے ہزاروں ڈرائیوروں کے لیے اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنا نہایت کٹھن ہوجائے گا۔
پورٹر اور گائیڈ
کے ٹو، مشبرم، براڈ پیک، نانگا پربت، راکا پوشی اور دیگر بلند چوٹیوں پر غیر ملکی و ملکی سیاحوں کو پہنچانے میں مدد اور رہنمائی فراہم کرنے والے ایسے مقامی گائیڈ اور پورٹروں یا قلیوں کی ایک بڑی تعداد شمالی علاقہ جات میں مقیم ہے جن کا گزر بسر اسی کام پر منحصر ہے۔ پاکستانی سیاحت کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان سے سب سے زیادہ شاید یہی لوگ متاثر ہوں گے۔
ٹراؤٹ فشریز
شمالی علاقہ جات بشمول سوات و وادئ کاغان میں ٹراؤٹ مچھلی فارموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اس کاروبار سے وابستہ افراد کا انحصار بھی سیاحت کے شعبے پر ہوتا ہے۔ اب جبکہ سیاحت کم ہوگی تو اس کی کھپت میں بھی کمی ہوگی اور یوں جن جن افراد کا روزگار اس سے وابستہ تھا، ان پر بھی اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
حرفِ آخر
پاکستان میں سیاحت کی ڈوبتی نیّا کو بچانے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے
- ایئر لائن کی صنعت اور ٹریول ایجنٹوں کے عمرہ ویزے کی مد میں پھنسے ہوئے اربوں روپے نکالنے کی کوشش
- ٹیکسوں میں ریلیف دینے،
- ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کے لیے بینکوں سے قرضہ لینے والے افراد کو بینکوں کی طرف سے تعاون اور سود میں کمی،
- لوکل ٹؤر آپریٹرز کے لیے خصوصی پیکج
- اس شعبے سے وابستہ پورٹرز، گائیڈ، ڈرائیور اور ہوٹل میں کام کرنے والے افراد کے لیے خصوصی اقدمات
یہ وہ کام ہے جنہیں ہر حال میں کرنا ہوگا، ورنہ یاد رکھیے کہ ہم نے بڑی مشکل سے ابھی سیاحتی شعبے کو پیروں پر کھڑا ہی کیا تھا اور اگر آج لوگ نقصان کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے تو دوبارہ اس صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک بار پھر بہت زیادہ محنت کرنی ہوگی۔
عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں