این-95 ماسک پہننے کا معاملہ، صدر مملکت نے وضاحت پیش کردی
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے این-95 ماسک پہننے سے متعلق خود پر ہونے والی تنقید پر کا جواب دے دیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وضاحت پیش کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ بطور ڈاکٹر میں غلط استعمال اور ضیاع سے اچھی طرح واقف ہوں، میں اس این-95 ماسک کو استعمال کر رہا تھا جو مجھے چین کے دورہ پر ملا تھا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے واضح کیا کہ آخر کار گزشتہ روز ماسک کی ڈوری ٹوٹ گئی جس کے بعد اگلی ملاقات میں آپ مجھے ونگ کمانڈر نعمان اکرم شہید کے گھر عام ماسک پہنے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’امید ہے کہ میری وضاحت کو یکساں اہمیت دی جائے گی‘۔
واضح رہے کہ اپنے ٹوئٹ میں صدر مملک ڈاکٹر عارف علوی نے ڈان اخبار کی اس رپورٹ کا عکس بھی اپنے ٹوئٹ کے ساتھ شیئر کیا جس میں ان کے خلاف ہونے والی والی تنقید کا ذکر تھا۔
قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی کی جانب سے این-95 ماسک پہن کر اجلاس میں شریک ہونے پر انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے این-95 ماسک پہن کر پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور میں سول سیکریٹریٹ کے دربار ہال میں ’کووڈ 19: روک تھام ، تخفیف اور کنٹرول’ کے حوالے سے بریفنگ سیشن کی صدارت کی تھی، جس کی تصاویر اور ویڈیو وائرل ہوگئی تھیں۔
ان تصاویر اور ویڈیوز کے بعد شعبہ صحت سے وابستہ طبی عملے بشمول ڈاکٹروں نے ڈاکٹر عارف علوی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ حکومت لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ صرف قرنطینہ یا آئیسولیشن مرکز میں فرائض انجام دینے والے طبی عملے کے لیے این-95 ماسک پہننا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فرنٹ لائن پر کام کرنیوالے طبی عملے کا تحفظ حکومت کی ترجیح ہوگی، وزیراعظم
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے پہلے بھی الزام لگایا تھا کہ ڈاکٹر ذاتی حفاظتی ساز و سامان (پی پی ای) کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ایک ہدایت نامہ تیار کیا گیا جس کے مطابق صرف آئسولیشن وارڈز میں کام کرنے والے طبی عملے کو این-95 ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا۔
انہوں نے تاکید کی تھی کہ یہاں تک کہ آئیسولیشن وارڈز میں مریضوں اور ہسپتال کے دیگر عملے کے لیے این-95 ماسک پہننا ضروری نہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ اگر پی پی ای کا غلط استعمال نہ روکا گیا تو پاکستان کے پاس کافی تعداد میں اسٹاک نہیں ہوگا۔
تاہم دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے صدر مملکت کا نام لیے بغیر بیان جاری کیا کہ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو N-95 ماسک نہیں پہننا چاہیے۔
مزیدپڑھیں: بلوچستان: ’95 فیصد ملنے والا طبی سامان ڈاکٹرز کو فراہم کیا جاچکا ہے‘
بیان میں کہا گیا تھا کہ پی ایم اے نے مشاہدہ کیا ہے کہ کورونا وائرس یا بغیر کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے صحت کے عملے کی دیکھ بھال کے لیے درکار حفاظتی کٹس کا غلط استعمال کیا جارہا ہے، خاص طور پر این-95 ماسک کا غلط استعمال پی ایم اے ممبروں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے دیکھا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ان دنوں سیاستدان اور بیوروکریٹس اکثر ملاقاتوں اور دوروں کے دوران N-95 ماسک پہنے ہوئے دیکھے جاتے ہیں جبکہ صحت کے پیشہ ور افراد کو اس ماسک اور پی پی ای کی شدید قلت کا سامنا ہے‘۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ این-95 ماسک ہر ایک کے لیے ضروری نہیں ہے بلکہ یہ قرنطینہ یا آئسولیشن میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں پی ایم اے نے زور دیا تھا کہ ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے کیونکہ وہ کورونا وائرس کے خلاف صف اول کے سپاہی ہیں۔
مزیدپڑھیں: کورونا وائرس: کور کمانڈرز کانفرنس کا ڈاکٹر،طبی عملے،سیکیورٹی اداروں کو خراج تحسین
پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا تھا کہ طبی عملے اور عام لوگوں کے لیے مختلف اقسام کے ماسک دستیاب ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ شہری کپڑے والے ماسک استعمال کرسکتے ہیں جنہیں ہر دن دھونا ضروری ہے، جراحی کا ماسک طبی عملے کے لیے ہے جو بنیادی دیکھ بھال کی سطح پر اور سرجری کے دوران غیر کورونا مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔
انہوں نے میڈیا کو اس قسم کی آگاہی کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کا کہتے ہوئے بتایا کہ این-95 ماسک خاص طور پر مہلک وائرس کے مریضوں کے علاج کرنے والے طبی عملے کے تحفظ کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو مراسلہ
ادھر پاکستان ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن نے کوئٹہ میں پی پی ای کی عدم دستیابی کے خلاف احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں، فارماسسٹ اور پیرا میڈیکس پر تشدد کی شدید مذمت کی۔
وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے مراسلے میں ایسوسی ایشن نے ان سے اپیل کی کہ وہ تحقیقات کریں کہ پی پی ای کی فراہمی میں کمی کیوں ہے؟
مزیدپڑھیں: کورونا وائرس: سندھ میں متاثرین 1000 سے متجاوز، ملک میں اموات 61 ہوگئیں
انہوں نے کہا کہ ہمارے 27 فروری 2020 کو لکھے گئے مراسلے میں ہم پہلے ہی درخواست کر چکے ہیں کہ ہمارے اہلکار (پولیس، ایف آئی اے، آئی بی، اے ایس ایف، اے این ایف وغیرہ)، ہسپتال کا عملہ (ڈاکٹروں، نرسوں، فارماسسٹ، پیرا میڈیکل اسٹاف وغیرہ) اور اساتذہ (اسکول اساتذہ، کالج پروفیسرز، یونیورسٹی پروفیسرز وغیرہ) کے پاس منہ کے ماسک اور کورونا وائرس کے خلاف دیگر سامان نہیں۔
خط میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں ماسک اور تحفظ کی شدید قلت ہے جبکہ 2 کروڑ سے زیادہ فیس ماسک اور دیگر حفاظتی چیزیں پاکستان سے اسمگل کی گئیں۔