پلازما سے کورونا وائرس کے علاج کا معاملہ - اصل کہانی کیا ہے؟
بُری خبروں کا سلسلہ جاری ہے۔ تمام ملکوں میں کیسوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وبا تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ روزانہ ہر صوبے میں متاثرین اور اموات کی بڑھتی مجموعی تعداد سُن سُن کر نہ صرف ہمارے ملک میں بے چینی اور غیر یقینی کی فضا پیدا ہوگئی ہے بلکہ پوری دنیا کا بھی یہی حال ہے۔
ہم پہلے ہی اپنے ملک میں پولیو وائرس سے نمٹنے میں مصروف تھے، پھر لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کی وبا پر بمشکل ضابطہ لانے میں کامیاب ہوئے اور پنجاب میں ڈینگی کی پھوٹ سے (اگرچہ مکمل طور پر تو نہیں لیکن ایک بڑی حد تک) جان چھڑا کر بیٹھے ہی تھے کہ کورونا وائرس نے دروازے پر دستک دے دی۔
موجودہ بحران میں مرض کے پھیلاؤ کا عمل غیر واضح اور حدود سے لاعلم ہے۔ یہ اتنا سادہ اور سہل بھی نہیں ہے کہ آپ نے اپنے باغیچے میں اسپرے کیا اور بیماری پھیلانے والے مچھروں کا خاتمہ کردیا گیا کیونکہ یہاں بیماری پھیلانے والے مچھر نہیں بلکہ ہم خود انسان ہیں۔
کورونا ایک نیا اور منفرد وائرس ہے۔ ہم اب بھی اسے سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے ہیں۔ اس وائرس کو جو بات دیگر وبائی امراض سے خطرناک اور ڈراؤنا بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت اس کا کوئی تصدیق شدہ طبّی علاج دستیاب نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مارکیٹ میں ایسی کوئی ویکسین بھی موجود نہیں جس کی مدد سے انسانوں کو محفوظ رکھنا ممکن ہو۔
تو جب تک اس بیماری کا کوئی باقاعدہ علاج سامنے نہیں آتا تب تک شعبہ صحت سے وابستہ پیشہ ورانہ افراد کو پاس اس کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ مرض کی علامات کا بغور جائزہ لیتے رہیں اور اس کو قابو کرنے کی کوشش میں مصروفِ عمل رہیں۔
وائرس کس طرح مرض کی وجہ بنتا ہے؟
کسی خاص وائرس کی سنگینی کا تعلق اس کا شکار بننے والے شخص کے مدافعتی ردِعمل سے ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کے معاملے میں مدافعتی ردِعمل 2 مراحل میں تقسیم ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں مخصوص مطابقت پذیر مدافعتی ردِعمل (adaptive immune response) پیدا ہوتا ہے جو وائرس کے خاتمے اور مرض کی بڑھوتری کو روکنے کے لیے مطلوب ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی شخص کو مرض لگنے کے بعد جلد سے جلد اسے اینٹی باڈیز اور ایمونوموڈیولیٹرز (immunomodulators) کے ذریعے مدافعتی ردِعمل کو تقویت پہنچانے کے لیے علاج معالجے کی فراہمی ضروری بن جاتی ہے۔
تاہم مدافعتی ردِعمل عمر کے ساتھ کمزور پڑتے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے وائرس سے عمر رسیدہ افراد کو خاص طور پر خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
اگر مدافعتی ردِعمل امراض قلب اور شوگر جیسی بیماریوں کے باعث کمزور یا خراب ہے تو اس طرح وائرس اپنی تعداد بڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں ٹشو کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مدافعتی ردِعمل کا دوسرا مرحلہ نقصان زدہ خلیوں کو پھیھڑوں میں سوجن کے لیے اکساتا ہے۔
اسی موقعے پر وبائی مرض اپنے خطرناک مرحلے میں داخل ہوتا ہے، چونکہ سوجن کے باعث جان لیوا سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اس لیے متاثرین کے لیے خود سے سانس لینا محال بن جاتا ہے۔ مرض کے مختلف مراحل پر صحت بحالی کے مختلف طریقوں کو آزمایا جا رہا ہے اس لیے علاج کی ابتدا سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ مریض مرض کے کس مرحلے میں ہے۔
صحت بحالی کے نئے طریقے
اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے طبّی محققین کی جانب سے کئی تجرباتی علاج کے طریقوں کو تجویز کیا اور آزمایا جا رہا ہے، جن میں سے ایک وائرس کش انسدادِ وائرس ادویات (anti-viral drugs) کا استعمال بھی ہے۔ دیگر ادویات میں امونوموڈیولیٹرز شامل ہیں جو وائرس سے لڑنے کے لیے مدافعتی نظام کی صلاحیت میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔ محققین نے ملیریا کی دوا کلوروکوئن (choloroquine) جیسی دیگر وبائی امراض میں استعمال ہونے والی ادویات پر بھی کام کرنے کی کوشش کی ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ وائرس کو خلیے متاثر کرنے سے روکنے میں مدد کرتی ہیں۔
علاج کے تجرباتی طریقے
صحت بحالی کے ایسے متعدد طریقے جن پر تحقیق ابھی جاری ہے انہیں 'تجرباتی' تصور کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے اب تک مؤثر ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔
تجرباتی علاج یا صحت بحالی کے طریقوں کو کلینکل تحقیق کے مطابق تشکیل کردہ ماحول میں ہی آزمانے کی تجویز دی جاتی ہے۔ جب تک منظم تحقیق کے ذریعے ان کے محفوظ اور مؤثر ہونے کی تصدیق نہیں ہوجاتی تب تک آئیڈیل حالات میں ان کو عام عوام تک نہیں پہنچانا چاہیے۔
تاہم کورونا وائرس کے باعث دن بدن بڑھتی اموات کی تعداد کو مدِنظر رکھیں تو فطری تقاضا یہی ہے کہ جس طریقے میں تھوڑی سی بھی صحتیابی کی امید نظر آتی ہو اسے آزمایا جائے۔
پلازما سے علاج: یہ کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟
ایسا ہی ایک زبان زدِ عام طریقہ علاج انتقال کنویلیسنٹ سیرم convalescent serum رہا ہے جسے پلازما تھراپی بھی پکارا جاتا ہے۔ اس طریقے کو 2014ء میں ایبولا اور اس کے علاوہ سارس اور مرس کی پھوٹ کے موقعے پر آخری امید کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
پلازما سے علاج کے لیے کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے شخص سے خون حاصل کرنا ہوتا ہے اور پھر اس میں سے علیحدہ کیے گئے پلازما کو تشویشناک مریض میں منتقل کیا جاتا ہے۔ پلازما دراصل خون کا ایک شفاف حصہ ہوتا ہے جو خونی خلیے کو علیحدہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے۔ پلازما میں اینٹی باڈیز اور دیگر پروٹین شامل ہوتے ہیں۔ اینٹی باڈیز کے حامل پلازما کی منتقلی سے بیمار شخص کو مرض لڑنے کے لیے 'غیر فعال مدافعت' فراہم ہوتی ہے۔ تاہم غیر فعال مدافعتی عمل عام طور پر چند ہفتے یا مہنیوں تک ہی اثر انگیز ہوتا ہے۔
پلازما تھراپی اور غیر فعال مدافعاتی عمل کے پیچھے چھپی سائنس بنیادی طور پر کوئی نئی یا منفرد نہیں ہے کیونکہ جرمن ماہر ایمولوجسٹ ایمل وون بہرنگ کا متعارف کردہ یہ تصور 1890ء سے وجود رکھتا ہے، اور اس طریقہ علاج کو وسیع پیمانے پر کن پیڑے، خسرے اور پولیو وغیرہ جیسے وبائی امراض کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ جو بھی فرد پلازما عطیہ کررہا ہو اس سے پہلے اس کے کچھ ٹیسٹ ہونا ضروری ہیں، جیسے کورونا وائرس کی تشخیص ہونا اور پلازما عطیے کرتے وقت کورونا وائرس اور دیگر سانس کے وائرسوں، اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی وائرس، ہیپاٹائٹس سی وائرس، ایچ آئی وی اور آتشک کے مرض کا ٹیسٹ منفی آنا لازمی ہے۔ پلازما عطیہ کرنے والوں کا کم از کم 10 دنوں تک کورونا وائرس کے مخصوص اینٹی باڈیز کی وافر مقدار کے ساتھ ہر طرح سے صحتمند ہونا ضروری ہے۔
کیا پلازما تھراپی سے کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج ہوجاتا ہے؟
ہم نہیں جانتے۔ پوری دنیا کے طبّی محققین اور سائنسدانوں کو یہی سوال ستائے ہوئے ہے۔
چین سے حاصل کردہ تجربہ
چین سے حاصل ہونے والے ابتدائی اعداد وشمار حوصلہ بخش ہیں، کیونکہ وہاں جب کورونا وائرس سے شدید متاثرہ افراد مین کنویلیسنٹ سیرم کی منتقلی کا عمل ہوا تو اس کے مثبت نتائج دیکھنے کو ملے۔ تاہم ایسے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملتے جن کی بنا پر اسے 'صحتیابی کا معجزاتی طریقہ تصور کیا جائے۔
اس کے پیچھے متعدد وجوہات ہیں۔ پہلی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین میں ہونے والے مطالعوں میں سے ایک کے مطابق اس تجرباتی طریقے سے کورونا وائرس کے تشویشناک مریضوں کا ایک چھوٹا سا گروہ ہی صحتیاب ہوسکا۔ علاوہ ازیں، اس تحقیق کے مصنفین نے خود چند حدود کو تسلیم کیا ہے بشمول یہ کہ جن مریضوں کو صحت ملی ہے ان کو دیگر مختلف طریقہ علاج بھی فراہم کیا گیا ہے جیسے اسٹیرائیڈز اور انسدادِ وائرس ایجنٹس، اس لیے یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان پر کس طریقہ علاج نے اثر دکھایا۔
دیگر محققین نے اس تحقیق کو 'سنے سنائے کیسوں کی سیریز' پکارتے ہوئے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ یہ کیس غیر نتیجہ خیز ہیں اس لیے چین سے حاصل ہونے والے تجربے کے نتائج عمومی طور پر درست نہیں مانے جاسکتے۔
کورونا وائرس کے علاوہ دیگر امراض کے لیے پلازما کی منتقلی سے متعلق جو گزشتہ تحقیقیں ہوئیں ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ عمل یقینی طور پر رسک سے عاری نہیں ہے اور اس کے باعث مریض کو سائیڈ افیکٹس کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے، جن میں سنگین الرجی ری ایکشن، پھیپھڑوں کی انجری اور دیگر قلبی بیماریوں کے شکار مریضوں میں دورانِ خون میں زیادتی وغیرہ شامل ہیں۔
پلازما تھراپی کی موجودہ صورتحال
پلازما تھراپی مستقبل میں تو امید افزا نتائج دے سکتی ہے لیکن اس وقت یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ ہم غیر یقینی کی صورتحال سے نبردآزما ہیں۔ کنویلیسنٹ سیرم کی منتقلی تجرباتی طریقہ علاج ہے۔
اس وقت کووڈ 19 کنویلیسنٹ پلازما کو یا تو کلینکل ٹرائل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے یا مریضوں کو انفرادی حیثیت میں Emergency Investigational New Drug (eINDs) کے طور پر فراہم کیا جاتا ہے۔
ذکر المؤخر اخلاقی فریم ورک کے زمرے میں آتا ہے جسے (Monitored Emergency Use of Unregistered Interventions (MEURI بھی پکارا جاتا ہے۔ مغربی افریقا میں 2018ء کی ایبولا پھوٹ کے دوران عالمی ادارہ صحت نے کلینکل ٹرائل سے باہر انفرادی حیثیت میں مریضوں کے لیے زیرِ تحقیق صحت بحالی کے طریقوں تک رسائی کے لیے خاص معیارات مرتب کیے تھے۔
ان معیار کی سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ جب کوئی علاج موجود نہ ہو تو ہی اسے MEURI کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات کورونا وائرس کے معاملے پر بھی صادق آتی ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس طریقہ علاج پر عمل سے قبل سند یافتہ سائنسی ایڈوائزری کمیٹی سے منظوری لی جائے۔
امریکا کے معاملے میں ایسا کیا جاچکا ہے کہ جہاں چند دن قبل خوراک اور ادویات کی ریگولیٹری اتھارٹی نے تشویشناک مریضوں کو اس کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ اخلاقی کمیٹی سے منظوری بھی شرائط کا حصہ ہے۔ اسی تناظر میں ان مریضوں کی رضامندی بھی ضروری ہے جن پر یہ تجربہ کیا جارہا ہو جس کے قلیل یا طویل مدتی سائیڈ افیکٹس ہوسکتے ہیں۔ تحقیق کاروں کا کام یہ ہوگا کہ وہ نہ صرف نتائج کو دستاویر کریں گے بلکہ انہیں طبّی اور سائنسی برادری تک بھی پہنچائیں گے۔
MEURI کے تحت پلازما کے استعمال سے متعلق ابتدائی رپورٹس سے اہم معلومات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
تاہم اگلا اہم قدم تحقیقات کے پہلے سے زیادہ سائنسی کلینکل ٹرائل کے ڈیزائن کی طرف جانا ہے کیونکہ اس طریقہ علاج کے حوالے سے نتیجہ خیز شواہد کے حصول کے لیے اسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں پلازما سے علاج کی صوتحال
پاکستان میں پلازما کے استعمال سے علاج کی ٹیکنالوجی وجود تو رکھتی ہے لیکن یہ صرف محدود جگہوں پر ہی دستیاب ہے۔ اسی لیے پورے ملک میں وسیع پیمانے پر اس کا استعمال شاید ممکن نہ ہوسکے۔
ایک یہ بھی مفروضہ پایا جاتا ہے کہ ہر کنویلیسنٹ مریض اپنا پلازما دینے پر رضامند ہے۔ میڈیا کی چکاچوند اور اس حوالے سے پیدا کی جانے والی ہائپ کی وجہ سے حال ہی میں کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والوں پر پلازما عطیہ کرنے کے لیے دباؤ پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ عمل عام خون کے عطیے جیسا نہیں ہے اور عطیہ کرنے والوں کے لیے اس کے اپنے رسک ہیں۔ عطیہ کرنے والے شخص کے جسم سے ’افیئرس‘ (apharesis) نامی عمل سے تقریباً 400 ملی لیٹر پلازما حاصل کیا جاتا ہے۔ افیئرس میں پلازما حاصل کرنے کے لیے عطیہ شدہ خون کو مشین سے گزارا جاتا ہے، جس کے بعد پلازما علیحدہ ہوجاتا ہے اور خونی خلیے لوٹا دیے جاتے ہیں۔
اس عمل کے لیے ایک وسیع کیتھرٹر ٹیوب کو جسم سے منسلک کیا جاتا ہے جسے ڈبل لومین لائن پکارا جاتا ہے اور اس عمل میں 2 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ سائیڈ افیکٹس میں الرجی ری ایکشن، تھکاوٹ، چکر آنا اور قے آنا شامل ہوسکتا ہے۔ یہ سائیڈ افیکٹس اگرچہ عام طور پر ہلکے ہوتے ہیں اور ایک بار عمل رک جانے پر ختم بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ پلازما عطیہ کرنے والے ان کے بارے میں علم رکھتے ہوں۔
یہ ضروری ہے کہ اس تناظر میں عوامی توقعات کو حد سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے۔ میڈیا پر پلازما سے علاج سے متعلق بالخصوص پاکستان کے تناظر میں جس انداز سے تشہیر کی جا رہی ہے اس میں حقیقی خطرے موجود ہیں۔ اگرچہ مایوس کن لمحات میں مورال کی تقویت کے لیے امید کی کرن جگانا ضروری ہے لیکن سائنسی اور طبّی برداری اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیا پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام عوام تک مکمل معلومات فراہم کریں۔
تحقیق سے متعلق ضابطہ بندی
اب جبکہ فزیشن محققین پاکستان کے اندر اس تجرباتی طریقہ علاج کو استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو ایسے میں ان کا مناسب انداز میں معیارات پر پورا اترنا ضروری ہے۔ اس امر کے لیے ضابطہ بند ادارے یا ڈرگ ریگولیٹری آف پاکستان (ڈریپ) سے سائنسی منظوری جبکہ اداریاتی تحقیق کی اخلاقیات کمیٹی اور نیشنل بائیو ایتھکس کمیٹی (این بی سی) آف پاکستان سے اخلاقیاتی منظوری درکار ہوتی ہے۔
این بی سی مریضوں کے تحفظ اور فلاح کا خیال رکھتے ہوئے مطالعوں کے جلد سے جلد آغاز کو یقینی بنانے کے لیے کورونا وائرس سے متعلق ریسرچ تجاویز کے تیزی سے بدلتے جائزوں کو 72 گھنٹوں کے اندر اندر فراہم کر رہا ہے۔ جب طبّی تجرباتی عمل میں انسان شامل ہوں تو اخلاقیاتی نگرانی ضروری ہوتی ہے، اور بحران کے وقت تو اور بھی زیادہ اہم بن جاتی ہے کہ جب آبادیوں کے ممکنہ استحصال کا زیادہ خدشہ رہتا ہے۔
جب کنویلیسنٹ تھراپی جیسے علاج کے تجرباتی طریقوں کو استعمال کیا جائے تو مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو نہ صرف فوائد بلکہ اس کے ممکنہ خدشات/پیچیدگیوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو ریسرچ میں اپنی شرکت کے حوالے سے کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو اور انہیں اس کا بات کا اندازہ ہو کہ یہ ایک غیر ثابت شدہ طریقہ علاج ہے۔ اس قسم کے اقدامات سے بڑے پیمانے پر شفافیت کو یقینی بنانے اور عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
میڈیا کی ذمہ داریاں
میڈیا کا کام کنویلیسنٹ تھراپی کو ایک معجزہ پکارتے ہوئے جھوٹی ہائیپ پیدا کرنا نہیں بلکہ عوام تک متعلقہ اور اس سے جڑی دیگر اہم باتوں کو پہنچانا ہے۔
عوام تک تمام حقائق جانے بغیر نامکمل معلومات کی فراہمی میں اب خاص احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ تحقیق ہمیشہ ایک خاص تناظر میں ہی کی جاتی ہے۔ جب ایک محقق کوئی تحقیق پڑھتا اور اس کے نتیجوں کا جائزہ لیتا ہے تو وہ ان میں مختلف پہلوؤں کی بنیاد پر نتیجوں کی تشریح کرتا یا کرتی ہے۔ مگر جب میڈیا اپنی مخصوص ڈیڈلائنوں سے پہلے پہلے جلدبازی میں انہی تحقیقی مضامین کا جائزہ لیتا ہے تو وہ اس میں گمشدہ پہلوؤں کو اپنی طرف سے شامل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام میں اکثر و بیشتر انتہائی گمراہ کن معلومات پھیل جاتی ہے۔
اس کے نقصانات اس وقت واضح طور پر نظر آئے جب انسدادِ ملیریا کی ادویات کو زور و شور سے کورونا وائرس کا معجزاتی علاج پکارا گیا اور اس کے نتیجے میں اس دوائی کی عالمی سطح پر قلت پیدا ہوگئی اور مہلک اور غیر مہلک زہر آلودگی کی رپورٹس سامنے آئیں۔
مرض اور موت کے متاثرین کی بڑھتی تعداد کے ساتھ اس نا تھمنے والے بحران کے بیچ ہر کام میں جلد بازی کا خیال در آتا ہے۔ تاہم ہم پر عوام کے تحفظ کے لیے ثابت شدہ پیشہ ورانہ اور اخلاقی معیارات پر پورا اترنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سائنسی تحقیق اور نئی دریافتوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے لیکن شیکسپئیر کے رومیو جولیٹ (ایکٹ 2, منظر 3) میں جذباتی رومیو کو معقول اور محتاط آواز کی ترجمانی کرنے والے فریئر لارینس خبردار کرتے ہیں کہ 'عقلمندی اور آرام سے۔ جو تیز دوڑتے ہیں وہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔'
ہمیں کام تو جاری رکھنا ہوگا لیکن عقل سے کام لیتے ہوئے تاکہ ہم ٹھوکر نہ کھائیں۔
اس مضمون میں لکھاریوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جس کا ان کے اداروں سے وابستہ ہونا ضروری نہیں۔
مریم حسن فزیشن محقق ہیں اور شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال و ریسرچ سینٹرسے بطور کلنکل ریسرچ ایڈمنسٹریٹر وابستہ ہیں۔ وہ کلنکل ٹرائلز میں ایم ایس سی، بائیوایتھکس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کی سند رکھتی ہیں اور ریگولیٹری سائنس اور ریسرچ ایتھکس ایریا میں فیلو ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔نتاشا انور لاہور میں آغا خان یونیورسٹی و ہسپتال کی ریجنل لیب سے بطور کنسلٹنٹ مالیکیولر پیتھالوجسٹ وابستہ ہیں۔ وہ وبائی امراض کی مولیکیولر بائیولوجی میں پی ایچ ڈی اور بائیوایتھکس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔صالحہ شیخانی سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) کے سینٹر آف بائیومیڈیکل ایتھکس اینڈ کلچر میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ وہ سماجی علوم میں انڈرگریجویٹ اور بائیوایتھکس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔