’جب میں حفاظتی کٹس بنواسکتا ہوں تو حکومت نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟‘
’صورتحال بہت سنگین ہے اور مجھے فوراً کورونا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی کٹس کی ضرورت ہے۔‘ یہ کال میرے چھوٹے بھائی کی تھی جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہے اور بہت پریشان لگ رہا تھا۔
اس نے مجھے بتایا کہ بہاولپور اور قریب کے دوسرے شہروں میں حفاظتی لباس میسر نہیں۔ میں نے اس کو تسلی دے کر فون تو رکھ دیا لیکن میں خود پریشان ہوگیا۔ گلگت میں ایک نوجوان ڈاکٹر کے جاں بحق ہونے کے خیال نے مجھے مزید بے چین کردیا اور میں سب کام چھوڑ کر لباس خریدنے پنڈی نکل گیا۔
وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مارکیٹیں تو بند ہیں ہی ہیں لیکن مال کی بھی شدید قلت ہے۔ وائرس سے بچاؤ کا لباس تو دُور کی بات آپریشن تھیٹر میں استعمال ہونے والا حفاظتی لباس بھی دستیاب نہیں۔ ادویات اور آلاتِ جراحی کی بڑی دکانوں سے معلوم کیا تو انہوں نے حفاظتی لباس کے نام پر کاٹن سے ملتے جلتے ایک مٹیریل کا گاؤن تھما دیا۔
ڈاکٹری کے حوالے سے میری معلومات سطحی سی ہیں لیکن اس کے باوجود اس لباس کو میں نے دیکھتے ہی مسترد کردیا۔
’یہ تو باریک کپڑا ہے جس میں سے تو پانی بھی بآسانی گزر جائے گا، بھلا یہ کیسے وائرس کو روکے گا؟‘، میں نے دکاندار سوال کیا۔
جواب ملا کہ ان کے پاس فقط یہی دستیاب ہے۔
لیکن چونکہ یہ کام کرنا تھا اس لیے کوشش جاری رکھی لیکن جب پوری مارکیٹ گھوم کر اور بند دکانیں کسی طور پر کھلوا کر بھی بات نہیں بنی تو میں نے ڈاکٹر دوستوں سے معلوم کیا کہ حفاظتی کٹ کی قلت کا معاملہ سرف بہاولپور اور قریب کے علاقے میں ہی ہے اور باقی جگہ سب ٹھیک ہے۔ اگر ٹھیک ہے تو وہاں کیا کچھ استعمال ہورہا ہے؟
اس سوال پر میری معلومات میں اضافہ ہوا کہ پاکستان میں عام طور پر ڈاکٹر حضرات اس وائرس کے خلاف کسی خاص لباس کا تکلف نہیں کرتے، تکلف کیا، ان کو کچھ مل ہی نہیں رہا جس کے سبب زیادہ سے زیادہ کاٹن یا پھر پیپر کا ہوادار گاؤن استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لباس مجھے حفاظتی سے زیادہ نمائشی لگا۔
اب یہ جان کر تو دل مزید کڑھا۔ کورونا کا علاج کرنے والے سیکڑوں ہزاروں ڈاکٹروں، نرسوں اور دوسرے عملے کو حفاظتی لباس مہیا نہ کرنا تو انہیں جانتے بوجھتے موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف لگا۔
خیال آیا کہ وزیرِاعظم کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے صحافیوں کے لیے کورونا سے بچاؤ کا لباس مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا، تو معلوم کیا جائے کہ اس کی کیا صورتحال ہے۔ فوراً وزارتِ اطلاعات رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ اعلان تو وزارت کی طرف سے کیا گیا ہے لیکن کورونا سے متعلق سارے معاملات این ڈی ایم اے دیکھ رہا ہے لہٰذا لباس بھی وہی فراہم کرے گا۔
این ڈی ایم اے فون کیا تو معلوم ہوا کہ چین سے امداد پہنچ تو گئی ہے لیکن اس کو ترتیب دینے میں کچھ وقت لگے گا۔ پہلے ڈاکٹروں کو حفاظتی لباس اور دوسرے آلات مہیا کیے جائیں گے اور پھر کسی دوسرے کی باری آئے گی۔
جب ان سے مشیر اطلاعات کے بیان کی بابت پوچھا تو این ڈی ایم اے کے افسر نے مسکرا کر اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا۔
مایوس ہوکر میں نے سوچا کہ کسی دوسرے ملک سے منگوا لیتے ہیں۔ انٹرنیٹ ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد سے دنیا بھر میں طلب اس قدر بڑھ چکی ہے کہ دنیا کے بڑے حفاظتی لباس بنانے والے ملک چین میں بھی اس کی قلت ہے۔ باقی دنیا کا حال بھی مختلف نہیں۔ اگر کہیں کچھ ہے بھی تو فضائی اور زمینی راستوں کی بندش کی وجہ سے فوری طور پر نہیں منگوایا جاسکتا۔
مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ چین حفاظتی لباس اور آلات بنانے والا دنیا کا ایک بڑا ملک ہے لیکن دسمبر سے وائرس کے حملے کے بعد سے اس کی فیکٹریاں بند پڑی ہیں اور جتنا مال پڑا تھا وہ مقامی طور پر استعمال ہوچکا ہے یا ہورہا ہے۔
جب بات نہیں بنی تو میں نے سوچا کہ یہ لباس میں مقامی طور پر خود بنوا لیتا ہوں۔ ذرا ہاتھ پیر چلانے کے بعد معلوم ہوا کہ کورونا کے خلاف پولی پراپلین کا لباس مؤثر سمجھا جاتا ہے اور یہ پولی تھین سے ملتی جلتی ایک شے ہے۔ اس حوالے سے مدد کے لیے دوستوں کو زحمت دی جنہوں نے راولپنڈی کی تینوں تھوک مارکیٹوں کا کھوج لگا کر بتایا کہ پولی پراپلین اس وقت دستیاب نہیں۔
دکانیں کھنگالنے کے دوران ایک مہربان نے پلاسٹک کی تہہ والا پیراشوٹ استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ کئی طرح کے پلاسٹک کوٹنگ والے پیراشوٹ دستیاب تھے، اور ان میں سے میں نے ایک پسند کرلیا۔ پانی میں بھگو کر جانچا تو واٹر پروف نکلا۔ کپڑے میں اتنی نرمی، لچک اور پائیداری تھی کہ اسے پہن کر گھنٹوں باآسانی کام کیا جاسکتا تھا۔
اب سوچا کہ لیبارٹری سے ٹیسٹ کروا لوں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ نے معذرت کی کہ وہ پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ (پی پی ای) کو نہیں دیکھتے۔ دوسرے سرکاری اداروں سے بھی نفی ہی میں جواب ملا۔ مجبوراً میں نے اپنے طور اس کو جانچا۔
مجھے وہ بین الاقوامی ادارہ برائے صحت کے معیار کے مطابق ٹھیک لگا۔ میں نے فوراً چند سوٹوں کا کپڑا خرید لیا۔ کپڑا لے کے نکلا تو درزی کی تلاش شروع ہوگئی۔ پنڈی گھوما تو معلوم ہوا کہ پلازوں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں لوگوں نے کارخانے بنائے ہوئے ہیں جہاں وہ دوسرے ملبوسات کے ساتھ ورکشاپ اور فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے ون پیس سوٹ بھی بناتے ہیں۔
کسی طور پر ایک کارخانے کے مالک کا پتہ کرکے انہیں بلوایا اور انٹرنیٹ کی مدد کے ذریعے جو ڈیزائن ہمیں بنوانی تھی وہ دکھادی۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ جو چیز ان کو دکھائی تھی وہ انہوں تمام جزئیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کمال مہارت سے کوئی 2 گھنٹوں میں سی دیے۔ سوٹ کے ڈیزائین میں واٹر پروفنگ اور پہننے والے کے آرام کو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھا گیا۔
اس کے علاوہ چہرے کے لیے میں نے مارکیٹ سے پلاسٹک لیا جسے مقامی زبان میں شیشہ پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ پھر اس پر اسٹرپ لگائی تو فیس شیلڈ تیار تھی۔ پلاسٹک کے عام دستانے اور جوتوں کے ساتھ یہ ایک مکمل حفاظتی لباس تھا۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ اس کو بنوانا نہایت آسان اور کم خرچ ثابت ہوا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اس کی لاگت تو عام شلوار قمیض سے بھی کم تھی۔ میں نے یہ سوٹ سلوا کر بھائی کو تو بھیج دیا لیکن میرا ذھن الجھ گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ دسمبر میں کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد سے اب تک 3 ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور میں اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ حکومت نے یہ حفاظتی کٹس مقامی طور پر تیار کرنے سے متعلق کیوں نہیں سوچا؟ کیوں آج تک ہم امداد کے انتظار میں اپنے ڈاکٹروں اور دوسرے طبّی عملے کی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں؟ اور اب جب امداد ہم تک پہنچ گئی ہے تو ہم اس حقیقت کو کیوں نظر انداز کررہے ہیں کہ یہ چین سے ملنے والی تمام چیزیں ڈسپوزیبل ہیں۔ یعنی ایک بار استعمال کے بعد شاید دوبارہ کام نہیں آسکیں۔ تو جب یہ امداد ختم ہوجائے گی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا پھر ہم دوبارہ امداد کے منتظر رہیں گے؟
تو بار بار دوسروں کی جانب دیکھنے سے بہتر یہ نہیں کہ حکومت خود اپنے طور پر یہ کام شروع کرے؟ مارکیٹوں میں مقامی اور درآمد شدہ کپڑا بھرا پڑا ہے اور اعلیٰ پائے کے درزی بھی میسر ہیں۔ سلائی مشینیں اور دوسرے آلات بھی وہی ہیں جو دنیا میں استعمال ہوتے ہیں، یعنی وہی آلات جو کسی بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق بہترین اور سستا حفاظتی لباس تیار کرسکتے ہیں۔
مزید رہنمائی کے لیے سرکاری لیبارٹریاں اور دوسرے ادارے بھی موجود ہیں۔ کیا اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے جیّد لوگوں کو یہ عام سی بات معلوم نہیں؟
جب اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ پورے ملک میں ایک بھی ایسا محکمہ نہیں جو یہ کام کرے، یعنی نظام میں گنجائش ہی نہیں۔ ریاست کا نظام ایسے بنایا گیا ہے کہ جو چیز بھی درکار ہو اسے کمیشن ایجنٹ کے ذریعے خرید لو۔ اگر مقامی طور پر نہ ملے تو درآمد کروا لو۔ مقامی حکومت سے لے کر وفاقی حکومت تک سب جگہ یہی قانون ہے۔ ایسا کیوں ہے یہ تو معلوم نہیں۔ لیکن ہاں یہ معلوم ہے کہ اس نظام میں بہت سے لوگوں کا بڑا کمیشن بن جاتا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ جو چیز ہم بناسکتے ہیں وہ بھی چین سے منگوا لیتے ہیں کہ وہاں سستی بن جاتی ہے۔ لیکن اب جبکہ کورونا نے چین میں بہت بڑی تباہی مچائی ہے تو خدشہ ہے کہ چین کو اپنی پرانی پیداواری استعداد تک پہنچتے پہنچتے وقت لگے گا۔ پھر اس وقت تیل کی قیمتیں بھی کم ترین سطح پر ہیں اور اگلے کئی ماہ ایسے ہی رہنے کا امکان ہے۔ ہمارے مقامی کپڑے کی درآمد بھی عالمی منڈی کی گرواٹ کی وجہ سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں جب گاڑیاں بنانے والے فورڈ سمیت دنیا کی دوسری بڑی کمپنیاں بھی کورونا کے خلاف حفاظتی آلات تیار کرنے میں لگ گئی ہیں تو ہماری حکومت کیوں پیچھے ہے؟ اگر مقامی صنعت کو مراعات دی جائے تو نہ صرف ملکی ضرورت کے لیے مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں بلکہ اس مشکل گھڑی میں اپنے دیرینہ دوست چین سمیت دوسرے ممالک کی بھی اپنی مصنوعات کی ذریعے ہم مدد کرسکتے ہیں۔
کیونکہ یاد رہے کہ میں نے اپنے طور پر جو کوشش کی اس میں کچھ مشکلات آئیں، مگر جب ریاست اپنے طور پر فیصلہ کرے گی تو نہ صرف یہ کہ کام بہت آسانی سے ہوجائے گا بلکہ بہت اچھے طریقے سے مزید سستا بھی ہوگا۔
تبصرے (10) بند ہیں