کورونا وائرس کی وبا، ماضی سے سبق اور زیریں سندھ کا احوال
تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ
انسانی حیات کی جھولی کی بھی عجیب کتھا ہے۔ یہ وہ جھولی ہے جو کبھی خالی نہیں رہتی۔ فطرت خوشی اور غم کی ہزاروں کڑوی اور شیریں کیفیات کے پھل اس جھولی میں ڈالتی رہتی ہے، اور چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں قبول کرنا پڑتا ہے۔
ہم جب زندہ انسان، یعنی اپنی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اصل میں یہ ان لاکھوں برسوں کے اس جینیاتی سفر کی بات ہوتی ہے جو حیات کی کٹھن پگڈنڈیوں کا سفر کرتے، گرتے پڑتے، سیکھتے سکھاتے، ہنستے روتے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جہاں انسان نے اپنی سیکھ کی زرخیز زمین سے اس دھرتی کے انسان کو سُکھ دینے کے لیے بڑی تگ و دو کے بعد نوع انسانی کو مثبت ایجادات سے نوازا ہے، وہیں اس مثبت سفر میں کچھ منفیت بھی در آئی ہوگی جن کو یقیناً انسان بہتر کرنے کی کوشش میں دن رات مصروف ہے اور یہ حیات کے سفر کا سلسلہ صدیوں کا ہے جن میں یہ تلخ و شیریں لمحات کی لذتیں چکھنے کا سلسلہ بھی یقیناً جاری رہے گا۔
میرے دفتر کے قریب سے گزرنے والی گلی سے موجودہ حالات نے بہت ساری آوازیں اور کیفیتیں چھین لی ہیں۔ وہ گلی جو 15 سے 20 دن پہلے صبح کے 5 بجے سے جاگ جاتی تھی، وہ اب سو گئی ہے۔ دودھ والا، اخباری ہاکر، اسکول کے بچے، بے شمار پھیری والے جو اپنا سامان بیچنے کے لیے گلے سے منفرد آوازیں نکالتے ہیں۔ اندازاً صبح سے شام تک 20 سے تو زیادہ پھیری والے گزرتے ہیں۔ میرے ذہن میں یہ ساری آوازیں گڈمڈ ہیں۔ مگر بچوں کو پتا لگ جاتا ہے کہ یہ آواز، فلاں چیز بیچنے والے کی ہے۔
ایک دال پکوان اور پاپڑ والا گزرتا تھا۔ میں نے خریدار کو بلانے کے لیے اس کے الفاظ کو بڑے غور سے سُنا اور سمجھنے کی کوشش کی، مگر حاصل ندارد۔ پھر بچوں نے بتایا کہ یہ ’آیا پکوان والا‘ کہتا ہے۔ مگر وہ اس طرح اور اس تیزی سے کہتا ہے کہ مجھے اس کی یہ پکار کچھ کرختدار محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کرخدار آواز میں کوئی پرندہ بولتا ہے۔ پھر وہ ’والز‘ قلفی والے کی مخصوص تیز موسیقی بجاتی 3 پہیوں والی سائیکل بھی آنا بند ہوگئی ہے جس کی موسیقی کو سن کر، بچے دوڑتے چلے آتے تھے۔
رات کے 12 ایک بجے تک گلی میں رونق لگی رہتی تھی۔ اب یہ ساری آوازیں، یہ سارے خومچے والے، قلفی والا، بچوں کی باریک آوازیں اور ایک دوسرے سے لڑنے کی چیخ و پکار اور پھر قہقہوں کی آوازیں لاپتا ہوگئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ گلی کسی قبرستان کے بیچوں بیچ نکلتی ہے۔ بھلا بچوں کی چیخ و پکار کے بغیر بھی گلی ہوتی ہے کیا؟
میں جب بدین کے چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہات کو دیکھنے کے لیے نکلا تو صبح کے 9 بجے تھے۔ گلی خاموش پڑی تھی۔ اِکا دُکا آدمی سامنے کھلی پرچون کی دکان اور یوٹیلیٹی اسٹور سے آٹا وغیرہ لینے کے لیے آتے جاتے دکھائی دیے۔ اکثر چہروں پر ماسک تھے اور آنکھوں میں ایک ان دیکھے ویرانوں جیسا خوف بستا تھا۔ مرکزی شارع جہاں رکشاؤں، چنگچیوں اور گاڑیوں کے شور اور دھویں کی وجہ سے ہر وقت ایک عذاب برپا تھا، وہاں اب کچھ نہیں تھا۔
سامنے چوک پر پولیس کی 2 گاڑیاں بھی کھڑی نظر آئیں۔ صبح کے 9 بجے سوتی گلیاں اور شارع دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے، مگر کیونکہ یہ سب حقیقت ہے اس لیے ماننی پڑتی ہے۔ شہر کے جنوب کی طرف ایک وسیع قبرستان ہے جہاں ہزاروں قبریں ہیں۔ راستے کے نزدیک ایک قبر تھی جس کی مٹی ابھی تازہ تھی جس پر پیلو کے درخت کا سایہ تھا۔
اس قبر کے سرہانے 50 یا 60 برس کا آدمی سفید ٹوپی پہنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اس نے گاڑی کی آواز سُنی تو نظر اٹھاکر ہماری طرف دیکھا۔ آنکھوں میں نمکین پانی کی نمی تھی۔ چہرے پر دکھ تھا اور آنکھوں سے نکلتا پانی چھوٹی سفید ہوتی ہوئی داڑھی کے بالوں میں گم ہوجاتا۔ مجھے نہیں پتا کہ منوں مٹی کے نیچے ٹھنڈی قبر میں کون سورہا تھا، مگر جو بھی تھا اس ڈھلتی عمر اور کُب کھاتی پیٹھ والے کو تنہا چھوڑ گیا تھا کہ دنیا میں تنہائی سے بڑا کوئی درد نہیں ہے۔
اس قبرستان سے 2 کلومیٹر آگے ایک نہر آتی ہے۔ اس کو پار کرنے کے بعد جو لینڈ اسکیپ نظر آتا ہے اس میں مجھے کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی۔ بکریاں اور بھیڑیں کٹی ہوئی گندم کی زمینوں میں مزے سے گھاس کے تنکوں کو ڈھونڈتیں اور سر اوپر کرکے بڑے چاؤ سے گھاس کو چباتیں۔ کھیتی باڑی کرنے والے زمینوں میں اپنے کاموں میں جُٹے ہوئے تھے۔ کوئی سورج مکھی کی شاندار فصل کی پانی سے آبیاری کرتا تھا۔ کچھ کسان کپاس کی فصل اگانے کی خاطر زمین کو تیار کرتے نظر آتے۔ کچھ مرد اور عورتیں باقی بچی گیہوں کی فصل کو کاٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ گھاس کی فصل کاٹتے تھے۔ راستے تقریباً خالی تھے۔ کبھی کبھار کوئی موٹرسائیکل یا سامان بردار چنگچی گزرتی تو کچھ پل کے لیے خاموشی ٹوٹتی اور پھر سناٹا چھا جاتا۔
میں چھوٹے سے شہر سیرانی کے قریب ایک گاؤں ’عمر ملوانی‘ کی اوطاق یا بیٹھک پر گیا۔ جہاں 2 چارپائیاں اور ایک بینچ پڑی ہوئی تھی۔ وہاں 3 سے 4 لوگ تھے جو آپس میں باتیں کرتے تھے۔ ہمیں دیکھا تو اپنی باتیں چھوڑ کر ہماری آؤ بھگت میں لگ گئے۔ اب چونکہ ہاتھ ملانے والی رسم کو نہ نبھانے کی ہدایت ملے ابھی کچھ دن ہی ہوئے ہیں، اس لیے ہر کسی نے ہاتھ بڑھایا مگر وہ جلدی سمجھ گئے کہ ہاتھ نہیں ملانا چاہیے۔
میں نے اس اوطاق میں جو 15 منٹ گزارے، وہ میرے لیے حیران کن تھے۔ وہ بہت کچھ جانتے تھے۔ ’کورونا وائرس‘ کے حوالے سے گاؤں کے بڑے (سندھی میں اسے چنگو مڑس کہتے ہیں) عمر ملوانی نے جب بات کی تو مجھے حیران ہونا ہی تھا۔ وہ بڑے آرام اور سکون سے بولتے۔ وہ الفاظ کو بڑی ترتیب کے ساتھ ادا کر رہے تھے۔ بالکل ایسے جیسے میز پر ایک ترتیب سے چیزیں سجائی جاتی ہیں۔
عمر ملوانی کہتے ہیں کہ ’اب اس پر بات نہیں کرتے کہ یہ بیماری کہاں سے آئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آگئی ہے۔ اب اگر ہم نے احتیاط برتی اور حکومت کی ہدایات پر عمل کیا تو اللہ بہتر کرے گا۔ مگر حکومت کو بھی یہ قدم اٹھانا چاہیے تھا کہ دُور دُور سے جو تبلیغ کے لیے جتھے آتے ہیں، ان حالات میں ان کو کہیں بھی آنے نہ دیا ہوتا تو شاید سندھ میں اتنے حالات خراب نہ ہوتے۔
'جہاں تک ان دنوں بے روزگاری کا مسئلہ ہے تو واقعی یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ اچانک سب کچھ بند ہوگیا ہے۔ اب جو روزانہ مزدوری کرکے اپنا گزر سفر کرتے تھے ان کے لیے یہ بڑے مشکل دن ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ مہنگائی اتنی ہے کہ جو روز کی بنیاد پر کچھ روپے کمائے جاتے ہیں وہ روز ختم ہوجاتے ہیں۔ آٹا مہنگا، دودھ مہنگا، چینی مہنگی، گوشت مچھلی مہنگی، ڈاکٹر کی دوائیں مہنگی، اب بچت کا تو آدمی سوچ بھی کہاں سکتا ہے۔ تو جب یہ شہر بند ہوئے تو یہ مزدوری کرنے والے بھی بے بس و لاچار ہوکر خالی ہاتھ گھر پر بیٹھ گئے۔ چلو ہفتے دس دن تک تو اِدھر اُدھر سے لے کر گزارا کرلیں گے۔ مگر آگے کیا ہوگا؟ کون کسی کو روزانہ دے سکتا ہے اور موسمی و دیگر بیماریاں یہ سوچ کر تو نہیں چلی جائیں گی کہ چلو کورونا کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں تو ان کی جان چھوڑ دو۔ ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ، شہروں کو بند کرنے کا سلسلہ اور بڑھ جاتا ہے تو آپ خود سوچیں کیا ہوگا؟‘
’آج اس لاک ڈاؤن کو 10واں روز ہے تو کیا اب تک اس حوالے سے ضلع انتظامیہ، آپ کے چُنے ہوئے اسمبلی ممبران یا کوئی غیر سرکاری تنظیم کا نمائندہ آیا ہے یا کوئی سروے وغیرہ ہوا ہے؟‘
میرے اس سوال پر عمر ملوانی تھوڑا سا مسکرائے، کچھ پل خاموش رہے اور پھر سر کو انکار میں ہلا کر کہا، ’نہیں۔۔ ابھی تک تو کوئی نہیں آیا ہے‘۔
میں ’سیرانی‘ نامی ایک چھوٹے سے شہر میں آیا۔ کچھ پھلوں کے ٹھیلے تھے جن پر تازگی سے کوسوں دُور پھل پڑے تھے۔ پرچون کی دکانیں کھلی تھیں۔ نزدیکی گاؤں سے کچھ لوگ اپنی موٹر سائیکلوں پر آئے ہوئے تھے جو آٹا، مچھلی وغیرہ لیتے اور نکل پڑتے۔ ان کے چہروں پر پریشانی کی کیفیت نمایاں تھی۔ ویسے بھی ’وبا‘ کا جہاں نام آتا ہے وہاں اس نام کے ساتھ کئی درد، تکلیفیں اور وحشتیں بھی ہمراہ ہوجاتی ہیں، جن کو ہم سے پہلے ہمارے آباؤ اجداد جھیل چکے ہیں۔ ایسی وحشتیں خون میں صدیوں تک مسلسل سفر کرتی ہیں۔ اگر ہم ان وبا کی تاریخ کو یورپ یا کسی اور ملک سے نہ بھی شروع کریں اور فقط اپنے خطے سے ہی شروع کریں تو ہمیں پتا لگے گا کہ ہم کیسے مشکل ترین وقتوں سے گزر کر آئے ہیں۔
اس حوالے سے جب میں نے حالات پر گہری نظر رکھنے والے اور تاریخ دان محترم میر الطاف حسین تالپور صاحب سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ وبا کوئی ایسی انوکھی آفت نہیں ہے۔ آپ اگر دیکھیں تو انگریز بیوپاری جو 1660ء میں یہاں سندھ میں آئے تھے وہ لکھتے ہیں کہ، سندھ میں پلیگ نے بڑی بربادی کی تھی۔ پھر 1699ء میں الیگزینڈر ہیملٹن ہمیں بتاتے ہیں کہ ’ان کے آنے سے 3 برس قبل، ننگر ٹھٹہ شہر میں پلیگ کی ایسی وبا پڑی تھی کہ 8 ہزار لوگ موت کے گھاٹ اترے تھے‘۔
سندھ کے گزیٹیئروں کا جائزہ لیا جائے تو ان وباؤں کے حوالہ سے ہمیں بہتر معلومات مل سکتی ہے۔1901ء سے 1905ء تک سندھ میں پلیگ پڑی تھی، اور پھر 1920ء میں ہمیں یہاں وبا ’کالرا‘ کی شکل میں نظر آتی ہے، جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ میں یہاں 1896ء میں پڑی پلیگ سے متعلق کچھ تفصیلات پیش کرتا ہوں، محض اس لیے کہ تقابلی جائزہ لیتے وقت ہم آسانی سے سمجھ سکیں کہ گزشتہ 124 برسوں میں ہم نے کیا کچھ سیکھا ہے۔ 8 دسمبر 1896ء منگل کے دن، کراچی شہر کے ایک برہمن ’رادھے‘ کے جسم پر عجیب قسم کے نشانات ظاہر ہوئے اور اگلے ہی دن یعنی بدھ کو اس کا انتقال ہوگیا۔ پھر انہی علامتوں والی موت کا ایک سلسلہ شہر میں شروع ہوگیا۔
29 دسمبر کو کراچی میڈیکل بورڈ نے کراچی میں طاعون کی ’وبا‘ کی اطلاع دی۔ بندرگاہ پر اکتوبر سے آئے بمبئی کے مسافروں کو قرنطینہ کرنے کے لیے کام شروع کیا گیا اور انتہائی سختی کے ساتھ احکامات پر عمل کرتے ہوئے: جراثیم کش دوا کا چھڑکاؤ کیا اور مریضوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا گیا اور اس طرح اس کالی موت سے لڑنے کی شروعات کی گئی۔
بیماری کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایمرجنسی بنیادوں پر طبّی کیمپ اور عارضی ہسپتال بنائے گئے۔ خصوصی طور پر بنائی جانے والی چوکیوں پر فوج اور پولیس لوگوں کو باہر نکلنے سے باز رکھا کرتی تھی۔ ریلوے کے مسافروں کو چیک کرنے کا عمل کراچی اور دوسرے ریلوے اسٹیشنوں پر شروع کیا گیا۔ مگر پھر بھی مرض پھیلتا گیا جس کی وجہ سے دسمبر 1896ء میں 59، جنوری 1897ء میں 743، فروری میں 995، مارچ میں 864، اپریل میں 538، مئی میں 167، جون میں 23 اور جولائی میں 9 اموات ہوئیں۔ یہ فقط کراچی کا ریکارڈ ہے جبکہ حیدرآباد، ٹھٹہ، جنگشاہی، بدین، تلہار اور زیریں سندھ کے دیگر شہروں میں بھی ہزاروں لوگ اس مرض کے شکار ہوئے۔
پھر کچھ عرصے بعد کالرا کی وبا آئی جس میں بھی ہزاروں لوگ جان سے گئے اور اگر ان دنوں میں ہم ساری دنیا کی خبر لینا چاہیں کہ ان وباؤں نے کیا قیامت ڈھائی تو ان 2 سطروں میں ساری حقیقت چھپی ہے کہ ’ساری دنیا میں طاعون (سیاہ موت) کی وجہ سے مجموعی آبادی نہایت کم ہوگئی اور دوبارہ آبادی کو اس سطح پر لانے کے لیے دنیا کو ایک زمانہ لگا‘۔
ماضی کی ان وباؤں کا خوف اب بھی سینہ در سینہ دل و دماغ میں سفر کرتا ہے۔ میں بھگڑا میمن کی اس چھوٹی سی بستی میں پہنچا، جہاں لکڑی، گارے یا سیمنٹ اور اینٹوں سے بنی دکانیں ہیں۔ اگر غور سے دیکھیں تو پرانے اور نئے دن ایک دوسرے سے بچھڑنے کے لیے جیسے آخری بار گلے مل رہے ہوں۔
لکڑی، گارے اور گھاس کی یہ بناوٹیں کچھ برسوں کی مہمان ہیں۔ مجھے پتا ہے کچھ برسوں کے بعد ان کی فقط کچھ تصویریں ہی رہ جائیں گی۔ میں نے اس چھوٹی سی بستی میں اکثر چہل پہل دیکھی ہے۔ مگر آج ایک ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے وہاں موجود اوطاق کا رخ کیا۔ 2 یا 3 سے زیادہ لوگ وہاں بھی نہیں تھے۔ اوطاق کے مالک ڈاکٹر محمد ابراہیم میمن چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان 3 سے 4 افراد کے ساتھ ہونے والی اس ملاقات سے مجھے اندازہ ہوا کہ گزرے وقتوں کے دکھوں اور پریشانیوں سے لوگ سبق ضرور حاصل کرتے ہیں۔
معاشی طور پر مرتب ہونے والے اثرات سے متعلق جب میں نے ڈاکٹر صاحب سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ ’اب اثرات تو پڑنے ہیں اور سسٹم ایک چین کی طرح ہوتا ہے۔ ایک کڑی متاثر ہوگی تو دوسری کا متاثر ہونا لازم و ملزوم ہے۔ کوئی کم متاثر ہوگی تو کوئی زیادہ۔ اب جو کھیتی باڑی کرتے ہیں یا جن کے کھیت ہیں ان پر بحران کے اثرات اتنے پریشان کن نہیں ہوں گے۔ مگر ہم جب گاؤں سے نکل کر پہلے چھوٹے شہروں کو دیکھیں، جہاں روز کی بنیاد پر مزدوری ہوتی ہے، جیسے نائی، درزی، موچی، لوہار، بڑھئی، گدھا گاڑی، رکشہ یا چنگچی چلانے والا ہوگیا، پھر موبائل بیچنے والا ہوگیا۔ مطلب یہ روزگار کا وہ سلسلہ ہے جو روز کی بنیاد پر چلتا ہے، وہ اچانک بند کرنا پڑگیا ہے اور لوگ گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔
'حکومت نے پہلے 15 دن کا لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا لیکن اب اس لاک ڈاؤن کو 14 اپریل تک بڑھادیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 15 دن تک کوئی آمدن نہیں۔ ایسے حالات میں ایک انتہائی غیر یقینی اور مایوس کُن صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ جس کے پاس اگر کچھ روپے ہیں تو وہ دوسرے کو اس لیے نہیں دے گا کہ خود اس کو بھی پتا نہیں کہ یہ صورتحال کتنے دنوں تک چلنے والی ہے۔ ایسے حالات میں وہ بے چارہ غریب پِس جاتا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر کماتا ہے۔ اب 10 دن سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر اب تک حکومت یا ہمارے سیاسی رہنما میں سے کوئی بھی ہم تک نہیں پہنچا ہے۔
'میرے خیال میں یہ بہتر رہتا کہ یونین کونسل کو یونٹ مان کر کام کی شروعات کی جاتی۔ غیر یقینی کی موجودہ صورتحال جب تک کسی یقین والی کیفیت میں تبدیل نہیں ہوتی تب تک لوگوں کے ذہنوں پر ایک نفسیاتی دباؤ یقیناً بنا رہے گا اور اس کے اثرات مثبت نہیں نکلیں گے۔ مگر ہمیں مثبت سوچنا چاہیے۔ اب حکومت کچھ نہ کچھ تو ضرور کرے گی، اور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہر وقت حکومت حکومت کرنے کے بجائے ہم خود مل ملا کر جو معاشی طور پر مستحکم لوگ ہیں، فی الحال وہی کچھ کرلیں۔ کم سے کم تب تک جب تک حکومت مدد کے لیے نہیں پہنچتی‘۔
ڈاکٹر صاحب کا یقیناً ایک مناسب تجزیہ تھا۔ اوطاق پر کونے میں ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ کپڑے کچھ خستہ تھے اور نیلے رنگ کی قمیض کی آستین کا رنگ اتر سا گیا تھا۔ اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کوئی محنت کش ہے جس کی وجہ سے پسینے کی نمکیات نے نیلے رنگ کو پھیکا کردیا تھا۔
غربت اور بے بسی کے شب و روز، فقط کپڑوں کے رنگ چھینتے تو کتنا اچھا ہوتا، مگر تپتی دوپہروں میں 2 کلو آٹے کے لیے مزدوری کرنا زیست سے نہ جانے کیا کیا چھین لیتی ہے۔ جسم کی طاقت، بالوں کا رنگ، ہاتھوں سے نرمی، آنکھوں سے نور اور ان کے بدلے چہرے کو دے دیتی ہے بے وقت پڑنے والی جھُریاں اور پیٹھ میں کُب۔
میں نے اس کا نام نہیں پوچھا۔ بس کورونا اور ہاتھ دھونے سے متعلق پوچھا۔ وہ کچھ لمحے خاموش تھا پھر 2 سے 3 لوگ جو اوطاق میں بیٹھے تھے ان کو باری باری دیکھا۔ پھر وہ بولا ’ہاں یہ چین سے آئی ہے بیماری۔ ہم ایک دو بار کپڑے دھونے والے صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ آگے اللہ مالک ہے‘۔
میں جنوب میں ماہی گیروں کے گاؤں کی طرف نکلا۔ اب اپریل کے مہینے کی وجہ سے تیز دھوپ سر پر تھی۔ نہر میں یا نہر کے علاوہ مجھے جہاں بھی راستے کے کنارے پانی نظر آیا وہاں چھوٹے چھوٹے بچے بھی نظر آئے۔ کچھ اس تیز دھوپ میں ٹھنڈے پانیوں میں نہاتے تھے جبکہ کچھ بچے جال لیے ان پانیوں سے چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پکڑتے تھے۔ ان کے ذہن و گمان میں بھی کسی کورونا کا خیال نہیں تھا۔ کچھ خوش بھی تھے کہ اسکول بند تھے۔ وہ جو مچھلیاں پکڑتے تھے وہ 2 سے 3 انچ سے بڑی نہیں تھیں۔ مگر دوپہر یا رات کے لیے ایک اچھا سالن پکانے کے لیے وہ کافی تھیں۔ کچھ نے کہا کہ ہم پانی اور مرچ مصالحوں میں ان کا سادہ سالن بنائیں گے۔ کچھ نے کہا، تھوڑے گھی اور لہسن کا تڑکہ لگا کر سالن بنائیں گے۔ یہ وہ زمانے ہوتے ہیں جب یہ بچے اپنی ایک الگ کائنات میں جیتے ہیں۔ ہم نے ان کو ان کی کائنات میں چھوڑا اور آگے نکل پڑے۔
سمندر کنارے مجھے ماہی گیروں کے سارے گاؤں، پتا نہیں کیوں دنیا سے بچھڑے ہوئے گاؤں لگتے ہیں۔ نہ اسکول، نہ ہسپتال، نہ پختہ و نیم پختہ سڑکیں، نہ موبائل نیٹ ورک۔ ایسے حالات میں جینا بڑے حوصلے کا کام ہوتا ہے، اور ان کا نروس سسٹم اتنا زبردست ہے کہ وہ ایسے حالات میں بھی ہنسی مذاق کرلیتے ہیں۔ میں جب گھاس پھوس کے ایک چھپرے میں پہنچا تو 4 سے 5 لوگ بڑے مزے سے دیوار سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھے تھے۔
میں نے ان سے موجودہ حالات سے متعلق پوچھا تو ’کاٹھو ملاح‘ جو 70 برس کے تو ضرور ہوں گے انہوں نے سگریٹ کا گہرا کش لے کر سگریٹ کے ٹوٹے کو پھینکا۔ دھواں پھیپھڑوں سے نکلا تو جواب آیا، 'یہ کورونا یہاں آئے نہ آئے، اگر یہی حالات رہے تو ہم ویسے بھی بھوک سے مرجائیں گے۔ ہم سیزنوں کے سہارے جینے والے لوگ ہیں۔ جاڑے آئیں گے تو یہ کریں گے۔ گرمیاں آئیں تو یہ کریں گے۔ اب جب گرمیاں آئی ہیں اور ہمارے ہاں جھینگے پکڑنے کا موسم شروع ہو رہا ہے تو کراچی بند پڑا ہوا ہے۔ یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ اس برس شاید جھینگا اور مچھلی باہر نہ جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارا سال بھر کا گزر بسر بڑی مشکل سے ہوگا کیونکہ جب مال بکے گا ہی نہیں تو جھینگوں اور مچھلی کو پکڑنے کے لیے جال سمندر میں پھینکیں گے کیوں؟ اور جب پیسہ نہیں ہوگا تو آٹا کہاں سے آئے گا۔ دوا کہاں سے آئے گی؟ ووٹ لینے والے تو ووٹ لے کر چلے گئے۔ پھر شہر سے اتنی دُور یہاں اس گاؤں میں پوچھنے بھی کوئی کیوں آئے گا؟ اور اب جو حالات ہیں اس میں تو کہیں نقل مکانی بھی نہیں کرسکتے‘۔
میرے پاس کاٹھو کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
میں نے آس پاس کی دیگر بستیوں کا بھی رخ کیا۔ حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ اب جبکہ حکومت نے لاک ڈاؤن کو 14 اپریل تک بڑھادیا ہے تو حالات کو یقیناً ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کم وقت میں حکومت کو جلدی میں بہت سارے قدم اٹھانا پڑیں گے۔ ہم اگر ماضی اور حال کا تقابلی جائزہ لیں تو ہم نے اپنی تاریخ سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہم سیکھ رہے ہیں۔
دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ میری گلی کی رونق اور شوروغل کی آوازیں جو وقت نے چھین لی ہیں وہ دوبارہ لوٹ آئیں، میں ایک بار پھر پھیری والے کی وہی کرخت پرندے جیسی آواز سُننا چاہتا ہوں۔ میں والز والوں کی وہ موسیقی، جو مجھے ہمیشہ مُخل کرتی تھی لیکن اب وہ میں سُننا چاہتا ہوں۔ میں بچوں کا وہ شور سننا چاہتا ہوں جو وہ اسکول کی چھٹی کے وقت کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خالی سڑکیں، ویران گلیاں، سہمے لوگ اور بند اسکول بالکل بھی اچھے نہیں لگتے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
تبصرے (10) بند ہیں