حکومت کو پی ایم ڈی سی کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم، تحریری فیصلہ جاری
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی عدم بحالی پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر وفاقی حکومت کو ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل سنگل بینچ نے پی ایم ڈی سی کو عدالتی حکم کے باوجود بحال نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔
فیصلہ جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریر کیا تھا۔
مزید پڑھیں: پی ایم ڈی سی کیس: 'حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے، وزیراعظم کو شرم آنی چاہیے'
تحریری فیصلے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو پی ایم ڈی سی ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی حکومت کو فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا۔
خیال رہے کہ پی ایم ڈی سی کے وکیل نے گزشتہ سماعت میں عدالت کے استفسار پر بتایا تھا کہ کونسل کے ملازمین کو 5 ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریری فیصلے میں کہا کہ رجسٹرار پی ایم ڈی سی اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ کی مشاورت سے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی سے متعلق رپورٹ مرتب کی جائے۔
علاوہ ازیں تحریری فیصلے میں وزارت صحت کو نئے ڈاکڑز اور طالبعلموں کی رجسٹریشن فوری طور پر روکنے کا حکم دیا اور پی ایم ڈی سی کو اختیار دیا کہ وہ نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن کی درخواستیں وصول کرے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریری فیصلے میں ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق رجسڑیشن کرنا پی ایم ڈی سی کی ذمہ داری میں شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایم ڈی سی بحال، پاکستان میڈیکل کمیشن تحلیل کرنے کا حکم
تحریری فیصلے میں رجسٹریشن کرنے والے وزارت صحت کے ملازمین کو رجسٹریشن کا کام جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریری فیصلے میں ہدایت کی گئی کہ رجسٹرار پی ایم ڈی سی عہدے کا چارج سنبھال کر قانون کے مطابق فرائض سرانجام دیں اور کورونا وائرس کے بعد وفاقی حکومت کی بنائی گئی پالیسی پر عملدرآمد کریں۔
واضح رہے کہ 30 مارچ کو جسٹس محسن اختر کیانی نے حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے، وفاقی حکومت، وزیراعظم اور وزیر صحت کو شرم آنی چاہیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے تھے کہ حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے وزیروں اور اعلیٰ حکام کو جیل بھیج دوں گا۔
یاد رہے کہ 20 اکتوبر کو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا تھا جس کے نتیجے میں پی ایم سی کے نام سے نئے ادارے کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔
بعدازاں 28 اکتوبر کو پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر حفیظ الدین اور 31 ملازمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کونسل کو تحلیل کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 فروری 2020 کو پی ایم ڈی سی اور اس کے تمام ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
مزیدپڑھیں: پی ایم ڈی سی کیس: ’پاکستان کو 5 لاکھ عطائی نہیں ڈاکٹر درکار‘
تاہم عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین نے توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی، ملازمین نے مؤقف اپنایا تھا کہ پی ایم ڈی سی کی عمارت کو سیل کردیا گیا ہے اور ملازمین کو داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا تھا کہ وزارت صحت نے عمارت سیل کرنے کی درخواست کی تھی لیکن انتظامیہ نے عمارت سیل کرنے سے انکار کردیا تھا جس پر وزارت صحت نے پی ایم ڈی سی کی عمارت کو خود تالے لگائے۔