• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

کورونا وائرس: پاکستان کا مقبوضہ کشمیر کے قیدیوں کی رہائی، رکاوٹیں ختم کرنے کا مطالبہ

شائع March 30, 2020
مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے لاک ڈاؤن ہے—فائل/فوٹو: اے ایف پی
مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے لاک ڈاؤن ہے—فائل/فوٹو: اے ایف پی

پاکستان نے کورونا وائرس کے پیش نظر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی جبر کے شکار قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرنے اور خطے میں عائد رکاوٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

دفترخارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 'مقبوضہ جموں و کشمیر میں کوروناوائرس کے کئی کیسز کی تصدیق کے باوجود خطے میں ائد پابندیوں پر پاکستان کو گہری تشویش ہے '۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ 'ہزاروں کشمیری نوجوان، سو ل سوسائٹی کے اراکین، صحافی اور سیاسی قیادت بدستور بھارتی جیلوں میں قید ہیں جن میں کئی افراد کو خاندانوں سے دور نامعلوم مقامات پر منتقل کیا گیا ہے'۔

مزیدپڑھیں:وزیر خارجہ کا سلامتی کونسل کو خط، مقبوضہ کشمیر کے سنگین حالات سے آگاہ کردیا

دفترخارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'بھارتی فورسز مقبوضہ خطے میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز اسپشل پاور ایکٹ جیسے غیر انسانی قوانین کے تحت سرگرم ہیں'۔

کشمیری قیادت کی طویل گرفتاری پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'حریت کانفرنس کی سینئر قیادت اپنے گھروں یا مختلف جیلوں میں بند ہے، حریت رہنما یاسین ملک، آسیہ اندرانی اور دیگر رہنما جھوٹے مقدمات میں بغیر کسی ٹرائل کے بھارتی جیلوں میں ہیں'۔

یٰسین ملک سے متعلق بیان میں کہاگیا ہے کہ 'یٰسین ملک کی صحت مسلسل بگڑتی جارہی ہے اور 30 سالہ پرانے مقدمے میں جھوٹی چارج شیٹ بنانے کے خلاف احتجاجاً غیرمعینہ مدت تک بھوک ہڑتال کی دھمکی دے چکے ہیں'۔

دفتر خارجہ کاکہناتھا کہ '5 اگست 2019 سے بھارت نے غیر قانونی اقدامات کیے ہیں اس وقت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اور طلبہ انٹرنیٹ کی فورجی سروس کی بندش کے باعث آن لائن تعلیم سے بھی محروم ہیں'۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا اس وقت صحت کے حوالے سے بدترین ایمرجنسی کا شکار ہے جبکہ بھارت کی 9 لاکھ فوج اورپیرا ملٹری مقبوضہ جموں وکشمیر میں معصوم شہریو ں پر ظلم و ستم ڈھانے میں مصروف ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت کشمیری عوام کو کورونا سے متعلق بنیادی معلومات فراہم نہیں کررہا، دفتر خارجہ

مقبوضہ خطے میں مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ادراک کرے اور بھارت سے مواصلات رکاوٹوں کو ختم کرنے اور شہریوں کو طبی اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے آزادانہ طور پر نقل و حرکت کی اجازت کے لیے فوری مطالبہ کرے'۔

دفترخارجہ نے عالمی برادری پر زور دیاکہ 'بھارتی حکومت سے بھارت کے اندر جیلوں میں موجودحریت کانفرنس کی سینئر قیادت سمیت سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالاجائے'۔

بیان میں عالمی برداری سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات پر عائد پابندیوں کو بھی ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ۔

بھارت کے مظالم سے متعلق بیان میں کہا گیا ہے کہ '5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال دگرگوں ہے لیکن بھارتی حکومت کشمیریوں کے قانونی حق کو اس طرح دبا نہیں سکتی'۔

پاکستان نے کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی تعاون جاری رکھنے کا عزم کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ 'پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور بھارت حکومت کے مظالم کے خلاف مظلوم کشمیریوں سے تعاون اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داوں کے مطابق ان کے حق کو مان نہیں لیا جاتا'۔

مزید پڑھیں:مقبوضہ کشمیر: فاروق عبداللہ کی نظر بندی 8 ماہ بعد ختم

خیال رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دو روز قبل ہی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی سنگین صورت حال سے آگاہ کیا تھا۔

وزیر خارجہ نے اپنے خط میں بھارت کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صورت حال معمول کے مطابق ہے۔

انہوں نے سلامتی کونسل کو بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نوجوانوں کے انتہاپسند کیمپوں کے حوالے سے دیے گئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت لائن آف کنٹرول میں جنگ بندی معاہدے کی 12 دسمبر 2019 سے مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے زور دے کر کہا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور سنگین صورت حال سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کی جانب سے جھوٹی کارروائی کا امکان ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024