پاکستان میں کووڈ 19 کے پہلے مریض سے ایک ہزار تک کا سفر
پاکستان میں نئے نوول کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق 26 فروری کو ہوئی تھی اور اب ایک ماہ بعد ملک میں یہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے۔
اب تک کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے 9 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ صوبوں کی جانب سے اس وبا کی روک تھام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
پاکستان میں کیسز کی تعداد میں اضافہ
ابتدائی 19 دن کے دوران ملک میں کیسز کی تعداد 53 تک ہی پہنچی تھی، مگر 15 مارچ سے تعداد میں اس وقت نمایاں اضافہ ہونے لگا جب پاک- ایران سرحد پر تفتان کے مقام پر زائرین ملک میں واپس پہنچنا شروع ہوئے۔
گزشتہ 10 دن یعنی 15 سے 25 مارچ کے دوران پاکستان میں کووڈ 19 کے کیسز کی تعداد 53 سے بڑھ کر 1026 تک چلی گئی۔
کیسز کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ 19 مارچ کو دیکھنے میں آیا جب یہ تعداد 302 سے چھلانگ لگا کر 457 تک پہنچ گئی۔
متعدد حلقوں کی جانب سے وفاقی حکومت پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ ایران سے واپس آنے والے زائرین کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہی اور مانا جارہا ہے کہ صورتحال کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے غیرموثر اقدامات کے نتیجے میں ملک میں کیسز کی تعداد میں تیزی سے بڑھی۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے مطابق پاکستان میں یہ وبا اس حد تک کبھی نہ پہنچتی اگر وفاقی حکومتی تفتان کے قرنطینہ مرکز میں مناسب پروٹوکول کو یقینی بنانے کے ساتھ اچھے انتظامات کرتی۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ پریشان مت ہوں اور خود کو گھروں تک محدود اور عوامی اجتماعات سے گریز کریں۔
اسلام آباد میں سنیئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'اگر ہم اگلے ڈیڑھ ماہ تک نظم و ضبط کا خیال رکھیں، عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں اور علامات ظاہر ہونے پر ازخود قرنطینہ میں چلے جائیں، تو اس وائرس کے پھیلائو کو قابو میں کیا جاسکتا ہے'۔
صوبوں کی صورتحال
25 مارچ تک پاکستان میں سب سے زیادہ کیسز کی تعداد سندھ میں سامنے آئی جو 413 تھی۔
پاکستان میں کیسز کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ سندھ میں ہی 15 سے 16 مارچ کے دوران ہوا تھا، جہاں کیسز کی تعداد 25 سے بڑھ کر 150 تک پہنچ گئی۔
ایسا ہی اضافہ 23 مارچ کو بھی دیکھنے میں آیا جب کیسز کی تعداد 333 سے بڑھ کر 394 ہوگئی۔
پنجاب میں اب تک 323 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے حالانکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جس کی ممکنہ وجہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں وہاں ٹیسٹنگ کا عمل تاخیر سے شروع ہوا۔
پنجاب میں روزانہ کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ 18 مارچ سے شروع ہوا جب یہ تعداد 33 سے بڑھ کر 83 تک پہنچ گئی۔
سب سے زیادہ اضافہ 22 مارچ کو دیکھنے میں آیا جب کیسز 152 سے بڑھ کر 225 تک پہنچ گئے۔
خیبر پختونخوا میں 23 مارچ تک کیسز کی تعداد صرف 38 تھی جو 25 مارچ تک 121 تک پہنچ گئی۔
سب سے کم تعداد میں کیسز اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے جہاں 25 مارچ تک 20 کیسز کی تصدیق ہوئی۔
لاک ڈائون یا کرفیو
وزیراعظم عمران خان کئی بار ملک گیر لاک ڈائون کے اعلان کے حوال سے اپنی پچکچاہٹ کا اظہار کرچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام کا اقتصادی نتیجہ ملک کے تباہ کن ہوسکتا ہے جبکہ مزدوروں اور دیہاڑی دار افراد کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔
مگر صوبوں خصوصاً سندھ کی جانب سے سب سے پہلے وائرس کی روک تھام کو روکنے کے لیے لاک ڈائون کا نفاذ کیا۔
سندھ کو اس کے فیصلہ کن اقدامات کی وجہ سے سراہا گیا، جہاں مکمل لاک ڈائون کا نفاذ کرتے ہوئے تمام دکانوں بشمول راشن کی دکانیں رات 8 بجے سے صبح 8 بجے تک بند رکھنے کا حکم دیا گیا۔
بعد ازاں پنجاب حکومت نے جزوی لاک ڈائون کا نفاذ کرتے ہوئے تمام عوامی اور نجی دفاتر بند کرنے، ٹرانسپورٹ معطل کرنے کے احکامات جاری کیے۔
بلوچستان میں بھی ایسا ہی کیا گیا اور تمام مالز، دکانیں اور دفاتر بند کرنے کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کی گئی۔
خیبر پختونخوا میں تمام حکومتی دفاتر کو بند کردیا گیا اور انٹرسٹی بسوں پر پابندی عائد کی گئی جبکہ آزاد جموں و کشمیر کے تمام داخلی مقامات سیل کرکے تمام دکانوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، مگر راشن کی دکانیں اور میڈیکل اسٹور کو استثنیٰ دیا گیا۔